پاکستان کو اسلامی دنیا کی پہلی ایٹمی طاقت بنانے والے محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے1976ء میں کہوٹہ لباریٹریز کی بنیاد رکھی اور لگ بھگ 25 سال تک اس کے سربراہ رہے۔ ڈاکٹر خان 1936ء کو بھوپال بھارت میں پیدا ہوئے۔ آپ کا تعلق اُردو اسپیکنگ پٹھان خاندان سے ہے۔
ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے والد ڈاکٹر عبدالغفور خان ایک ماہر تعلیم تھے، جنہوں نے 1935ء میں ریٹائرمنٹ کے بعد ریاستِ بھوپال میں مستقل سکونت اختیار کرلی۔ تقسیمِ ہندوستان کے بعد ہجرت کر کے پاکستان چلے آئے اور مغربی پاکستان میں آباد ہوگئے۔
ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے سینٹ انتھونی ہائی سکول )لاہور) سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد سائنس اور میتھس کی تعلیم کے لیے ڈی جے سائنس کالج کراچی میں داخلہ لیا۔
کراچی یونیورسٹی سے 1960ء میں بی ایس سی میٹالرجی کی ڈگری حاصل کی۔سائمنز انجینئرنگ میں انٹرنشپ حاصل کرنے کے بعدکراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن میں شامل ہوکر سٹی انسپکٹر ویٹ اینڈ میئرکے طور پر کام کیا۔
1961ء میں میٹالرجیکل انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے مغربی برلن تشریف لے گئے اورٹیکنیکل یونیورسٹی آف برلن میں داخلہ لیا۔
ڈاکٹر اے کیو خان نے نیدر لینڈ کی ڈیلفٹ یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی سے ٹیکنالوجی میں ڈگری حاصل کی۔ 1972ء میں ڈاکٹر اے کیو خان نے کیتھولک یونیورسٹی آف لیوئن سے مارٹن برابرز کی نگرانی میں انجینئرنگ کے شعبہ میٹالرجیکل میں پی ایچ ڈی کیا۔ پی ایچ ڈی کا تھیسز جرمن زبان میں لکھا ہوا ہے۔
پی ایچ ڈی کرتے ہی ڈاکٹر اے کیو خان نے ایمسٹر ڈیم کی فزکس ڈائنامکس کی تحقیقی لباریٹری میں شمولیت اختیار کرلی۔ یہاں پر انہوں نے انتہائی طاقتور دھاتوں کو گیس سینٹری فیوج کے قابل بنانے کے بارے میں کام کیا۔ گیس سینٹری فیوج پر پہلے 1940ء میں منہاٹن پروگرام کے دوران میں جیس بیمز نے کام کیا تھا، مگر یہ تحقیق 1944ء میں روک دی گئی تھی۔
فزکس کی جس لیبارٹری میں آپ کام کر رہے تھے، وہ اورینکو گروپ سے منسلک تھی، جو 1970ء میں یورینیم افزودہ کرنے کے لیے المیلو نیدر لینڈ میں قائم کی گئی تھی، تاکہ نیدر لینڈ کے یورینیم پر چلنے والے پاؤر پلانٹ کے لیے یورینیم کی سپلائی کو یقینی بنایا جاسکے۔
ڈاکٹر اے کیو خان نے فزکس لیبارٹریز کو خیرباد کہتے ہوئے اورینکو گروپ میں شمولیت اختیار کرلی۔ یہاں پر آپ کو یورینیم میٹا لرجی پر فزکس کے تجربات کی ذمہ داری سونپی گئی، تاکہ چھوٹے پیمانے پر پانی سے چلنے والے تجارتی گریڈزکے لیے تجارتی پیمانے پر یورینیم کو افزودہ کیا جائے۔
اورینکو گروپ میں کام کے دوران میں ڈاکٹر اے کیو خان کی میٹالرجیکل تحقیق کی وجہ سے اس گروپ کا توتی بولتا تھا۔
ڈاکٹر اے کیو خان کی میٹالرجیکل اور سینٹری فیوج پر اعلا سطح کی تحقیق اور اس کی کارکردگی کو بہتر بنانے سے متعلق شان دار کام کا اثر ترقی یافتہ ’’زفے سینٹری فیوج‘‘ پر واضح نظر آتا ہے جسے روس کے ایک سائنس دان ’’گورنوٹ زفے‘‘ نے 1940میں تیار کیا تھا۔ 1971ء کی پاک بھارت جنگ اور بھارت کی جانب سے ایٹمی تجربات نے ڈاکٹر اے کیو خان کو اپنے وطن کے لیے کچھ کرنے پر مجبور کیا۔ آپ نے حکومت پاکستان کو اپنی خدمات کی پیشکش کیں اور 1974ء میں پاکستان تشریف لے آئے۔
1979ء میں ڈچ حکومت نے یو سی ٹیکنالوجی تک رسائی سے متعلق محض شک کی بنیاد پر آپ کے خلاف ایک مقدمہ دائر کیا اور ڈچ عدالت نے 1985ء میں ڈاکٹر اے کیو خان کی عدم موجودگی میں 4 سال کی سزا سنائی جسے بعد میں ایک اپیل کے ذریعے قانونی اور تکنیکی بنیادوں پر چیلنج کیا گیا اور ڈچ عدالت ہی نے آپ کی سزا کو کالعدم قرار دے دیا۔
1976ء میں ڈاکٹر صاحب نے قومی ایٹمی منصوبے میں شمولیت اختیار کی اور پی اے ای سی کے ممبر بنے۔ 4 جون 1978ء کو یورینیم افزودگی کا پروگرام مکمل ہوگیا تھا۔ 1981ء میں ڈاکٹر اے کیو خان نے ای آر ایل کے آپریشنز کا چارج سنبھالا اور اس کے انٹرم سینئر سائنس دان اور ڈائریکٹر مقرر ہوئے۔
1983ء میں آپ ای آر ایل کے باضابطہ ڈائریکٹر تعینات ہوئے۔ وطن سے محبت اور دفاع کا یہ سفر ان گنت مشکلات سے گزرتا ہوا جاری رہا اور 28 مئی 1998ء کو پاکستان اسلامی دنیا کی واحد ایٹمی طاقت بن گیا۔
ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے بقول پاکستان 1984ء ہی میں ہتھیار تیار کر چکا تھا اور انہوں نے ایک خط کے ذریعے آگاہ کیا تھا کہ ایک ہفتے کے نوٹس پر تجربہ کیا جاسکتا ہے، مگر پاکستان نے کچھ قومی اور بین الاقوامی وجوہات کی بنیاد پر تجربات نہ کرنا مناسب سمجھا۔
ڈاکٹر خان ایک اعلا صفت انسان تھے۔ بعض لوگ آپ پر سارا کریڈیٹ لینے کا الزام عائد کرتے ہیں جو کہ درست نہیں۔
ڈاکٹر اے کیو خان نے ’’دی نیوز انٹرنیشنل‘‘ کو ’’ٹارچ بیرئیر‘‘ کے عنوان سے ایک کالم بھی لکھا اور یہ واضح کیا کہ پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے والے وہ واحد شخص نہیں بلکہ بہت سارے دیگر سائنس دانوں کا بھی اس میں بھرپور حصہ شامل ہے۔
ڈاکٹر اے کیو خان ٹیلر کے ڈیزائن پر ہائیڈروجن بم بنانے کے لیے بھی تیار تھے جس سے پے اے ای سی نے یہ کہتے ہوئے انکار کر دیا کہ یہ حکومت کی پالیسی کے خلاف ہے۔
ڈاکٹر اے کیو خان نے میٹالرجی اور میڑیل سائنس پر پاکستان اکیڈمی آف سائنس کے تحت دو کتابیں بھی شائع کی ہیں۔
ڈاکٹر خان مرحوم 1980ء سے کے آر ایل سے اپنے کالم شائع کررہے تھے اور میٹا لرجی پر بے شمار کانفرنسز کا انعقاد اور انتظام بھی کروایا۔
تعلیم و تدریس سے وابستہ ہونے کی آپ کی دلی خواہش تھی۔ اسی خواہش کے پیشِ نظر آپ نے ’’غلام اسحاق خان انسٹی ٹیوٹ‘‘ کے پراجیکٹ ڈائریکٹر کے علاوہ فزکس ڈیپارٹمنٹ کے شعبہ میٹالرجی اور میڑیل سائنس کے چیئرمین بھی رہے۔
کراچی یونیورسٹی میں ڈاکٹر اے کیو خان بائیو ٹیکنالوجی اور جینیٹک انجینئرنگ کے شعبے کے قیام میں بھی پیش پیش رہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے ’’ڈاکٹر اے کیو خان سکول سسٹم‘‘ کا آغاز بھی کیا اور عوامی سہولیات کے لیے دیگرخدمات بھی سر انجام دیں۔
ڈاکٹر اے کیو خان ایٹمی ہتھیاروں کے ذریعے دفاع کے بہت بڑے حامی تھے اور اپنے نقطۂ نظر کو منوانے کی بھر پور صلاحیت رکھتے تھے۔ عراق اور لیبیا کی تباہی کے بعد ڈاکٹر اے کیو خان کی منطق سب کو اچھی طرح سمجھ آچکی تھی۔
مرحوم ڈاکٹر اے کیو خان کا کہنا تھا اگر 1971ء سے پہلے ہمارے پاس ایٹمی ہتھیار ہو تے، تو ملک دوٹکڑے کبھی نہ ہوتا۔
ڈاکٹر اے کیو خان اور ان کی ٹیم کی دن رات کی محنت نے پاکستان کو ناقابلِ تسخیر بنا دیا ہے اور قائد اعظم کے فرمان ’’پاکستان پریقین رکھیں، پاکستان رہنے کے لیے بنا ہے‘‘ کو سچ کر دکھا یا۔
پاکستان کو ایٹمی دوڑ میں مجبوراً شامل ہو نا پڑا اور اس کی سب سے بڑی وجہ بھارتی جارحیت اور دھمکیاں تھی۔
ڈاکٹر اے کیو خان کو بہت سے اعزازت سے نوازا گیا ہے۔ 1999ء میں نشانِ امتیاز، 1996ء میں ہلالِ امتیاز سے نوازا جا چکا ہے۔ اس کے علاوہ 60سے زائد یونیورسٹیز نے گولڈ میڈل سے نوازا ۔
پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے کے بعد ڈاکٹر اے کیو خان نے پاکستان کی قومی سپیس ایجنسی ’’سپارکو‘‘ کو دوبارہ منظم کیا۔ 1980ء کے اواخر میں ڈاکٹر خان نے پاکستان کے فضائی پروگرام میں اہم کردار ادا کیا۔بالخصوص پاکستان کے پہلے پولر سٹیلائٹ منصوبے میں آپ کا کلیدی کردار رہا۔ قومی یونیورسٹیز کے شعبہ میٹالرجی اور میٹریل سائنس کے نصاب ترتیب دینے کے علاوہ ان میں متذکرہ بالا شعبوں کے قیام کے لیے بہت اہم کردار ادا کیا۔
ساری قوم ڈاکٹر اے کیو خان کی رحلت پر رنجیدہ ہے۔ ہیروز کبھی مرتے نہیں، وہ ہمیشہ قوم کے دلوں میں زندہ رہتے ہیں۔ اسلام اور پاکستان کے لیے آپ کے کارناموں کی وجہ سے آپ کا نام رہتی دنیا تک روشن رہے گا:
مجھ پہ تحقیق میرے بعد کرے گی دنیا
مجھ کو سمجھیں گے میرے بعد زمانے والے
………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔