’’ہمیں کبھی خوف کی وجہ سے مذاکرات نہیں کرنے چاہئیں اور نہ مذاکرات سے خوف زدہ ہی ہونا چاہیے۔‘‘ (جے ایف کینڈی)
ریاست کی جانب سے کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان کے ساتھ مذکرات نے قومی اور بین الاقوامی سطح پر ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے۔ اگرچہ ریاست کا ریاست مخالف گروہوں سے بات چیت کرنے کا یہ پہلا موقع نہیں۔ اس سے پہلے بھی بہت سارے گروہوں سے مذاکرات ہوتے رہے ہیں۔ آج سے لگ بھگ 8 سال پہلے بھی ٹی ٹی پی سے مذاکرات کیے گئے تھے۔ اے این پی اور جے یو آئی کی جانب سے دو اے پی سیز کا انعقاد بھی کیا گیا تھا جس میں سے ٹی ٹی پی نے اول الذکر کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا جب کہ موخر الذکر کو تسلیم کیا تھا۔ سیاسی جماعتوں کی جانب سے مفاہمتی منصوبہ بندی کی قلت اور اسٹیبلشمنٹ کی عدم آمادگی کے باعث مذاکرات کا سلسلہ سردی مہری کا شکارہوگیا۔
مسٹر خان کی جنگ کی بجائے مذاکرات کے ذریعے حل کی منطق کافی مقبولیت کی حامل ہے۔ سمارٹ خان نے امریکہ کو بھی افغانستان کے حوالے سے یہی مشورہ دیا تھا۔ ریاست مخالف گروہوں سے مذکرات کرکے انہیں قومی دھارے میں لانے کی کوشش قابلِ ستائش ہے۔ تصادم سے بچنے اور مسائل کے پُرامن حل کے لیے مذکرات بہترین راستہ ہیں۔
مسٹر خان کوطالبان کا حامی بھی تصور کیا جاتا ہے۔ کیوں کہ انہوں نے افغانستان، شمالی علاقہ جات اور دیگر معاملات میں طاقت کی بجائے مذاکرات کی حمایت کی۔ ٹی ٹی پی کے ساتھ ہونے والے ماضی کے نمایاں معاہدوں میں شکئی امن معاہدہ 2004ء، ساروگہا امن معاہدہ2005ء، میراں شاہ امن معاہدہ 2006ء اور سوات امن معاہدہ 2009ء قابل ذکر ہیں۔
سوات امن معاہدہ کے علاوہ تمام معاہدے سول انتظامیہ کی جانب سے کیے گئے۔ سوات معاہدہ اے این پی نے مولانا صوفی محمد کے ذریعے فوجی قیادت کی سرپرستی میں کیا۔
اب اگر ماضی کے امن معاہدوں کا جائزہ لیں، تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ اُن میں حکومت کی پوزیشن کافی کمزور رہی ہے، مگر اب صورتِ حال یکسر مختلف ہے۔ ماضی کے معاہدوں سے پاکستان کی بجائے طالبان کو فائدہ ہوا اور وہ پہلے سے زیادہ طاقت ور ہو کر حملہ آور ہوئے۔ ریاست، شمالی علاقہ جات کو ٹی ٹی پی سے پاک کرنے اورانہیں غیر مسلح کرنے میں بری طرح ناکام رہی۔ ماضی میں شریعت کا نفاذ اور امریکی جنگ سے علاحدگی ٹی ٹی پی کے دوبنیادی مطالبات تھے۔ ماضی میں ٹی ٹی پی مختلف سیاسی پارٹیوں اور شخصیات کو بھی ضامن کے طور پر نامزد کرتی رہی ہے۔ اب ’’امارت‘‘ قائم ہوچکی ہے اور طالبان کابل میں مقتدر ہیں۔ اس لحاظ سے طالبان کی شرائط بھی یقینا ماضی کی نسبت مختلف ہوں گی۔
اب دیکھنا یہ ہے کیا ٹی ٹی پی روایت سے ہٹ کر مذاکرات کی طرف قدم بڑھاتی ہے، یا ماضی کی طرح اسے ایک بہانے کے طور پر استعمال کرتی ہے؟ ٹی ٹی پی کے چند ممکنہ مطالبات میں ٹی ٹی پی قیادت اور ممبران کی رہائی، شریعت کا نفاذ، شمالی علاقہ جات کے کچھ حصوں سے فوج کا انخلا وغیر ہ شامل ہوسکتے ہیں۔ ٹی ٹی پی ماضی میں امن معاہدوں کی آڑ میں دوبارہ منظم اور متحدہو کر حملہ آور ہوتی رہی ہے۔
یہ بات بھی بعید از قیاس نہیں کہ ٹی ٹی پی کی افغانستان کے مغربی حصوں میں مقیم قیادت کہیں مذاکرات کو پھر سے دوبارہ منظم اور متحد ہونے کے لیے استعمال تو نہیں کرنا چاہتی؟
ماضی میں ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کی بجائے فوجی حل ہی سود مندثابت ہوا تھا۔ دراصل ٹی ٹی پی میں بھی کئی دھڑے ہیں۔ مذاکرات کی صورت میں ہمیں یا تو ان سب دھڑوں کے ساتھ مذاکرات کرنا ہوں گے، یا پھر مرکزی دھڑے کو یہ ذمہ داری لینی ہو گی کہ وہ باقی ماندہ چھوٹے دھڑوں اورگروہوں کو معاہدہ پر عمل درآمد کروانے کی ذمہ داری لے۔ بصورتِ دیگر یہ مذاکرات قومی مفادات کے ضامن نہیں ہوسکتے۔
ایک سوال یہ بھی ہے کہ ہزاروں سولین، افواجِ پاکستان کے نوجوانوں، اعلا افسران اور دیگر سیکورٹی اہلکاروں کی قربانیوں کو کیا ہم پس پشت ڈال دیں گے؟
دوسری وجہ یہ بھی ہے ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کرنے کی صورت میں دیگر متحارب اور ریاست مخالف گروہوں کو یہ پیغام ملے گا کہ وہ بھی اپنے آپ کو ’’کالعدم‘‘ کے داغ سے پاک کرسکتے ہیں۔ اس طرح مذاکرات کی آڑ میں یا تو دیگر گروہ ٹی ٹی پی کی چھتری کے نیچے متحد ہوجائیں گے، یا وہ اسے ثبوت بنا کر اپنے اوپر لگائی گئی پابندیوں سے چھٹکارا حاصل کرنے کی تگ و دو کریں گے۔ اگر دیگر گروہ ٹی ٹی پی کی برتری تسلیم کرتے ہوئے یہ مان لیتے ہیں کہ ٹی ٹی پی کے پاس حکومت کو مذاکرات کی میز پر لانے کی طاقت ہے، تو دیگر گروہ اس کے ساتھ مل کر مستقبل میں پاکستان کے لیے مشکلات پیدا کرسکتے ہیں۔ مذاکرات کے ذریعے ٹی ٹی پی ملک میں موجود اپنے حمایتیوں کی بھر پور حمایت حاصل کرنے میں بھی کامیا ب ہو جائے گی اور دیگر کالعدم تنظیمیں ریلیف لینے عدالت پہنچ جائیں گی۔
قارئین، ٹی ٹی پی کو غیر مسلح کرنے کی امید پوری ہوتی دکھائی نہیں دیتی۔ اس کی سب سے بڑی وجہ قبائلی دشمنی کی روایات ہے۔ ٹی ٹی پی نے اپنے کنڑول والے عرصے میں بہت سارے قبائلی سرداروں کو موت کی گھاٹ اتارا تھا۔ اگر وہ غیر مسلح ہوتے ہیں، تو انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ قبائلی ان سے انتقام لیے بغیر چین سے نہیں بیٹھیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ سوات امن معاہد ہ کے بعد ٹی ٹی پی کے آپریشنل کمانڈر ابن امین نے ہتھیار ڈالنے سے انکار کر دیا تھا اور انہی تحفظات کے پیشِ نظروہ غیر مسلح نہیں ہوا تھا۔ یوں ٹی ٹی پی شائد غیر مسلح ہونے پر کسی صورت راضی نہ ہو۔
ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات سے پاکستان کو افغانستان میں اپنی گرفت مضبوط کرنے میں مدد ضرور ملے گی، کیوں کہ مذاکرات کے لیے رابطے بھی افغانستان میں مقیم ٹی ٹی پی قیادت کر رہی ہے۔ سال 2020ء میں حقانی گروپ کی جانب سے مذاکرات کا آغاز کیا گیا تھا،جو نتیجہ خیز ثابت ہوئے بغیر ہی ختم ہوگیا۔ یہ بھی دعوا کیا جا رہا ہے کہ ٹی ٹی پی نے مذاکرات کے لیے اپنے 10 ارکان کے ناموں کی فہرست بھی پیش کر دی ہے۔ پاکستان کے خلاف جنگ ختم کرنے کے بدلے قیدیوں کی رہائی، قبائلی علاقوں سے فوج کا انخلااور وہاں پر شریعت کا نفاذ وغیرہ جیسے مطالبات شامل ہوسکتے ہیں۔
یاد رہے کہ سال 2009ء میں امن معاہدے کے تحت نفاذِ شریعت کی اجازت دی گئی تھی، مگر ٹی ٹی پی کی جانب سے دہشت گردانہ کارروائیوں کی وجہ سے اسے ختم کر تے ہوئے فوجی آپریشن کیا گیا۔ پاکستان کی جانب سے ممکنہ مطالبات میں پاکستان کے خلاف معرکہ آرائی کو ختم کرنا، پاکستان کے آئین کے تحت چلنا، شہدا اور زخمیوں کے لیے معاوضہ ادا کرنا، غیر مسلح ہونا، اسلحہ پاکستان کے حوالے کرنا اور مذاکرات پر ہونے والے اخراجات کی ادائی شامل ہوسکتی ہے۔ اگر دونوں اطراف کے ممکنہ مطالبات کا بغور جائزہ لیا جائے، تو مذاکرات کسی منطقی انجام تک پہنچتے دکھائی نہیں دیتے۔
اگر اقوامِ متحدہ کی رپورٹ اورپاکستانی وزیرِ دفاع کے بیانات کا بغور جائزہ لیا جائے، تو یوں محسوس ہو تا ہے کہ کوئی تیسرا فریق دونوں کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کر رہا ہے۔
پاکستانی عوام بھی ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات پر منقسم ہیں۔ اپوزیشن حکومت کو الزام لگا رہی ہے کہ وہ پارلیمنٹ کو اعتماد میں لائے بغیر کالعدم تنظیم کو ’’این آر اُو‘‘ دے رہی ہے۔ اگر حکومت نے ہاتھ ہولے رکھا، تو یہ مذاکرات مستقبل میں دلدل ثابت ہو ں گے۔ اپوزیشن ماضی میں متحارب گروہوں کے ساتھ مذاکرات کرتی آئی ہے اور مذاکرات کی حامی بھی رہی ہے مگر اب اس مسئلے کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی بھر پور کوشش کر رہی ہے۔ ریاست اور تحریکِ طالبان دونوں اپنے لیے بہترین موقع کی تلاش میں ہیں جو بہتر کھیلے گا، وہ زیادہ فائدے میں رہے گا۔
مگر اسلام آباد کو یہ بات ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ ماضی میں مذاکرات نے ’’ٹی ٹی پی‘‘ کو مضبوط اور متحد کر کے زیادہ قوت بخشی اور اس کا حل ’’فوجی آپریشن‘‘ ہی نکالا گیا تھا۔
………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔