ضیاء الحق نیکولائی کے بہت بڑے فین تھے۔ نیکولائی چاوسکو رومانیہ کا مشہور لیڈر تھا۔ وہ رومانیہ سے باہر بھی بے انتہا مقبول لیڈر تھا۔ اس کی بے انتہا مقبولیت کی وجہ اس کا عوامی پن تھا۔ وہ ملک کے دارالحکومت میں پروٹوکول کے بنا پھرتا۔شہر کی گلیوں میں نکل پڑتا اور عوام سے حکومت کی کارکردگی سے متعلق پوچھتا۔ 1986ء میں ایک انٹرنیشنل کانفرس میں ضیاء الحق کی نیکولائی سے ملاقات ہوئی۔ ضیاء صاحب سات برس حکومت گزارنے کے باوجود بھی عوام میں پاپولر نہیں تھے۔ تبھی نیکولائی سے عرض کرنے لگے: ’’آپ مجھے زیادہ دیر تک پاپولر صدر رہنے کا کوئی نسخہ تو دیجئے۔‘‘ نیکولائی مسکرائے اور کہنے لگے: ’’آپ کبھی بھی خفیہ ایجنسیوں کی رپورٹس پر انحصار نہ کریں۔‘‘جنرل صاحب نے پوچھا: ’’کیوں؟‘‘ نیکولائی نے جواب دیا: ’’خفیہ اداروں کی نوے فیصد رپوٹس جھوٹی ہوتی ہیں۔ یہ ایجنسیاں ہمیشہ حکمرانوں کی انا کو بانس پر چڑھاتی ہیں۔ آپ عوام کے ساتھ براہِ راست رابطہ رکھا کریں۔ میری طرح بھیس بدل کر عوام میں جایا کریں اور اپنے بارے میں عوام سے ڈائریکٹ رائے لیا کریں۔‘‘
جنرل صاحب کو نیکولائی کا مشورہ بہت پسند آیا۔
اس ملاقات کے حوالے سے محمد حنیف نے اپنے مشہور ناول A case of exploding mangoes میں ایک بڑا دلچسپ واقعہ بیان کیا ہے۔فرماتے ہیں: ’’ضیاء الحق نے پاکستان واپس آکر سردیوں کی ایک رات اپنے مالی کی سائیکل اور چادر لی اور اپنے بارے میں عوام کی براہِ راست رائے معلوم کرنے کے لئے راولپنڈی کی سڑکوں پر نکل پڑے۔ راستے میں پہلے ناکے پر ہی پولیس نے جنرل ضیاء الحق کو روک لیا۔ کانسٹیبل نے جنرل صاحب سے پوچھا: ’’اوے! تم رات کے تین بجے سائیکل پر حساس علاقے میں کیا کر رہے ہو؟‘‘ جنرل صاحب نے مسکین لہجے میں پوچھا: ’’جناب عالی، کیا مجھ سے کوئی غلطی ہوگئی ہے؟‘‘ اس گستاخی پر کانسٹیبل نے صدر صاحب کو فوراً مرغا بننے کا حکم دے دیا۔ صدر صاحب نے اس سزا سے بچنے کی کوشش کی مگر کانسٹیبل نے انہیں ڈنڈا دکھایا، تومجبوراً جنرل صاحب نے کان پکڑ لئے۔ یہ سزا ذرا مشکل تھی۔ اس لئے جنرل صاحب نے عوام کی براہِ راست رائے لینے کا منصوبہ اُسی لمحے چھوڑنے کا فیصلہ کرلیا۔ وہ کھڑے ہوئے۔ منھ سے چادر ہٹائی اور کانسٹیبل کو للکار کر بولے: ’’اوے بیوقوف انسان! میں جنرل ضیاء الحق ہوں۔‘‘ کانسٹیبل نے قہقہہ لگایا اور پنجابی میں بولے: ’’ایک جنرل ضیاء الحق کا عذاب کم تھا کہ تم دوسرے جنرل ضیاء الحق آ گئے ہو۔ خبردار، جو کان چھوڑے تو۔‘‘یہاں ضیاء الحق ایک نئی مصیبت کا شکار ہوگئے۔وہ انہیں دیر تک اپنے صدر ہونے کا یقین دلاتے رہے، لیکن عوام کی براہِ راست رائے انہیں صدر تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں تھی۔ جب جنرل صاحب تھک گئے، تو پولیس والوں نے ان کے ساتھ ایک دلچسپ ڈیل کی۔ انہیں کہا گیا کہ اگر وہ کان چھوڑنا چاہتے ہیں، تو ضیاء الحق کے بارے میں کوئی دلچسپ لطیفہ سنائیں۔ جنرل صاحب کے پاس کوئی آپشن نہیں تھا۔ چناچہ وہ سخت سردی کے عالم میں کھڑے ہو کر کانسٹیبل کو اپنے خلاف تب تک لطیفے سناتے رہے جب تک پروٹوکول اور سیکورٹی کا عملہ ان تک نہیں پہنچ گیا۔ اس کے بعد ضیاء الحق نے کبھی عوام کی براہِ راست رائے جاننے کی غلطی نہیں کی۔
اب سوال یہ ہے کہ محمد حنیف نے یہ سب کچھ کس بنیاد پر لکھا؟ یہ تو آپ محمد حنیف سے ہی پوچھئے گا۔ وہی بہتر جواب دے سکیں گے۔
خیر، اب تو ضیاء الحق کے دور کو ختم ہوئے تین دہائیاں بیت چکی ہیں لیکن اس گیارہ سالہ دور کے عذاب حال کے پاکستان پر آج تک قائم ہیں اور معلوم نہیں مستقبل کے پاکستان پر کب تک گہرے بادلوں کی طرح منڈلاتے رہیں گے؟ حال سے ماضی کی جانب سفر کیا جائے، تو تاریخ اور حقائق انسان پر پوری طرح عیاں ہوتے ہیں۔ چار سال قبل ہونے والا واقعہ ماضی نہیں لیکن ماضیِ قریب ضرور ہے جسے حال ہی سمجھنے میں کوئی ممانعت نہیں۔ نومبر 2013ء کی خون آلود تاریخ 10 محرم کا ایک منظر آج بھی آنکھوں کے سامنے موجود ہے، جب راجہ بازار راولپنڈی میں موجود مکتبہ دیوبند کے ایک مدرسہ تعلیم القرآن کے میناروں تلے کھڑے افراد کے ہاتھوں میں اینٹیں تھیں اور مسلسل عاشور کے جلوس پر برسائی جا رہی تھیں۔ گذشتہ 37 برسوں میں فرقہ واریت سے پاکستان کے جو شہر سب سے زیادہ متاثر ہوئے، ان میں کراچی، لاہور، جھنگ اور کوئٹہ شامل ہیں۔ 28 ستمبر 2005ء میں بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق 25 برسوں میں فرقہ وارانہ تصادم کے نتیجے میں چار ہزار لوگ قتل ہوئے۔حالات یوں جنگی کیفیت تک کیسے پہنچے؟ اس کا سہرہ بھی جنرل صاحب کے سر جاتا ہے۔ضیا ء الحق کا شریعت نافذ کرنے کا جنون ایک دن اسلامی فرقوں میں جنگی جنون پیدا کر دے گا، یہ شائد کسی نے نہ سوچا ہو۔ کہانی اقتصادی اصلاحات سے شروع ہوئی اور فرقہ فسادات پر ختم ہوئی۔جس ملک میں رہنے والوں میں 20 فیصد لوگ کسی دوسرے مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے ہوں، وہاں 80 فیصد کا مکتبہ فکر اور شریعت 100 فیصد پر لاگو کرنا ان 20 فیصد لوگوں کے ساتھ زیادتی کے مترادف ہے، جن کا اپنا ایک الگ طریقۂ قانون اور شریعت ہو۔
1980ء میں ریاست نے اسلامی ٹیکس کا نظام شروع کر دیا۔ شیعوں نے زکوٰۃ آرڈیننس کے قیام سے یہ محسوس کرنا شروع کر دیا کہ ضیاء الحق پاکستان میں سنی شریعت نافذ کرنا چاہتے ہیں جو کہ درحقیقت ایسا ہی تھا۔ اس آرڈیننس کے تحت تمام بینک اکاونٹ ہولڈرز کے اکاونٹ سے سالانہ ڈھائی فیصد رقم زکوٰۃ کی مد میں کٹوتی شامل تھی جو کہ ایک جبری عمل ہے۔ زکوٰۃ چونکہ فرض ہے، سو صاحب حیثیت اسے اپنی استطاعت اور مرضی سے ہی ادا کرتا ہے۔ شیعہ حضرات چونکہ اپنے فقہ کے مطابق خمس یعنی پانچ فیصد زکوٰۃ ادا کرتے ہیں۔ اس آرڈیننس سے پہلا اور بنیادی اختلاف رائے تو ڈھائی اور پانچ فیصد کا تھا۔ دوسرا اختلاف زبردستی کٹوتی اور اس کے بعد زکوٰۃ کی رقم وہ بھی ریاست کی اپنی مرضی کے تحت سنی فرقہ کے رفاہی اداروں کو دینا تھا جبکہ زکوٰۃ دینے والا شخص زکوٰۃ کی رقم اپنی مرضی سے کسی بھی ضرورت مند یا اپنے کسی غریب رشتہ دار کو بھی ادا کر سکتا ہے۔اس سارے اختلاف کا پہلا نتیجہ جولائی 1980ء میں شیعہ برادری کا ضیاء الحق کی حکومت کے خلاف اسلام آباد میں دو دن تک قائم رہنے والا احتجاج تھا، جس کا مطالبہ تھا کہ شیعہ فرقہ کو اس ٹیکس قانون سے ماورا قرار دیا جائے۔ دوسری طرف کچھ شدت پسند سنی فرقوں کے علما نے شیعوں کے اس مطالبے پر انہیں کافر اور غیر مسلم کہنا شروع کر دیا۔
ضیاء الحق کے عہد بیتے تو عرصہ گزر گیا، مگر آج بھی کسی سنی کو کسی شیعہ تہوار میں شامل دیکھ لیا جائے، تو لوگ حیرت کا اظہار کرتے ہیں مگر آپ پاکستان کی پہلی اور دوسری نسل کے کسی بھی شخص سے دونوں فرقوں کے قیام پاکستان کے بعد اور ضیائی اقتدار سے پہلے کے تعلقات کے بارے میں پوچھیں، تو آپ کو معلوم ہوگا کہ سنی فقہ کے لوگ محرم کے ایام میں شیعہ مکتبہ فکر کے ساتھ مجالس میں شریک ہوتے تھے۔ امیر تیمور نے ان کی جلوسوں میں تعزیہ سازی کی روایت کو شروع کروایا۔ شیعہ ماتمی جلوس نکالتے تھے، تو سنی ان جلوسوں میں دودھ اور شربت کی سبیلیں لگاتے تھے۔ زکوٰۃ آرڈیننس کے قیام پر معتبر شیعہ عالم جعفر حسین نے تو یہاں تک کہہ دیا تھا کہ اگر پاکستانی ریاست کے پاس اپنا اسلامی قانون اور فقہ ہے، تو ہمیں اپنا فقہ جعفریہ نافذ کرنے کی اجازت ہونی چاہئے۔اس کے بعد اسّی کی دہائی کے آغاز میں تحریک نفاذِ فقہ جعفریہ چلی۔ اس تحریک کی مخالفت میں سپاہ صحابہ پاکستان بنی، جس کا گورنمنٹ آف پاکستان سے مطالبہ تھا کہ شیعوں کو غیر مسلم قرار دیا جائے۔ یہ سب کچھ مارشل لا کی منافقانہ اسلامی چھتری کے سائے تلے چلتا رہا۔ کیونکہ ریاست کے اپنے مفادات افغان جہاد میں تھے جس کے لئے انہیں ایک مخصوص فقہ کے لوگوں کی ضرورت تھی۔ اسی ایک فقہ کے فروغ کے لئے مدرسہ کلچر ملک میں فروغ پایا۔1983ء سے 1984ء تک صرف ایک سال کے عرصے میں ملک بھرمیں بارہ ہزار کے قریب مدرسے کھولے گئے۔ان مدرسوں کی مدد سے جہادی اسلام کو فروغ دیا گیا، تاکہ افغان جہاد میں شرکت کر کے ثواب کمایا جا سکے۔ ان مدرسوں کو براہِ راست فنڈنگ سعودی حکومت سے ہوتی رہی۔ سو بہت سی باتیں حکومت پاکستان کو سعودی گورنمنٹ کی ماننا پڑیں۔ 1984ء میں سعودی حکومت نے ضیاء الحق سے درخواست کی کہ پاکستانی فوج کا جو دستہ سعودیہ میں موجود ہے، اس میں کچھ شیعہ فوجی شامل ہیں، انہیں نکال کر سنی فوجی شامل کئے جائیں۔ جنرل صاحب سنی شیعہ کی تبدیلی کیا کرتے۔ انہوں نے پورے کا پورا فوجی دستہ ہی واپس بلا لیا۔
انقلابِ ایران ہوا، تو مردِ مومن ضیاء الحق، امام خمینی سے ملنے اس نیت سے ایران گئے کہ وہ پاکستان میں اسلام پھیلانے کے لئے خمینی کی مدد مانگیں گے اور خمینی سعودیہ کی طرح پاکستان کی مالی مدد فرمائیں گے۔ ملاقات شروع ہوئی۔ ضیاء الحق نے خمینی صاحب سے تجویز مانگی اور پوچھنے لگے کہ میں پاکستان میں اسلام نافذ کرنا چاہتا ہوں۔ خمینی نے جواب دینے سے پہلے جنرل صاحب سے سوال کیا: ’’ضیاء الحق پاکستان کا رقبہ کتنا ہے؟‘‘ جنرل صاحب نے فوراً جواب دیا: ’’796,095 کلومیٹر۔‘‘ خمینی نے ایک اور سوال پوچھا: ’’ اور آپ کا قد کتنا ہے؟‘‘ جنرل صاحب نے فورا کہا:’’چھے فٹ۔‘‘ خمینی نے تاریخی جملہ کہا: ’’ضیاء الحق، آپ پہلے چھے فٹ پر اسلام نافذ کریں، 796,095 کلومیڑ پر خود ہی اسلام نافذ ہو جائے گا۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری اور نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا لازمی نہیں۔