میرے جاننے والے اور قارئین اس بات سے آگاہ ہیں کہ میں نے ہمیشہ فوج کی سیاست میں مداخلت کی شدید مخالفت کی۔ خاص کر جو ہماری تاریخ کے چار آمر آئے، یعنی ایوب خان، یحییٰ خان، ضیاء الحق اور جنرل مشرف پر بہت کھل کر شدید تنقید کی۔ ضیاء الحق دور میں تو نہ صرف عملی جدوجہد کی بلکہ کافی بھگتا بھی۔ مَیں آج بھی اپنے اس نکتۂ نظر پر مکمل قائم ہوں۔ مَیں آج بھی پیرا ملٹری فورس کے ان عناصرکے شدید خلاف ہوں جو خود سے ہی حب الوطنی کے فیصلے کرتے رہتے ہیں اور حکومتوں کے اُکھاڑ بچھاڑ اور الیکشن پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ میری یہ سوچی سمجھی رائے ہیں کہ فوج کا کام صرف اور صرف سرحدوں کا دفاع اور سِول حکومت کے حکم کی مکمل پاس داری ہے۔ فوج کا سِول معاملات میں عمل دخل کسی صورت خواہ ملک باقاعدہ عملی طورپر جنگ میں مصروف ہی کیوں نہ ہو، قابلِ برداشت نہیں۔
یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہماری یہ خواہش شاید مستقبلِ قریب تک پوری نہ ہو۔ کیوں کہ آج بھی باخبر حلقے یہ جانتے ہیں کہ ملک میں بظاہر تو ایک منتخب حکومت ہے جو جیسے بھی بنی، لیکن عملی طور پر اب بھی فوج کا سربراہ بقولِ نواز شریف ’’سپریم وزیر اعظم‘‘ ہے۔ فوجی جنرل سیاست میں مداخلت سے باز نہیں آتے۔ حزبِ اختلاف والے اب بہت واضح طور پر نہ صرف وزیراعظم عمران خان کو ’’سلیکٹڈ‘‘ کہتے ہیں بلکہ وہ یہ الزام لگاتے ہیں کہ گلگت بلتستان اور اب آزاد کشمیر انتخابات میں بھی تحریکِ انصاف کو ’’سلیکٹ‘‘ کرنے کا فیصلہ ہوچکا ہے۔ یہ صورتِ حال کسی بھی محب الوطن پاکستانی واسطے باعثِ فکر و ندامت ہی ہے۔
ہم فوج کے ذمہ داران سے یہ گذارش کرتے ہیں کہ وہ برائے مہربانی کام سے کام رکھیں۔ ملک کی خدمت کا اتنا ہی شوق ہے، تو پھر وردی اتار کر عوام میں آجائیں بلکہ میری اطلاع کے مطابق ایک سابق کرنل صاحب نے کچھ مزید ریٹائر فوجی افسران سے مل کر ’’فرسٹ ڈیموکریٹ موومنٹ‘‘ کے نام سے ایک سیاسی جماعت بھی بنالی ہے، جو ایک خوش گوار ہوا کا جھونکا ہے۔
اب فوج کی ٹاپ لیڈرشپ کی ماضی کی تمام تر غلطیاں بالکل غلط ہیں لیکن اس تمام صورتِ حال میں ہم کو بھی یعنی سِول سوسائٹی اور خاص کر ہماری سیاسی قیادت کے لیے بھی فکر کا کافی مواد ہے۔ یہ سوال بہرحال بہت معقول ہے کہ کیا ملک میں فوجی مداخلت کی تنِ تنہا ذمہ دار صرف فوجی قیادت ہے یا اس میں ایک معقول حصہ ہماری سیاسی قیادت کا بھی ہے؟
ہم بحیثیتِ سیاست اور تاریخ کے طالب علم کے یہ سمجھتے ہیں کہ اس کارِ خیر میں ہماری سیاسی قیادت اپنا حصہ ڈالتی ہے اور وہ بھی مکمل بے شرمی سے۔ بلکہ ہمارا خیال ہے کہ اس کی وجوہات میں مکمل غلطی بھی ہماری سیاسی قیادت ہی کرتی ہے۔ ہم یہ بات کسی آئیڈیل صورتِ حال میں نہیں کر رہے بلکہ پاکستان کے معروضی حالات کے تحت بیان کر رہے ہیں۔ پاکستان کے معروضی حالات کے عین مطابق آپ مطلب سیاسی قیادت جرنیلوں کو یہ موقع یا بہانہ ہی نہ دیں۔ اس سلسلے میں درجِ ذیل باتوں پر غور کریں
٭ کارگردگی:۔ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہماری سیاسی قیادت ہمیشہ سے کارگردگی پیش کرنے میں ناکام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ملک میں جب بھی مارشل لگا، عوام نے تقریباً اس کو بہ خوشی قبول کرلیا۔ میرا خیال ہے کہ صرف 77 کے ’’ضیائی مارشل لا‘‘ کی کچھ نہ کچھ عوام کی جانب سے مخالفت ہوئی، لیکن ’’ایوبی‘‘ اور ’’مشرفی مارشل لا‘‘ تو کل کی بات ہے۔ لوگوں نے مٹھائیاں تقسیم کیں۔ اس وجہ سے سیاسی حکومت کی اولین ترجیح کارگردگی ہونی چاہیے، جو اس کو عوام میں مقبول رکھتی ہے۔ لیکن جب آپ کرپشن اور اقربا پروری میں لتھڑے ہوئے ہوں گے، عوام کی زندگی اجیرن بنا ئیں گے، تو پھر عوام میں آپ کی ہمدردی صفر ہوگی، جو کہ کسی بھی ہوس پرست جنرل کے لیے عطیۂ خداوندی ہے۔
٭ آمرانہ رویہ:۔ جمہوریت اپنی روح میں بس ووٹ ڈالنے اور ممبر بنانے کا نام نہیں بلکہ یہ ایک رویہ ہوتی ہے۔ جمہوریت کا مقصد ہی سب سے پہلے فکری آزادی ہوتی ہے، لیکن ہماری یہ بدقسمتی ہے کہ اب تک ہماری سِول سیاسی حکومتوں میں یہ رویہ نہیں آیا۔ بہت معذرت کے ساتھ کہ ہمارے تقریباً تمام ہی سِول حکمران شاید آمروں سے بڑھ کر آمر بن جاتے ہیں۔ اول دن ہی سے ان کا طریقہ یہی ہوتا ہے کہ مخالفین کی گچی کو مروڑ کر رکھو۔ میڈیا پر مکمل گرفت رکھو۔ کسی کو تحریر و تقریر کی آزادی بالکل نہ دو۔ حزبِ اختلاف کے ساتھ نارمل رویہ بالکل نہ رکھو بلکہ اس کی مسلسل کردار کشی کرو۔ انتقامی طریقۂ کار اپناؤ۔ تھوک کے حساب سے اس پر کیس بناؤ۔ اہم ترین ملکی معاملات میں بھی ان کی رائے کو اہمیت کیا بلکہ رائے تک نہ سنو۔ موجودہ حکومت نے تو اس رویہ کی حد کر دی ہے۔ پھر ہمارے سِول حکمرانوں کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ عدلیہ پر مکمل کنٹرول رکھیں۔ چیف جسٹس ان کا ذاتی ملازم ہو اور تمام فیصلوں کی منظوری وزیراعظم سے لے۔ اسی طرح ان کی ہمیشہ سے یہ کوشش ہوتی ہے کہ فوج کا خصوصاً بری فوج کا سربراہ ان کا کُلی طور پر وفادار ہو۔ اسی وجہ سے ماضی میں ہم دیکھتے ہیں کہ دو آمروں یعنی ضیاء الحق اور مشرف کا بطور چیف آف آرمی سٹاف تعینات ہونا شاید اخلاقی اصولوں پر بالکل نہ تھا۔ سینیارٹی کو نظر انداز کیا گیا۔ انہیں مکمل وفاداری کے یقین کے ساتھ تعینات کیا گیا۔ یہ اور بات ہے کہ نتائج کافی بھیانک نکلے۔ پھر بیورو کریسی کو مکمل کنٹرول کرو۔ حتی کہ پٹواری اور ایس ایچ اُو تک تو یہ مرضی کا چاہتے ہیں۔ اعلا اداروں میں اُس پروفیشن کے ماہرین نہ ہوں بلکہ آپ کے ذاتی دوست ہوں۔ اب نسیم حسن شاہ، نجم سیٹھی، سیف الرحمان وغیرہ کرکٹ بورڈ کے چیئرمین کس حیثیت سے بن جاتے ہیں؟ یہی غلط اور آمرانہ فیصلے بعد میں آپ کے لیے مصیبت بن جاتے ہیں۔
٭ ربڑ سٹیمپ:۔ یہ بھی آمرانہ رویہ ہی کی ایک قسم ہے۔ آپ مخالفین کو تو کچل دیتے ہیں۔ میڈیا اور اداروں پر مکمل گرفت کا شوق تو رکھتے ہیں، لیکن ہمارے اکثر سِول حکمرانوں نے اپنی ہی اکثریت والی اسمبلی بلکہ کابینہ کو بھی ربڑ سٹیمپ بنانے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا۔ اپنے ممبران کو بھی کسی مسئلہ پر کھل کر بات کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ وزیرِ اعظم صاحب جو کہ اپنی جماعت کے سربراہ ہوتے ہیں، خود اسمبلی آنا اپنی توہین سمجھتے ہیں۔ کئی کئی ماہ تک کابینہ کا اجلاس تک طلب نہیں کیا جاتا۔ بس وزیراعظم دو چار چمچوں سے مل کر ایک پالیسی بنا دیتا ہے اور پھر اس پر کابینہ اور اسمبلی سے ربڑ سٹیمپ کی طرح مہر لگا کر نافذ کر دی جاتی ہے۔ یہ رویہ جماعت کے اندر مکمل گھٹن کا ماحول بنا دیتا ہے۔ کسی بھی مہم جوئی کی صورت میں آپ کے اپنے ارکان تھوک کے حساب سے ہجرت کر جاتے ہیں۔
٭ سازشیں:۔ یہ بات بھی بالکل واضح ہے کہ جہاں ایک طرف آپ حزبِ اختلاف کا گلا اتنا دبا دیتے ہیں کہ وہ ہر طرح سے آپ کو ختم کرنے پر مجبور ہوتا ہے ۔ وہاں یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمارے اکثر راہنما حکومت کی ہوس میں محلاتی سازشوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اندرونِ خانہ وہ بقولِ شیخ رشید جی ایچ کیو کے گیٹ نمبر چار میں داخلے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔ کچھ تو ایسے عظیم ہوتے ہیں کہ وہ آرمی چیف کو باقاعدہ خط لکھ کر آنے کی دعوت دینے سے بھی نہیں چوکتے۔ ہماری سیاسی قیادت کو اس رویہ پر بھی ہر صورت نظرِ ثانی کرنا ہوگی۔
٭ قبولیت:۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جب ملک میں مارشل لگتا ہے، تو سب سے پہلے سیاسی قیادت دوڑ کر اس کی گود میں بیٹھ جاتی ہے اور اس وقت تک نہیں اٹھتی کہ جب تک یا تو آمر بالکل غیر مقبول ہوجائے یا پھر اس کو نکال باہر نہ کیا جائے۔ آپ ایوبی کابینہ دیکھ لیں۔ ضیائی کابینہ دیکھ لیں۔ اس طرح مشرف نے تو پوری جماعت بنا کر عیش کی۔ مہرہ تو بہرحال سیاسی لوگ بنتے رہے، سقہ سیاسی لوگ۔
قارئین، ہماری درجِ بالا نِکات لکھنے کی وجہ محض کسی سیاسی قیادت کی مخالفت یا کسی فوجی آمر کی حمایت نہیں،بلکہ ان حقائق کی طرف عوام کو متوجہ کرنا ہے کہ جن کی وجہ سے ملک پر آمریت کی سیاہی چھا جاتی ہے اور ملک کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچتا ہے۔ اب یہ عوام خاص کر سیاسی کارکنان کا فرض ہے کہ وہ ہمارے گذشتہ کالم کے توتوں کی طرح کا رویہ نہ رکھیں اور ایک باشعور سوچ سمجھ رکھنے والے سیاسی شخص کی طرح اپنی اپنی قیادت پر مسلسل دباؤ قائم رکھیں، تاکہ ہمارے ملک میں نہ صرف جمہوریت اپنی اصل روح میں قائم رہے بلکہ کسی مہم جو جرنیل کو بھی مارشل لگانے کی جرأت نہ ہو۔
……………………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔