ہمارے ملک میں آج کل ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے اور اس کا تناظر یہ ہے کہ روس کے ایک سابقہ انٹیلی جنس افسر نے ایک ٹی وی انٹرویو میں یہ بات کی کہ پاکستان کی سابقہ وزیراعظم محترمہ بینظیر بھٹو کو امریکن سی ای اے نے قتل کروایا ہے۔ انہوں نے یہاں تک کہا ہے کہ سابقہ امریکہ صدر جارج بش جونیئر کے حکم پر ایک قاتل سکواڈ کی تشکیل کی گئی اور اُس سکواڈ کا کام ہی یہی تھا کہ جو غیر ملکی راہنما امریکی مفادات کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں، ان کو جسمانی طور پر ختم کر دیا جائے۔
ویسے امریکی انتظامیہ پر یہ الزامات کوئی نئے نہیں، بلکہ اس سے پہلے بھی ویت نام، کیوبا، فلپائن، ایران، انڈونیشیا، لیبیا، سعودی عربیہ اور فلسطین وغیرہ کے راہنماؤں کا قتل یا قتل کی کوشش کا الزام براہِ راست امریکی انتظامیہ پر لگ چکا ہے۔ کرنل قذافی اور سعودیہ کے شاہ فیصل کے قتل کا الزام براہِ راست امریکی انتظامیہ پر لگایا گیا۔ عجیب بات یہ ہے کہ امریکی حکومت نے کبھی اس کی تردید بھی نہیں کی اور اس کیس میں بھی یہ دلچسپ حقیقت ہے کہ پوری دنیا کے میڈیا میں یہ خبر آئی، مگر امریکی حکومت نے اس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔ بلکہ یہ بات محسوس کی گئی کہ میڈیا نے بس 24 گھنٹے بعد ہی اس پر پُراَسرار خاموشی اختیار کرلی، خاص کر پاکستانی میڈیا نے۔ حالاں کہ پاکستانی میڈیا کے لیے تو یہ سب سے بڑی خبر تھی۔ اس پر پورے پورے پروگرام ہونا چاہیے تھے۔ مگر افسوس کہ ایسا نہ ہوا۔ البتہ سوشل میڈیا پر پی پی کے کارکنان نے اس پر خوب بحث کی۔
قطعِ نظر اس کے کہ کیا یہ حقیقت ہے یا نہیں؟ اور کیا اس پر سنجیدہ ہونا ضروری تھا یا نہیں؟ لیکن اس پر غور بحیثیتِ قوم ہمارے لیے ضروری ہے کہ کیا ہماری سابقہ وزیراعظم اور اپنے وقت کی سب سے مقبول سیاسی راہنما کا قتل امریکہ نے کروایا یا نہیں؟ اگر کروایا، تو بطور ایک آزاد اور خود مختار ریاست کے کیا ہم خاموشی اختیار کرلیں؟ ہمارا خیال ہے کہ بالکل نہیں بلکہ ہماری حکومت کا اولین فرض ہے کہ وہ فوراً بذریعۂ وزارتِ خارجہ، امریکی حکومت سے رابطہ کرے اور ان سے اس بیان پر وضاحت طلب کرے۔ اس کے ساتھ اندرونی طور پر بھی خود نئے سرے سے اس پہلو کو مدنظر رکھ کر ایک تحقیقی کمیشن بنائے۔ کیوں کہ دنیا کی کوئی بھی قوم بحیثیت ایک خود مختار ملک کے یہ کس طرح براداشت کرسکتی ہے کہ کسی دوسرے ملک کے سرکاری غنڈے (وجہ کچھ بھی ہو) ہمارے کسی عام شہری کو بھی نقصان پہنچا ئیں، چہ جائیکہ ایک مقبول سابقہ عوامی وزیراعظم۔
اب ہماری حکومت اور خصوصاً پی پی اس پر کیا اسٹینڈ لیتی ہے؟ یہ ان کا مسئلہ ہے لیکن ایک پاکستانی کے طور پر یہ مطالبہ کرنا ہمارے عوام کا حق ہے۔
دوسرا ہم ذاتی طور پر یہ سمجھتے ہیں کہ جس دن محترمہ بینظیر بھٹو کی لیاقت باغ کے عین سامنے لیاقت روڈ پر لاش گری اور بعد میں جس طرح اس کیس کو ہینڈل کیا گیا، اس وقت جو بین الاقوامی حالات تھے، جو امریکہ کے اس خطہ میں خصوصاً افغان اور ایران کے ساتھ معمولات تھے، تو ان کو جاننے والا ایک عام ذہن کا پاکستانی یہ بات سمجھ سکتا ہے کہ امریکہ کا اس قتل میں شامل ہونا نہ تو بعید از قیاس ہے اور نہ کوئی اچنبھے کی بات ہی ہے، بلکہ ہم نے تبھی یہ کہا تھا کہ اس درد ناک حادثہ کے پیچھے امریکہ کے علاوہ کوئی ہو ہی نہیں سکتا۔ اس کی بہت معقول وجوہات ہیں۔
ویسے امریکہ پر خان لیاقت علی خان اور ضیاء الحق کے قتل کا الزام بھی بہت سنجیدگی سے لگ چکا ہے۔ محترمہ بینظیر بھٹو کے والد کا قتل تو اب تقریباً ’’اوپن سیکرٹ‘‘ ہے۔ تمام پاکستانیوں کے لیے یہ بات طے شدہ ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کا تختہ الٹنے سے لے کر ڈسٹرک جیل پنڈی میں پھانسی کے چبوترے پر لٹکنے تک ایک ایک لمحہ امریکہ کی خواہش اور طے شدہ پروگرام کے تحت ہوا تھا۔ سو امریکہ جو بینظیر کے باپ کو مار چکا تھا، اس کے لیے بی بی کو مارنا مشکل قطعی نہ تھا، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر امریکہ بی بی کو قتل کیوں کروانا چاہتا تھا؟
اس کا جواب بہت سادہ ہے اور وہ یہ کہ امریکہ ہمیشہ ہی سے ان لوگوں کو ختم کرنے سے نہیں چوکتا کہ جن کو وہ اپنے مفادات کے خلاف سمجھتا ہے۔ پاکستان جیسے ملک کی بدقسمتی یہ ہے کہ امریکہ کو یہاں پر بے شمار اپنے براہِ راست ایجنٹ مل جاتے ہیں، یا پھر ایسا ماحول بنا دیا جاتا ہے کہ دھند چھا جاتی ہے اور بہت سے لوگ معصومیت میں استعمال ہو جاتے ہیں کہ جس کی بڑی مثال بینظیر کے والد ذوالفقار علی بھٹو کی ہے۔ آج 45 سال بعد اس تحریک میں شامل ڈھیر سارے لوگوں کو ادارک ہو رہا ہے کہ ان کو غلط استعمال کیا گیا۔ بی بی کا کیس بھی ایسا ہی تھا۔
یہ بات تو روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ بی بی کا مشرف کے ساتھ ’’این آر اُو‘‘ امریکہ نے کروایا تھا اور کنڈیلا رائیس اس کا اعتراف کر چکی ہے۔ امریکہ کا یہ خیال تھا کہ اگر اوپر مشرف بیٹھا رہے گا اور نیچے بی بی وزیراعظم بن جائے گی، تو اس کا ایجنڈا باآسانی پورا ہوگا۔ لیکن جب بی بی پاکستان واپس آئیں اور ان کو یہ احساس ہوا کہ اگر امریکہ کی دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ کو اسی طرح جاری رکھا گیا، تو پاکستان تباہ و برباد ہو جائے گا اور مشرف کی غلط پالیسیاں پہلے ہی بہت نقصان کر چکی ہیں۔ سو بی بی نے امریکہ کو واضح پیغام دے دیا کہ اب یہ ممکن نہیں۔ ویسے بھی اگر جسمانی اور سیاسی طور پر بی بی کو ضیا کے خلاف جد و جہد نے لوہا کی طرح سخت بنا دیا تھا، تو دو دفعہ حکومت کرنے اور حزبِ اختلاف میں بیٹھنے کے بعد بی بی اب ایک سیاست دان سے زیادہ دانشور بن چکی تھی۔ قوم پرستی تو وہ اپنے والد کے خون سے لے کر پیدا ہوئی تھی۔ پھر وہ ایک بہت بڑی جماعت کی سربراہ بھی تھیں۔ ملک کے اندر ان کے کروڑوں ووٹر تھے۔ مطلب وہ کوئی آمرِ مطلق نہ تھیں کہ جس کا کوئی سیاسی یا عوامی مقام بالکل نہیں ہوتا، جس کو نہ کسی ووٹ کی ضرورت ہوتی ہے اور نہ کسی کے جذبات کی۔ اس کا کلی انحصار یا تو فوجی وردی پر ہوتا ہے یا پھر امریکہ جیسی سامراجی طاقتوں پر۔ لیکن ایک عوامی راہنما اور وہ بھی دخترِ بھٹو کے لیے ملک و قوم کے مفادات کو نظرانداز کر دینا ممکن ہی نہیں تھا۔ اب امریکہ کو یہ معلوم ہو چکا تھا کہ 2008ء کے الیکشن میں بی بی کی جیت یقینی ہے، لیکن اگر بی بی وزیراعظم بن گئی، تو وہ مشرف کی طرح کی سہولیات بالکل نہیں دے گی۔ سو اس کا حل بس ایک ہی تھا کہ بی بی کو قتل کر دیا جائے، نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری۔ کیوں کہ میاں نواز شریف تو پہلے ہی ایک عدالتی فیصلہ کے نتیجے میں الیکشن سے آؤٹ تھے اور بی بی کے بعد اس لیول کا کوئی سیاست دان حتی کہ خود پی پی میں بھی نہ تھا کہ امریکہ کے لیے مسائل کھڑے کرسکتا تھا۔
قارئین، ماضی میں جو ہونا تھا سو ہوگیا۔ اب بی بی واپس آئے گی اور نہ ان کا والد، لیکن ہماری ریاست کو اس پر غور تو کرنا ہوگا کہ آخر ہم یہ کھلا قتلِ عام وہ بھی کسی دوسرے ملک کی سرکاری ایجنسی کے ہاتھوں، ہم کیسے برداشت کر سکتے ہیں؟ یہ کام لیاقت علی خان سے شروع ہوا، پھر بھٹو، پھر ضیا اور بینظیر تک۔ ہر دفعہ بہت ٹھوس دلیل کے ساتھ انگلیاں ’’انکل سام‘‘ کے سفید محل کی طرف اٹھیں۔ مَیں تو کہتا ہوں کہ ہماری ریاست میں شائد اتنی جرات نہیں۔ ’’مین سٹریم میڈیا‘‘ کے اپنے مفادات ہیں، لیکن ہماری سول سوسائٹی اور عام عوام کو سوشل میڈیا کی طاقت استعمال کرتے ہوئے اس پر ایک مکمل اور بھرپور آواز اٹھانا ہوگی۔ ہم کو اس میں ملوث لوکل کرداروں کو نہ صرف بے نقاب کرنا ہوگا بلکہ امریکہ کو عوامی سطح پر یہ پیغام دینا ہوگا کہ اب اس کو یہ بدمعاشی بند کرنا ہوگی۔ اس کے ساتھ امریکی عوام کو بھی یہ بتانا ہوگا کہ کس طرح ان کے منتخب اربابِ اختیار دوسروں ملکوں کے اندر جاکر ان ممالک کے محبوب راہنماؤں کو قتل کرتے ہیں؟ اب یہی ایک طریقہ ہے امریکہ کی غنڈہ گردی روکنے کا۔
اس کے ساتھ ساتھ ہمارے عوام کو اپنی حکومت پر بھی دباؤ ڈالنا ہوگا کہ اس معاملے کو وزرات خارجہ براہِ راست سنجیدہ لیں اور اگر ممکن ہو، تو اس کو وہ اقوامِ متحدہ کے پلیٹ فارم پر لے جائیں۔ آخر تمام دنیا اندھی بہری نہیں ہوتی۔ عام عوام، خاص کر اہلیانِ مغرب تو ان معمولات میں بہت حساس ہوتے ہیں اور اگر ہماری حکومت اس پر براہِ راست سٹینڈ لے، تو یہ بات بہت حد تک ممکن ہے کہ امریکہ کے اندر سے اس پر بہت زیادہ عوامی رائے باہر نکل آئے اور امریکہ شاید اپنے اندر سے اس پر انکوائری کروانے پر مجبور ہو جائے، تو بالاآخر مستقبل کے لیے امریکہ اپنے اس قاتل سکواڈ کو خود ختم کرنے پر مجبور ہو جائے اور یہی خونِ بینظیر کی سب سے بڑی کامیابی ہوگی۔
………………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔