استادِ محترم دورانِ درس اپنی جگہ سے بہ طورِ احترام کھڑے ہوئے۔ طلبہ نے دیکھا کہ اس دوران میں ایک معمولی سا خادم نمودار ہوا۔ یہ کوفہ کی مرکزی اور مشہور درس گاہ تھی، جہاں عالمِ اسلام کے کونے کونے سے طلبہ کتاب و حکمت کا علم حاصل کرتے۔ اس عظیم درس گاہ میں درس دینے والا جو اس نو وارد کے احترام میں کھڑا ہوا تھا، عالمِ اسلام کا مشہور فقیہ اور عالم امام ابو حنیفہؒ تھا۔
ایک دفعہ آپ کو ایک مسئلے کے حل کی ضرورت پیش آئی۔ مسئلہ یہ تھا کہ کتے کے بالغ ہونے کی علامت کیا ہے؟ بہت سوں سے پوچھا لیکن جواب نہ ملا۔ آخر میں ایک خادم نے جواب دیا کہ جب کتا پیشاب کرتے وقت ٹانگ اوپر اُٹھائے، تو سمجھو کہ یہ بالغ ہے۔
غور کا مقام ہے کہ اتنی بڑی ہستی نے معلومات دینے والے کا کتنا بڑا احترام کیا۔
علم دینے، تربیت کرنے اور تہذیب و اخلاق کے زیور سے آراستہ کرنے والی ہستی کو معلم یا استاد کہتے ہیں۔ در حقیقت یہ خدا تعا لا کا بڑا انعام ہے کہ وہ کسی کو اس پیغمبری پیشے سے وابستہ کرتا ہے، جسے دنیا کی تمام ممالک، اقوام اور تہذیبوں میں معزز مقام حاصل ہے۔ اللہ تعالا قرآنِ کریم میں فرماتا ہے: ’’ھل یستوی الذین یعلمون والذین ہم لا یعلمون‘‘ یعنی کیا جاننے والے اور نہ جاننے والے برابر ہیں؟ آں حضرتؐ کا ارشادِ مبارک ہے: ’’انا بعثت معلماً‘‘ یعنی ’’مجھے استاد بنا کر بھیجا گیا ہے!‘‘ خلیفۂ چہارم حضرت علیؓ کا قول ہے: ’’جس نے مجھے ایک لفظ دکھایا میں اس کا غلام ہوں۔‘‘
دنیا کے بڑے بڑے دانشوروں نے پیشۂ معلمی اختیار کیا۔ قبل از مسیح، ارسطو، افلاطون اور بقراط وغیرہ بھی استاد رہے، جنہوں ہونہار شاگرد پیدا کیے۔ امام بخاری، امام غزالی، امام ابن تیمیہ اور آئمہ اربعہ امام ابو حنیفہ، امام شافعی، امام احمد بن حنبل اور امام مالک ؒ بھی پیشہ معلمی پر فائز رہے۔ اس کے علاوہ شاعر مشرق علامہ اقبال ؒ اور مسلمانانِ برصغیر کے بڑے بڑے سیاسی زعما اور علما بھی معلمی کے پیشۂ جلیلہ پر فائز رہے۔
ہر سال پانچ اکتوبر کو پاکستان سمیت ساری دنیا میں اساتذہ کا قومی دن منایا جاتا ہے۔ پاکستان میں یہ دن پہلی مرتبہ سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں منایا گیا۔ اس دن کے منانے کا مقصد معاشرے میں اساتذہ کا شایان شان مقام واضح کرنا ہے۔ لہٰذا شاگردوں کو ہمارا مشورہ ہے کہ کمرۂ جماعت خصوصاً دورانِ سبق خاموشی سے لیکچر؍ سبق سنیں اور موبائل سے نہ کھیلیں۔ جب تک استاد نہ بیٹھے تب تک کھڑے رہیں استاد کے ساتھ نرمی، احترام اور مہذبانہ انداز میں بات کریں اور مرحوم اساتذہ کے لیے خدا تعالا سے مغفرت کی دعا کریں۔
اساتذہ کو بھی چاہیے کہ وہ اپنی فرائض منصبی کو ایمان داری سے ادا کریں۔ پڑھانے والے اسباق اور عنوانات کی پہلے سے تیاری کریں۔ سوالات کے جوابات کی خندہ پیشانی سے دیا کریں۔ شاگردوں کو بچوں کی طرح سمجھیں اور کسی قسم کی دنیاوی لالچ سے بچیں۔
………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔