ہم ریاست کے نام پر سیاست کے نعرے لگاتے لگاتے ریاست کو سیاست کی نذر کر دیتے ہیں۔ طبعی کورونا کی طرح ہمارا وطنِ عزیز بے شمار غیر طبعی کورونوں کی لپیٹ میں ہے، مگر ان کے خلاف ہم لاک ڈاؤن کرتے ہیں، ویکسین بناتے ہیں اور نہ زبردستی لگواتے ہی ہیں بلکہ ان کو سمارٹ تحفظ فراہم کرتے ہیں۔
کورونا سے بچاؤ کی طرح بے شمار جرائم سے بچنے کے ماسک بھی موجود ہیں جنہیں پہن کر آپ بالکل محفوظ رہ سکتے ہیں۔ جب پرائیویٹ سکول، کالج اور یونیورسٹیاں چلانے والے ایم این اے اور ایم پی اے بن جائیں، تو تعلیمی بہتری ممکن نہیں۔
جب سرکاری سکولوں میں بھاری تنخواہیں لینے والے اپنے بچوں کو پرائیویٹ سکولوں میں پڑھائیں، تو انقلاب نہیں آنا۔ جب شوگر مل مالکان وزیر بن جائیں، تو چینی نہیں ملے گی۔ جب آٹا مل مالکان اسمبلیوں اور سینیٹ میں پہنچ جائیں، تو آٹا نہیں ملے گا۔ جب گھی مل مالکان وزیر بنیں گے، تو گھی مہنگا ہوگا۔ جب ٹمبر مافیا وزیرِ جنگلات بنے گا، تو جنگلات نہیں بچیں گے۔ جب غریب کے نعرے لگانے والے امیر بن جائیں، تو پھر غریب ڈھونڈے سے بھی نہیں ملے گا۔ جب مزدور کے نعرے لگانے والے افسر بن جائیں، تو مزدور رُلتا رہے گا۔ جب ’’نیا پاکستان‘‘ بنانا بھول جائیں گے، تو پرانے کا یہی حال ہوگا۔ جب رشوت اور سفارش سے بھرتی ہونے والے محکمہ کے سربراہ بن جائیں، تو میرٹ نہیں ملے گا۔ جب سول محکموں پر ریٹائرڈ جنرل تعینات کیے جائیں گے، تو پڑھے لکھے سول لوگ ملک میں نہیں رہیں گے۔ جب قانون شکن عدلیہ میں شامل ہو ں گے، تو انصاف نہیں ملے گا۔ جب سائنس سے نابلد ’’وزیرِ سائنس‘‘ بنیں گے، تو سائنس نہیں ملے گی۔ جب غیر متعلقہ اور غیر پیشہ ورانہ افراد وزیر ریلوے بنیں گے، تو حادثات ہوں گے۔ جب علما منبر و محراب چھوڑ کر سیاست کریں گے، تو مساجد کو تالے لگیں گے اور مندر بنیں گے۔ جب ڈاکٹر علاج کی بجائے ہڑتالیں کریں گے، تو انسان نہیں رہے گا۔ جب صحافی ’’قلم فروش‘‘ بنے گا، تو مظلوم نہیں ملے گا۔ جب پولیس ڈاکے ڈالے گی، تو ہر گلی میں ڈاکو ہی ملے گا۔ جب افسر دیر سے آئے گا، تو دفتر خالی ملے گا۔ جب سیاست زدہ لوگ بھرتی کیے جائیں گے، توریکارڈ جلے گا، فائلیں نہیں ملیں گی۔ جب مہنگائی کے خلاف بولنے والا مہنگائی کرے گا، تو عوام چپ نہیں رہیں گے۔ جب صرف 22 خاندان پاکستان کو چلائیں گے، تو 22 کروڑ عوام کی چیخیں سنائی دیں گی۔ جب وزیرِ تعلیم، سیکرٹری تعلیم اور دیگر اعلا افسران کے بچے سرکاری سکولوں میں نہیں پڑھیں گے، تو سرکاری سکول کبھی ٹھیک نہیں ہوں گے۔ جب تک محکمۂ صحت کا وزیر اور اس کے اعلا افسران اپنا علاج سرکاری ہسپتال سے نہیں کروائیں گے، تب تک سرکاری ہسپتال ٹھیک نہیں ہوں گے۔ جب تک واپڈا والے مفت یونٹ استعمال کریں گے، بجلی کے بل کم نہیں آئیں گے۔ جب تک وزرا کی کالونیوں میں لوڈ شیڈنگ نہیں ہوگی، تب تک لوڈ شیڈنگ ختم نہیں ہوگی۔ جب تک وزرا، سیکرٹری، مشیران وغیرہ کے گھر کے باہر پانی جمع نہیں ہوگا، تب تک نکاسیِ آب کا نظام ٹھیک نہیں ہوگا۔ جب تک ایم این ایز اور ایم پی ایز کے گھروں کے سامنے کچرے کے ڈھیر نہیں لگیں گے، تب تک کوڑا صاف نہیں ہوگا۔ جب رئیل اسٹیٹ کے مالکان وزرا بنیں گے، تو قبضہ مافیا ختم نہیں ہوگا۔ جب سیاست دان جرنیلوں سے رشتہ داریاں بنائیں گے، تو مارشل لا لگیں گے۔ جب تک عوام نہیں بولیں گے، پستے رہیں گے۔ جب تک پی آئی اے میں جعلی بھرتیاں ہوں گی، تو یہ بہتری کی بجائے ڈوبے گی۔ جب کارکردگی کی بجائے سفارش پہ کھلاڑی ٹیم میں شامل ہو ں گے، تو ٹیم ہارے گی۔ جب پولیس ریاست کی بجائے افراد کے ماتحت ہوگی تو وہ مظلوموں اوربے گناہوں کو گولیاں مارے گی۔ جب امپورٹ ایکسپورٹ کے مالکان، وزرا کے رشتہ دار بنیں گے، تو گاڑیاں مہنگی ہوں گی۔ جب وزیرِ اعلا کا بیٹا چکن انڈسٹری کا مالک بنے گا، تو غریب عید ہی پہ گوشت کھائے گا۔ جب ادویہ مہنگی ہوں گی، تو عوام مریں گے۔ پہلے عوام مریں گے، تو ہی نیا پاکستان بنے گا۔
قارئین، جب کسان کو معاوضہ نہیں ملے گا، تو فصل نہیں اُگے گی۔ جب مزدور کی دیہاڑی نہیں لگے گی، تو وہ مانگے گا۔ جب تعلیم یافتہ نوجوان بے روزگار رہیں گے، تو جرائم بڑھیں گے۔ جب جہیز کی نمائش ہوگی، توبیٹیاں گھر بیٹھے بوڑھی ہوں گی۔ جب ’’میرا جسم میری مرضی‘‘ جیسے نعرے رواج پائیں گے، تو طلاقیں ہوں گی۔ جب عاشقِ رسولؐ کو جیل اور ٹک ٹاکرز اور یوٹیوبرز کو پروموٹ کریں گے، تو یادگار جیسے واقعات ہوں گے۔
حیرت اس بات پہ ہے کہ ہم اپنی حفاظت کے لیے گلی میں سیکورٹی گارڈ اپنے پیسوں سے رکھیں، اپنی گلی سے پانی اپنے پیسوں سے مزدور لگوا کر نکلوائیں، اپنے بچوں کو پرائیویٹ سکولوں میں جیب سے پیسے دے کر پڑھائیں، علاج پرائیویٹ ہسپتال سے کروائیں، سفر پرائیویٹ ٹرانسپورٹ میں کریں، گلی محلے کا کچرا بھی پیسے دے کر اُٹھوائیں، گٹر بھی پیسے دے کر کھلوائیں، بجلی کی جگہ جنریٹر اپنے پیسوں سے لگوائیں، سولر بلب اپنے خرچے پر لگوائیں، گلی محلے کا ٹرانس فارمر بھی پیسے دے کر ٹھیک کروائیں، تو بھلا حکومت کس بات کے ٹیکس پہ ٹیکس لیے جا رہی ہے؟ کیا یہ سب ’’نیا پاکستان‘‘ بنانے کے لیے پیسے اکھٹے کیے جارہے ہیں؟
بجلی کے بل غلط آنے پر اپنی جیب سے پیسے لگا کر درست کروائیں، سرکاری اور دفتری غلطی کی تصحیح بھی جیب سے فیس بھر کر کروائیں، قانونی مدد کے لیے پولیس کو رشوت دیں، تو ہم پھر ٹیکس کس بات کا دیں؟ جب جہیز پر سخت ریمارکس دینے والا اپنی بیٹی کی شادی پر کروڑوں لگائے گا، تو شرمندگی تو ہوگی۔ جب حب الوطنی کے دعوے کرکے غیر ملکی نیشنیلٹی لے کر بیرون ملک رہیں گے، تو حب الوطنی پیدا نہیں ہوگی۔
جب دہائیوں تک ملک میں حکمرانی کرنے کے باوجود اپنے علاج کے لیے کوئی ہسپتال نہیں بنائیں گے، تو شرمندگی تو ہوگی۔ ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘ کا نعرہ لگا کر بیرونِ ملک رہیں گے، تو پاکستان ترقی کیسے کرے گا؟
جب وزیرِ خوارک گندم سمگل کروائے گا، تو گندم کی کمی ہوگی۔ جب حکومتی افسران ٹینکر مافیا چلائیں گے، تو پانی نہیں ملے گا۔ جب ایل ڈی اے رشوت لے کر این او سی دے گی، تو پوش ایریاز میں بربادی ہو گی۔ جب کشمیر کے وکیل کھوکھلا نعرہ لگائیں گے، تو مودی تو کشمیر کو جیل بنائے گا۔ جب ماڈل ٹاؤن قتل عام پر تقریریں کرنے والے حکومت بنا کر بھی انصاف نہ دیں گے، تو ساہیوال جیسے واقعات تو ہوں گے۔ جب کرپٹ لوگوں کو وزارتیں دیں گے، تو تبدیلی نہیں آئے گی۔ جب عوام کو ریلیف دینے کے بجائے ایک خاندان کے درپے رہیں گے، تو مہنگائی بڑھے گی۔ جب آزاد کشمیر کا وزیر اعظم انٹرویو لے کر لگائیں گے، تو کشمیر آزاد کیسے کروائیں گے؟
وزیرِ اعظم صاحب، آپ نے کہا تھا کہ ’’مَیں ان کو رُلاؤں گا!‘‘ بھولے عوام سمجھے وزیروں مشیروں کی بات کر رہے ہیں، مگر ان سے مراد عوام تھے جو رو رہے ہیں اور آپ مسلسل رُلا رہے ہیں۔ وزیر مشیر تو سب آپ کے دائیں بائیں اور آگے پیچھے ہیں۔ مہنگی گاڑی میں بیٹھ کر غریبوں کی بستی کا چکر لگانے سے غریب امیر نہیں ہو جاتے، بلکہ اس سے خلیج مزید وسیع ہو جاتی ہے۔ جب معیشت کو چند ماہ میں مضبوط کرنے والے خود چند ماہ تک وزیر خزانہ نہ رہ سکیں، تو معیشت نہیں سنبھلے گی۔ جب ہر موقع پر فوج بلائیں گے، تو سول ادارے مضبوط نہیں ہوں گے۔ جب تک اصلاحات نہیں لائیں گے، کچھ تبدیل نہیں ہوگا۔ جب مہینے میں چار بار پیڑول مہنگا کریں گے، تو مہنگائی کیسے کم ہوگی؟ اگر ایک روپیا پیڑول مہنگا ہوتا ہے، تو ہر چیز پانچ روپے مہنگی ہو جاتی ہے۔
جب وزرا عوام کے ٹیکسوں سے مفت میں کھائے پئیں گے، تو انہیں مہنگائی کہاں نظر آئے گی؟ عوام یہ سمجھتے ہیں کہ ملک کی باگ ڈور حکومت کے ہاتھ میں ہے جب کہ ایسا قطعاً نہیں۔ ہر حکومت کو سرمایہ دار، بیوروکریٹس، مافیا، مل مالکان، لینڈ لارڈ اور بااثر طبقات چلاتے ہیں۔ حکومتی پالیسی ساز ایسی پالیسیاں بناتے ہیں اور بجٹ کو اس انداز میں تیار کرتے ہیں جس سے انہیں فائدہ ہوتا ہے جب کہ عام آدمی ٹیکسوں کی چکی میں پستا چلا جاتا ہے۔ ہمیں اپنی ترجیحات کو بدلنا ہوگا اور ایسے افراد کو اسمبلیوں تک پہنچانے سے توبہ کرنی ہوگی جن کو ہم اپنے ووٹوں سے اسمبلیوں تک پہنچانے کے بعد ان سے اپنے جائز کام کا کہتے ہوئے بھی نہ صرف کتراتے ہیں بلکہ ملاقات کا موقع بھی نصیب نہیں ہوتا۔
قارئین! ہمارے سب مسائل کا حل یہ ہے کہ عام آدمی ان سرمایہ داروں، جاگیرداروں، ٹھیکیداروں، امرا اور موروثی سیاست دانوں کی بجائے عام آدمی کو ووٹ دے کر اسمبلیوں تک پہنچائے۔
……………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔