نئی مسلم ریاست پاکستان کا قیام 1947ء میں عمل میں آیا مگر یہ تباہی اور بربادی کا دور تھا۔ سب کو اپنی اپنی پڑی تھی۔ ایسے عالم میں لکھنے پڑھنے کا کسے ہوش تھا؟ پاکستانی اُردو ناولٹ کے ابتدائی سفر کا آغاز جون 1948ء میں ’’یاخدا‘‘ کے شائع ہونے سے ہوا۔ قدرت اللہ شہاب ایک منجھے ہوئے ادیب تھے۔ انہوں نے پاکستانی اُردو ناولٹ کو ایک شان دار آغاز فراہم کیا۔ اُن کے اس ناولٹ کو سمجھنے میں وقت لگا۔
فوری طور پر اس کے حوالے سے قارئین اور نقاد دو حصوں میں تقسیم ہوگئے، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ ناولٹ اپنی اہمیت اور وسعت ثابت کرتا چلا گیا اور پھر اسے سمجھنے اور پسند کرنے والے اتنی اکثریت اختیار کر گئے کہ اس پر تنقید کرنے والے کہیں گم ہو کر رہ گئے۔ یوں تو اس کا موضوع ’’فسادات‘‘ ہے مگر اس میں اعلا انسانی اقدار کے مٹ جانے کا نوحہ بین السطور بیان کیا گیا ہے۔ انسان لالچ، حرص او رہوس کے زیرِ اثر کیا کچھ کر گزرتا ہے۔ یہ اس ناولٹ میں بڑے دردناک انداز میں دکھایا گیا ہے۔
اس ناولٹ کا مرکزی خیال اُن آنکھوں دیکھے واقعات سے اخذ کیا گیا ہے جو مصنف کو مجبوری کے عالم میں دُکھی دل کے ساتھ دیکھنے پر مجبورہونا پڑا۔ یہ اصل میں انسانیت کا نوحہ ہے۔ انسان، انسان کا دشمن کیسے بن جاتا ہے اور کس حد تک گر جاتا ہے؟ یہی اس ناولٹ کی کہانی ہے۔
عزیز احمد ’’ہوس‘‘ ناولٹ میں ایک آزاد خیال مصور کی کہانی بیان کرتے ہیں جو آرٹ میں تعلیم کے سلسلے میں اپنے ماموں کے گھرقیام پذیر ہے۔ اس دوران میں اُس کی آزاد خیالی جو رنگ لاتی ہے، وہی اس ناولٹ کو اس کے متوقع انجام کی طرف لے جاتی ہے۔
ابراہیم جلیس نے ’’چالیس کروڑ بھکاری‘‘ میں بات تو ہندوستان کی بیان کی ہے مگر اسے پاکستان پر بھی منطبق کیا جا سکتا ہے۔ کیوں کہ دونوں ممالک کے حالات قریب قریب ایک سے ہیں۔ اس میں ایک امریکن ارب پتی جوڑے کی کہانی ہے جو ہندوستان کی سیر کو آتا ہے، مگر یہاں کی غربت اور اس سے پیدا شدہ مسائل دیکھ کر افسردہ ہو جاتا ہے۔
خاطر غزنوی کی یوں تو پہچان ایک بڑے شاعر کی ہے، مگر انہوں نے یہ ناولٹ ’’پھول اور پتھر‘‘ بھی خوب لکھا ہے۔ قبائلی علاقے کے رسم و رواج اور وہاں رونما ہونے والے واقعات پر مشتمل یہ ایک سادہ مگر دلکش تحریر ہے۔
اے حمید کا قلم جادوئی ہے۔ وہ رومانویت کے تحریک کے زیرِ اثر لکھنے والے بااثر ادیب ہیں۔ اُن کا یہ ناولٹ ’’جہاں برف گرتی ہے‘‘ اُن کی دیگر تحریروں کی طرح پُرکشش اور خوبصورت اختتام کی خوبی لیے ہوئے ہے۔
غلام عباس کا تعلق لاہور سے ہے مگر وہ کچھ عرصہ برطانیہ میں بھی رہے۔ انہوں نے اس ناولٹ میں اپنے ماضی کو یاد کیا ہے اور انہیں ’’گوندنی والا تکیہ‘‘ جانے کیا کیا کچھ یاد دلاتا ہے۔ ماضی کی یاد جہاں انسان کو خوشی دیتی ہے وہیں دُکھی بھی کر دیتی ہے۔ انہی ملے جلے جذبات سے لبریز یہ ناولٹ قاری کو مسلسل اپنی گرفت میں رکھتا ہے۔
سعادت حسن منٹو اُردو ادب کے سب سے بڑا افسانہ نگارہیں۔ خاکہ نگاری میں بھی اُن کا کوئی ثانی نہیں۔ ’’بغیر عنوان کے‘‘ اُن کی واحد طویل تحریر ہے۔ اُن کا یہ ناولٹ، ناولٹ کی تاریخ کا حصہ تو ضرور ہے مگر اسے یادگار تحریر نہیں کہا جا سکتا۔
اشفاق احمد نے اپنی ادبی زندگی کا آغاز افسانہ نگاری ہی سے کیا تھا اور ابتدا ہی میں ’’گڈریا‘‘ لکھ کر اپنا لوہا منوا لیا تھا، مگر بعد میں وہ ریڈیو اور ٹی وی کے ہو کر رہ گئے۔ اس کے باوجود اُن کے ادبی کارناموں کا جہاں بھی تذکرہ ہوا ’’گڈریا‘‘ سرفہرست رہا۔ یہ بھی حقیقت سے قریب ترین کہانی ہے اور یادگار ہے۔
احمد ندیم قاسمی کا ’’رئیس خانہ‘‘ انسانی نفسیات، امیری غریبی کا کھیل اور مجبوریاں یعنی بہت کچھ لیے ہوئے ہے۔ یہ ناولٹ پہلی سطر سے اپنے اختتام تک قاری کو ایسے اپنی گرفت میں لیتا ہے کہ وہ اسے پڑھنے کے بعد تسلیم کر لیتا ہے کہ اُس نے بہت بڑے ادیب کو پڑھا ہے۔
اے حمید نے ناولٹ ’’برفباری کی رات‘‘ بڑے سیدھے سبھاؤ سے لاہور سے چند دوستوں کے مری تک کے سفر پر لکھا ہے۔ خوبصورت چونکا دینے والے جملے اور چھوٹے چھوٹے واقعات ساتھ ساتھ چلتے رہتے ہیں مگر اس کا اختتام بہت ہی متاثر کن ہے اور ایک بُرے انسان کے اندر چھپے اچھے انسان کی عظمت کو سامنے لاتا ہے۔
شفیق الرحمان کا اُسلوب لطیف طنز و مِزاح سے لبریز ہوتا ہے اور یہ اُن کی تمام تحریروں کا خاصا رہا ہے۔ ’’برساتی‘‘ اُن کے یورپ میں زمانۂ طالب علمی میں گزارے ہوئے دنوں کی سفرنامے کے انداز میں ایک کہانی ہے جو معلوماتی بھی ہے اور اپنے اسلوب کے لحاظ سے منفرد بھی ہے۔
رحمان مذنب کو ہم اُردو ادب میں طوائف کے موضوع پر اتھارٹی کہہ سکتے ہیں۔ اگر لاہور اور طوائف کا ذکر کسی نے بھرپور انداز میں پڑھنا ہو، تو وہ اُسے رحمان مذنب کی تحریروں میں ملے گا۔ ’’باسی گلی‘‘ ایک علامتی نام ہے او رطوائف اور طوائفیت سے منسلک تمام لوگوں کے احوال کو سامنے لاتا ہے، جو رکھ رکھاؤ اور تہذیبی عناصر ہمیں اُس دور اور رحمان مذنب کے اُسلوب میں ملتے ہیں۔ وہ ہمیں اُن کی تحریروں کا اسیر بنا کے رکھ دیتے ہیں۔
انتظار حسین کا ناولٹ ’’اللہ کے نام پر‘‘ یوں تو اُن کے ابتدائی دور سے تعلق رکھتا ہے، مگر اپنے اندر وہ تمام اجزائے ترکیبی لیے ہوئے ہے جو ایک بڑے ادیب کی تحریر کو شناخت اور اعتبار عطا کرتے ہیں۔
جمیلہ ہاشمی، بہاول پور کے علاقے کی رہنے والی تھیں اور ’’روہی‘‘ صحرائی علاقے کا خوبصورت استعارہ ہے۔
جمیلہ ہاشمی کی وجۂ شہرت تو آدم جی ایوارڈ یافتہ ’’تلاشِ بہاراں‘‘ ہے مگر اُن کا یہ ناولٹ بھی بہت معیاری کاوش ہے۔
شوکت صدیقی اُردو ادب کے بہت بڑے افسانہ نگار تھے اور ناول نگار تو سب سے بڑے تھے۔ اُن کا ناولٹ ’’وہ اور اُس کا سایہ‘‘ ناولٹ نمبر ہی میں شائع ہوا۔ وہ مزدور اور غریب کی بات ہر جگہ کرتے ہیں اور یہی اُن کی پہچان اور انفرادیت ہے۔
مجنوں گورکھپوری بھی رومانوی تحریریں لکھنے والوں میں بڑا نام اور مقام رکھتے تھے۔ اُن کا ناولٹ ’’سوگوار شباب‘‘ انسانی جذبات، اُن کے تقاضوں او راثرات کو زیرِ بحث لاتا ہے اور آغاز سے انجام تک بڑی خوبی کے ساتھ چلتا ہے۔
پاکستانی اُردو ناولٹ کے وسطی دور کا آغاز ظہیر ریحان؍ ایاز عصمی کے مشترکہ طور لکھے گئے ناولٹ ’’آخر کب تک‘‘ سے ہوتا ہے جو ’’سیپ‘‘ کراچی کے ’’ناولٹ نمبر‘‘ کے لیے تحریر کیا گیا۔ یہ ایک علامتی اور نفسیاتی سی تحریر ہے جو ناولٹ کی کروٹ اور ارتقا کا پتا دیتی ہے۔
پاکستانی اُردو ادب کے سب سے بڑے ناولٹ نگار رحمان مذنب ہی ہیں۔ اُن کا یہ ناولٹ ’’کوہسار زادے‘‘ قبائلی علاقے کے حالات و واقعات سے اپنا منظر نامہ تشکیل کرتا اور کہانی اخذ کرتا ہے۔ اس میں انہوں نے طوائف سے ہٹ کر لکھنے کا تجربہ بھی کیا ہے جو اپنی جگہ کامیاب ہے۔
عزیز احمد پر مغربی تہذیبی اثرات بہت نمایاں ہیں۔ وہ اعلا سرکاری عہدوں پر بھی رہے۔ اس لیے اُن کا وِژن عام ادیبوں سے بہت ہٹ کر ہے۔ اُن کا یہ ناولٹ ’’جب آنکھیں آہن پوش ہوئیں‘‘ بھی اُن کے مخصوص اُسلوب کا پتا دیتا ہے او رقاری کو ساتھ لے کر چلتا ہے۔
اس ناولٹ ’’زرینہ اور ہاشم‘‘ میں رحمان مذنب نے طوائف سے ہٹ کر لکھنے کی کوشش کی ہے۔ اُن کا مطالعہ، مشاہدہ، تجربہ اور کرافٹ مل کر اُن کی ہر تحریر کو اہم بنا دیتے ہیں۔
اُن کا قلم بہت محتاط ہے مگر قاری کے ذہن کی ورزش کروانا کبھی نہیں بھولتا۔
نام یعنی ’’بدر بہادر ڈکیت‘‘ سے اس ناولٹ کی اہمیت اور خوبی واضح نہیں ہوتی، مگر مطالعہ اسے ایک بڑا ناولٹ ثابت کرتا ہے۔ بالخصوص اس کا ڈرامائی انجام تو قاری سے بہت داد سمیٹتا ہے۔ انور سجاد نے علامتی افسانے اور کہانی کو بڑا فروغ دیا۔ اُن کا یہ ناولٹ ’’جنم روپ‘‘ بھی نفسیاتی اور علامتی ہے۔ کہانی کے بغیر اتنا بڑا ناولٹ لکھ جانا بذاتِ خود کمال کی بات ہے۔ اس ناولٹ کے کئی ٹکڑے تو بڑے خوبصورت ہیں۔
بشریٰ رحمان کے اس ناولٹ ’’پے ان گیسٹ‘‘ کی انفرادیت یہ ہے کہ اس کے ہیرو ہیروئن چندے آفتاب، چندے ماہتاب نہیں ہیں۔ اُن کا تعلق مشرقی پاکستان سے ہے۔ یہ ناولٹ بھی اپنے اختتام کی طرف بڑھتا ہوا خوب سے خوب تر ہوتا چلا جاتا ہے۔ سلمیٰ یاسمین نجمی گو اُردو ادب کا معروف نام نہیں مگر اس ناولٹ ’’ہم نفس‘‘ کی حد تک وہ عظیم ادیبوں کی صف میں کھڑی ضرور نظر آتی ہیں۔ یہ افغانستان میں روس کی فوجی آمد کے پس منظر میں لکھا گیا ہے۔ یہ ایک تحقیقی ناولٹ بھی ہے اور کہانی کی سطح پر دلچسپ بھی۔
احمد عقیل روبی نے یہ علامتی انداز کا ناولٹ ’’چوتھی دنیا‘‘ لکھا ہے جس میں انہوں نے جانوروں کی زبان سے انسانوں کے ساتھ مکالمہ کیا ہے۔ بالخصوص گدھے کی زبان میں جسے ہم کم عقل تصور کرتے ہیں۔ یہ فکری دانش کے کئی پہلو لیے ہوئے ہے۔
کسی تحریر میں علمیت ٹپکتی دیکھنی ہو، تو وہ ’’غالب اور ڈومنی‘‘ پڑھ لے۔ خود مرزا غالبؔ ، خان فضل الرحمان خاں کی تحریر پڑھتے، تو کھلے دل سے داد دیتے۔ غالبؔ کو اُس کے عہد سمیت زندہ کر دینا خان صاحب کا کارنامہ ہے۔
ڈاکٹر سلیم اختر جو بحیثیتِ نقاد زیادہ جانے جاتے ہیں، انہوں نے یہ ناولٹ ’’ضبط کی دیوار‘‘ ایک نوجوان کی جنسی اور نفسیاتی کیفیات کے حوالے سے لکھا ہے، جس کا واسطہ ایک ایسی طوائف سے پڑتا ہے جس کے اندر مامتا تڑپ رہی ہے۔
زاہدہ حنا کی پہچان تو کالم نگاری ہے مگر اس ناولٹ ’’نہ جنوں رہا نہ پری رہی‘‘ میں انہوں نے خود کو ایک بڑی فکشن رائٹر کے طور پر بھی منوا لیا ہے بلکہ کہیں کہیں تو وہ قرۃ العین حیدر جونیئر معلوم ہوتی ہیں۔ اس ناولٹ کی خوب صورتی اور خوبی پارسی رسم و رواج پر مصنفہ کی تحقیق او رمشاہدہ ہے جو اس ناولٹ کو انفرادیت عطا کرتی ہے۔
غافر شہزاد افسانہ نگار اور شاعر کے طور پر اپنی پہچان رکھتے ہیں۔ اس ناولٹ ’’لوک شاہی‘‘ میں انہوں نے گاؤں سے شہر آنے والے ایک نوجوان کے جذبات و احساسات کی کہانی بیان کی ہے جس کا جنون شہر کی چکا چوند یعنی روشنی ہے۔
عمیرہ احمد بنیادی طور پر ناول نگار کے طور پر مشہور ہیں۔ اُن کا یہ ناولٹ ’’میری ذات ذرۂ بے نشاں‘‘ اُن کی ابتدائی تحریروں میں سے ایک ہے۔ یوں تو یہ ایک روایتی کہانی ہے مگر اس میں نیا پن، نئے اسلوب سے بڑی فنکاری کے ساتھ پیدا کیا گیا ہے۔
پاکستانی اُردو ناولٹ کو اکیسویں صدی میں لے کر آتے ہیں طاہر جاوید مغل اپنے ناولٹ ’’جذبۂ دروں‘‘ کے ساتھ، جو ڈائجسٹوں کے مشہور ترین ادیبوں میں شمار ہوتے ہیں۔ اُن کا یہ ناولٹ ایک رومانٹک ناولٹ ہے جس میں مصنف اپنے دل کا حال کھل کر اپنی محبوبہ سے بیان نہیں کر پاتا اورنتیجے میں اکیلا رہ جاتا ہے۔
آغا گل نے بلوچستان میں افسانے کے حوالے سے بڑی شہرت پائی۔ اپنے اس ناولٹ ’’بابو‘‘ میں انہوں نے ایک نوجوان کے جذبات کی بھرپور ترجمانی کی ہے جو زندگی میں نت نئے تجربات کر کے زندگی کو اپنے طریقے سے سمجھنے کی کوشش کرتا ہے۔ مرزا حامد بیگ کی کہانی ’’تار پر چلنے والی‘‘ اصل میں ایک علامتی کہانی ہے اور مکالماتی انداز میں لکھی گئی ہے۔ حقیقت میں کسی تار پر چلنے والی کا کوئی وجود نہیں، مگر کرافٹ کی خوبی تو اس کہانی میں بھرپور طریقے سے اعلا نثر کے ساتھ موجود ہے۔
بانو قدسیہ اُردو فکشن کا بہت بڑا نام ہیں۔ ناولٹ ’’ایک دن‘‘ ٹرین کے ایک سفر سے شروع ہوتا ہے اور ٹرین ہی پر ختم ہوتا ہے۔ اس سفر کے دوران میں جو ،جو واقعات رونما ہوتے ہیں یا کردار جہاں قیام کرتے ہیں، وہی اصل میں کہانی ہے۔
آزاد مہدی شاعرانہ نثر لکھتے ہیں۔ علامتی بات کرتے ہیں۔ اُن کا ناولٹ ’’اُس مسافر خانے میں‘‘ یوں تو ریلوے سٹیشن، ویٹنگ روم، پلیٹ فارم اور مسافروں سے متعلق نظر آتا ہے، مگر اس میں پورا معاشرہ، اُس کے دُکھ اور مسائل در آئے ہیں۔ یہ جدید لب و لہجہ ابتدا میں نامانوس سا لگتا ہے مگر ایک وقت میں قاری کے دل کو چھونے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔
فرانسیسی نژاد ژولیاں نے اُردو زبان سیکھ کر ’’ساغر‘‘ جیسا خوبصورت ادبی شہ پارہ تخلیق کر ڈالا جو مشہور درویش شاعر ساغرؔ صدیقی کی کہانی ہے۔ ساغر صدیقی کے بارے میں اُن کی تحقیق اور پھر اُس کی فنکارانہ پیشکش دونوں ہی اپنی اپنی جگہ اہم او رلائقِ داد ہیں۔
عبداللہ حسین کا ناولٹ ’’رات‘‘ کراچی کا منظر نامہ لیے ہوئے ہے۔ لو میرج کرنے والے دو یونیورسٹی سٹوڈنٹس کی کہانی ہے جسے ایک تیسرا کردار جو یونیورسٹی میں تو شکست کھا گیا تھا یونین کے صدر کے مقابلے میں، مگر یونیورسٹی سے باہر نکل کر کامیاب آدمی بن جاتا ہے۔ یہ زندگی کے عروج و زوال کی تلخ کہانی ہے۔
علی عباس جلالپوری کی پہچان تو ایک مستند فلاسفر کی ہے جنہوں نے عالمی فلسفے اور فلسفیوں کو اچھی طرح سمجھا اور انہیں اُردو دان طبقے تک بہت سادہ طریقے سے منتقل کیا۔ اُن کا ناولٹ ’’پریم کا پنچھی پنکھ پسارے‘‘ رومانٹک او رتقسیم سے پہلے کی لبرل فضا سے تعلق رکھتا ہے۔ زبان و بیان پر اُن کی مکمل گرفت بتاتی ہے کہ اگر وہ اس میدان کو بھی وقت دیتے، تو بہ طورِ فکشن رائٹر بھی بڑا نام پاتے۔
ناولٹ ’’ہیلن آف ٹرائے‘‘ صادق حسین کے ضخیم افسانوی مجموعے کی دریافت ہے۔ اس کا مرکزی کردار ایک امیر زادی ہے جو نفسیاتی عارضے کے باعث خود کو ہیلن آف ٹرائے سمجھنے لگتی ہے۔ اُس کے گھر والے اُسے نارمل زندگی کی طرف لانا چاہتے ہیں۔ وہ اتفاقیہ طور پر ایک نوجوان سے ملتی ہے جو اُسے نارمل کر دیتاہے۔
ژولیاں نے اپنا دوسرا ناولٹ لکھنے کے لیے اُردو ادب کی ایک اور بڑی شخصیت میرا جیؔ کو منتخب کیا۔ میرا جیؔ کا تعلق بھی ساغرؔ صدیقی کی طرح لاہور سے تھا۔ وہ ایک ہندو لڑکی میراسین کے عشق میں ایسے مبتلا ہوئے کہ اُن کا نام ہی ’’میرا جیؔ‘‘ پڑ گیا اور یہ عشق اُن کی باقی ماندہ تمام زندگی پر چھایا رہا۔ میرا جیؔ کی شاعری اصل میں میراسین ہی کے لیے تھی۔ حُسن پرست اور ’’جنسی رجحان‘‘ تو وہ بچپن ہی سے رکھتے تھے۔ انہوں نے آل انڈیا ریڈیو دِلّی میں ملازمت بھی کی اور وہاں بھی اعلا ادبی کام کیا۔ ژولیاں نے میرا جیؔ کو بھی ہمارے سامنے زندہ سلامت لا کھڑا کیا ہے۔
ڈاکٹر خالد سہیل یوں تو میڈیکل نفسیاتی ڈاکٹر ہیں مگر انہوں نے فکشن بھی لکھا ہے۔ ناولٹ ’’دریا کے اُس پار‘‘ میں انہوں نے کینیڈا میں ایک پاکستانی نژاد کو پیش آنے والے واقعات کے بارے میں لکھا ہے جو نفسیاتی مریض ہے اور ڈاکٹروں کی زیرِ ہدایت اُس کی نگرانی جاری ہے۔
خالد علیم اُستاد شاعر کے طو رپر اپنی پہچان رکھتے ہیں۔ ’’دائرے میں قدم‘‘ اُن کا سوانحی ناولٹ ہے جسے اُن کی حقیقت نگاری نے پُرتاثیر اور یادگار بنا دیا ہے۔ ایک نوجوان کے زندگی کے بارے میں خواب، لااُبالی پن، زمانے کی بے رحمیاں اور پاکباز لوگوں کی پُرخلوص محبتیں، سبھی کچھ ہے اس خوبصورت ناولٹ کے اندر جو اپنے قاری کو آنکھ تک جھپکنے نہیں دیتا۔
…………………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔