آئین کی رو سے کوئی بھی شخص دو دفعہ سے زائد وزیراعظم کے عہدے پر نہیں رہ سکتا تھا۔ 2008ء میں پی پی پی برسر اقتدار آئی۔ پی پی پی کے ساتھ چوں کہ اے این پی کا اشتراک تھا۔ لہٰذا اے این پی کی ایما پر پی پی پی صوبہ سرحد کا نام تبدیل کرکے ’’پختونخوا‘‘ رکھنا چاہتی تھی، مگر نواز شریف کو یہ منظور نہ تھا۔ اسے پختونخوا نام سے چڑ تھی۔ پھر پی ایم ایل (این) اس بنیاد پر راضی ہوئی کہ چوں کہ قانون کی رو سے نواز شریف تیسری دفعہ وزیراعظم نہیں بن سکتے، لہٰذا اگر آپ یہ پابندی ختم کرنے میں ہمارے ساتھ تعاون کرتے ہیں، تو ہم آپ سے نام کے معاملے پر تعاون کرنے کیلئے تیار ہیں۔ اس طرح فردِ واحد کیلئے قانون سازی ہوئی۔ اٹھارویں ترمیم کے ذریعے یہ پابندی ختم کردی گئی اور نوازشریف تیسری دفعہ وزیراعظم بننے کے اہل ہوگئے۔

اے این پی کی ایما پر پی پی پی صوبہ سرحد کا نام تبدیل کرکے ’’پختونخوا‘‘ رکھنا چاہتی تھی، مگر نواز شریف کو یہ منظور نہ تھا۔ اسے پختونخوا نام سے چڑ تھی۔ پھر پی ایم ایل (این) اس بنیاد پر راضی ہوئی کہ چوں کہ قانون کی رو سے نواز شریف تیسری دفعہ وزیراعظم نہیں بن سکتے، لہٰذا اگر آپ یہ پابندی ختم کرنے میں ہمارے ساتھ تعاون کرتے ہیں، تو ہم آپ سے نام کے معاملے پر تعاون کرنے کیلئے تیار ہیں۔

فردِ واحد جناب نوازشریف کیلئے دوسری دفعہ قانون سازی پچھلے دنوں کی گئی جب الیکشن بل منظور کرایا گیا، جس کے ذریعے نااہل سابق وزیراعظم کو پارٹی کا سربراہ بنانے کا اہل کیا گیا۔ ویسے حیرانی اس بات پر نہیں ہوتی کہ فرد واحد کیلئے قانون سازی کی گئی۔ کیوں کہ پارٹی کا نام ہی مسلم لیگ نواز ہے، مگر حیرانی تب ہوتی ہے جب مسلم لیگ نواز والے اس بل کو JUSTIFY کرنے کیلے الٹے سیدھے جواز پیش کرتے ہیں۔ مثلاً کوئی کہتا ہے کہ یہ ڈکٹیٹر کا قانون تھا، اس لئے ختم کیا گیا اور کوئی کہتا ہے کہ اس سے جمہوریت مظبوط ہوجائے گی۔ پہلے، اولذکر جواز کی طرف آتے ہیں کہ ’’یہ ڈکٹیٹر کا قانون تھا۔‘‘ اگر یہ وجہ تھی تو پھر اس طرح کا قانون تو آپ کی پارٹی کے آئین میں بھی تھا، جو اب آپ لوگوں نے نواز شریف کی خاطر ختم کر دیا ہے۔ اس کا کیا جواز ہے آپ کے پاس؟ کیا وہ بھی ڈکٹیٹر (ضیاالحق) کی وصیت تو نہیں تھی، جو اب آپ لوگوں نے ختم کردی؟
اب مؤخرالذکر جواز کی طرف آتے ہیں کہ اس سے جمہوریت مضبوط ہو جائے گی۔ ویسے یہ جواز بالکل ہی سمجھ سے بالاتر ہے۔ بندہ حیران ہوجاتا ہے کہ آخر نواز شریف اور جمہوریت ایک دوسرے کیلئے اتنے لازم و ملزوم کیوں ہیں؟ اور خدانخواستہ اگر یہ قدآور شخصیت پاکستان میں پیدا نہ ہوئی ہوتی تو پھر ہمارے ملک میں جمہوریت کیسے مظبوط ہوتی؟ پھر یہ سوچ کر بندہ مزید حیران ہوتا ہے کہ باقی ممالک مثلاً انڈیا، برطانیہ وغیرہ میں بھی تو نوازشریف نہیں ہے ،پھر وہاں جمہوریت کیسے مضبوط ہوئی؟
جناب، اصل میں بات یہ ہے کہ فردِ واحد کو مضبوط کرنے سے جمہوریت مضبوط نہیں ہوتی، بلکہ بادشاہت میں تبدل ہوجاتی ہے۔ اگر آپ واقعی جمہوریت کو مضبوط کرانا چاہتے ہیں، تو درج ذیل سفارشات قبول کریں اور اس پر قانون سازی کریں، تاکہ ملک میں جمہوریت اصل معنوں میں پروان چڑھے۔

بندہ حیران ہوجاتا ہے کہ آخر نواز شریف اور جمہوریت ایک دوسرے کیلئے اتنے لازم و ملزوم کیوں ہیں؟ اور خدانخواستہ اگر یہ قدآور شخصیت پاکستان میں پیدا نہ ہوئی ہوتی تو پھر ہمارے ملک میں جمہوریت کیسے مظبوط ہوتی؟ پھر یہ سوچ کر بندہ مزید حیران ہوتا ہے کہ باقی ممالک مثلاً انڈیا، برطانیہ وغیرہ میں بھی تو نوازشریف نہیں ہے ،پھر وہاں جمہوریت کیسے مضبوط ہوئی؟

آئیے، شروعات سابق نااہل وزیراعظم کے پچھلے دنوں کی پریس کانفرنس سے کرتے ہیں۔ موصوف نے ایک مخصوص ادارے کو بلاواسطہ مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ’’ اس ملک کو آ ئین کے مطابق چلانے دو، آئین، پاکستان کے عوام کو حکمرانی کا حق دیتا ہے، تو اس کے اس حق کو تسلیم کرو۔ ‘‘
موصوف کی بات سو فیصد درست ہے، مگر مسئلہ یہ ہے کہ وہ لفظ ’’عوام‘‘ کی تشریح صحیح نہیں کر رہے ہیں۔ میاں صاحب کے مطابق لفظ ’’عوام‘‘ کا مطلب یا تو وہ خود ہیں، یا محض شریف خاندان، یا زیادہ سے زیادہ بھٹو؍ زرداری خاندان۔ اور اس غلط تشریح کی وجہ سے وہ خود بھی آئین پر عمل نہیں کر ر ہے ہیں۔
میاں صاحب، آپ کی اصلاح کیلئے عرض ہے کہ لفظ ’’عوام‘‘ کا مطلب ہے پاکستان کے ’’بیس کروڑ عوام ‘‘۔ اگر واقعی آپ سیاستدان سمجھتے ہیں کہ ملک کو آئین کے مطابق چلانا ہے اور حکمرانی کا حق عوام کو دینا ہے، تو پہلے خود سے شروعات کیجئے۔ آپ پہلے سیاسی جماعتوں پر مخصوص خاندانوں کی اجارہ داری ختم کرنے کیلئے قانون سازی کیجئے۔ پھر آپ ایسی قانون سازی بھی کیجئے کہ جو شخص وزیراعظم کے عہدے پر رہا اس کے بعد اس کا بیٹا یا بیٹی اس عہدے کیلئے نااہل ہوجائیں گے۔ اگر آپ سیاستدان ایسا کرتے ہیں، تو پھر واقعی میں عوام کو حکمرانی کا حق مل جائے گا اور جس ادارے کی طرف آپ اشارہ کر رہے ہیں، پھر اگر وہ بیچ میں آتا ہے، تو فردِ واحد کے کہنے کے بجائے کہ ’’ مجھے کیوں نکالا؟ ‘‘ عوام کہیں گے کہ ’’ہمیں کیوں نکالا‘‘ ؟ اور آپ کو پتا ہے کہ جب عوام نکلتے ہیں، تو پھر جو ہوتا ہے، اس کی وضاحت کرنے کی ضرورت نہیں۔ کیوں کہ اس کے لئے ترکی کی حالیہ مثال کافی ہے ۔
اس طرح پنجاب، سندھ اور بلوچستان کے بہت سے علاقوں میں جمہوریت کی راہ میں بڑی رکاوٹ وہاں کا جاگیردارانہ نظام ہے۔ ان علاقوں میں جاگیرداروں کی جاگیریں سیکڑوں گاوؤں پر محیط ہوتی ہیں۔ ان کے جاگیروں میں بسنے والے غریب کسان چوں کہ اپنی بنیادی ضروریات پوری کرنے کیلئے وہاں کے چودھریوں، وڈھیروں اور سرداروں کے محتاج ہوتے ہیں، لہٰذا ان کے لئے ان جاگیرداروں کے مقابلے میں الیکشن لڑنا تو دور کی بات، وہ ان کی مرضی کے مقابلے میں ووٹ بھی نہیں دے سکتے۔ جس کی وجہ سے ان علاقوں سے عوام کے صحیح نمائندوں کے بچاے طبقہ اشرافیہ ایوانوں تک پہنچتا ہے۔ پھر وہ کس طرح ان غریب عوام کے بارے میں سوچ سکتے ہیں؟ کیونکہ اس سے تو ان کی چودھراہٹ کو خطرہ ہوتا ہے۔ لہٰذا جمہوریت کے علمبرداروں سے درخواست ہے کہ وہ ان علاقوں میں صحیح معنوں میں ’’لینڈ ری فارمز‘‘ کریں، تاکہ یہ غریب لوگ معاشی خود کفیل بن کر وڈھیروں اور چودھریوں کی غلامی اور بدمعاشی سے چھٹکارا پائیں۔ پھر وہ اپنے ان نمائندوں کو ایوانوں میں بیجنے کے قابل ہوسکیں گے جو ان کے مسائل حل کرنا جانتے بھی ہوں اور چاہتے بھی ہوں۔ اس سے نہ صرف ملک میں جمہوریت کی جڑیں مضبوط ہوجائیں گی بلکہ جمہوریت کا جو مقصد ہے، وہ بھی حاصل ہو جائے گا۔

پنجاب، سندھ اور بلوچستان کے بہت سے علاقوں میں جمہوریت کی راہ میں بڑی رکاوٹ وہاں کا جاگیردارانہ نظام ہے۔ ان علاقوں میں جاگیرداروں کی جاگیریں سیکڑوں گاوؤں پر محیط ہوتی ہیں۔ ان کے جاگیروں میں بسنے والے غریب کسان چوں کہ اپنی بنیادی ضروریات پوری کرنے کیلئے وہاں کے چودھریوں، وڈھیروں اور سرداروں کے محتاج ہوتے ہیں۔

ہمارے ملک میں جمہوری نظام کی کمزوری کی ایک اور وجہ عوام کی سیاستدانوں پر اعتماد کی کمی ہے ۔ یہ بداعتمادی صرف اس وجہ سے نہیں ہے کہ ان کے خیال میں سیاستدان کرپٹ ہے بلکہ اس کی بنیادی وجہ سیاستدانوں کا دوغلا پن ہے۔ کیونکہ ان سیاستدانوں کا پیسہ، کاروبار، ان کا علاج، ان کے بچوں کی تعلیم سب کچھ باہر ممالک میں جبکہ صرف سیاست پاکستان میں ہے۔ دوسرے الفاظ میں ان کی دلچسپی صرف پاکستان پر حکمرانی سے ہے، باقی ان کو اس ملک سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ لہٰذا ایوانوں میں موجود لوگ قانون سازی کریں کہ کوئی بھی سیاستدان ملک سے باہر نہ کاروبار کرے گا نہ ان کے بچے باہر پڑھیں گے اور نہ علاج کیلئے باہر ممالک جائیں گے۔ اگر یہ اس طرح کرتے ہیں، تو نہ صرف عوام کا سیاستدانوں پر اعتماد بڑھے گا بلکہ وہ ان کو اپنا محسن سمجھیں گے اور پھر یقینا جمہوریت بھی مضبوط ہوجائے گی۔
چوں کہ میاں صاحب کہتے ہیں کہ اب وہ نظریاتی بن گئے ہیں اور اس کی جدوجہد جمہوریت کو مضبوط کرانے کیلئے ہے۔ لہٰذا ان کی جماعت کو درجہ بالا امور پر قانون سازی کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں ہوگی اور اتنی ہی جلدی سے یہ قانون سازی کریں گے جتنی جلدی انہوں نے الیکشن بل منظور کرایا تھا۔مگر شرط یہ ہے کہ کیا میاں صاحب واقعی نظریاتی بن گئے ہیں؟ اور کیا واقعی وہ ملک میں صحیح معنوں میں جمہوریت مضبوط کرانے کیلئے مخلص ہیں یا محض اپنی خاندانی بادشاہت کو مظبوط کرانے کیلے ڈرامے کررہے ہے ؟

…………….

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری اور نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔