گذشتہ دنوں پاکستان کے وزیر اعظم محترم عمران خان نے خواتین کے لباس کے حوالے سے ایک غیرملکی چینل پر گفتگو کی۔اس سے پہلے بھی خان صاحب اس ضمن میں کچھ ایسی ہی باتیں کرچکے ہیں۔
خان صاحب کی گفتگو کا لبِ لباب بس یہ تھا کہ پاکستان جیسے معاشرے میں جہاں ثقافتی، سماجی اور دینی روایات اپنی ہیں۔ سو اس وجہ سے خواتین کا ہیجان خیز لباس ہمارے مردوں کو بے چین کرنے کا باعث بنتا ہے ۔ اس نتیجے میں ہمارے ہاں جنسی جرائم جیسے ’’جنسی ہراسمنٹ‘‘ چھیڑ چھاڑ بلکہ بہت حد تک آبروریزی کا باعث بنتا ہے۔ اس پر ملک کے اندر ایک بھونچال آگیا۔
اس پر دو طرح کے طبقوں نے تبصرے شروع کر دیے ۔ ایک کو تو سنجیدہ لینا حماقت ہے، کیوں کہ یہ طبقہ وہ ہے جس کی تمام سوچوں اور دانشوری کا محور و مرکز صرف ’’سیاسی تعصب‘‘ ہے، خواہ وہ حمایت میں ہو یا مخالفت میں۔ انہوں نے وزیراعظم کی ذات کو مرکز بنا کر ہی تبصرہ کرنا ہے۔ دوسری طرف تحریکِ انصاف تو بس ’’عمران خان فین کلب‘‘ ہے۔ ان سے کسی معقول بات کی توقع کرنا شاید معصومیت ہوگی۔ کل عمران خان کہہ دے کہ ’’سورج مغرب سے نکلے گا‘‘ یہ نوجوان شروع ہو جائیں گے سائنس اور تاریخ کے حوالوں کے ساتھ کہ واقعی سورج نہ صرف مغرب سے نکل سکتا ہے بلکہ ماضی میں بہت بار نکل بھی چکا ہے۔ اسی طرح مخالفین کا بھی ایک طبقہ ایسا ہے کہ جس نے عمران خان کی ہر بات کی مخالفت ہی کرنی ہے۔
سو ہمارا مخاطب وہ لوگ ہیں کہ جو اپنی دانش کے مطابق ایک دیانت دارانہ رائے رکھتے ہیں اور اس مسئلہ پر دونوں کے درمیان ایک اصولی اور دانشورانہ اختلاف پایا جاتا ہے۔ ایک طبقہ جو نسبتاً لبرل اور ترقی پسند سمجھا جاتا ہے، جس میں بڑی سیاسی جماعتیں جیسے پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن، عوامی نیشنل پارٹی، کچھ خواتین کے حقوق کی تنظیمیں اور کچھ سول سوسائٹی کے متحرک ارکان شامل ہیں، نے وزیرِ اعظم کے اس بیان کو کلی طور پر مسترد کر دیا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ وزیراعظم کے اس بیان نے زبردستی جنسی جرائم کرنے والوں کو ایک جواز دیا ہے۔ وہ اپنے حق میں یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ اگر جنسی تحرک کی محض وجہ خواتین کا لباس ہے، تو پھر معصوم بچوں اور بہت سی پردہ دار خواتین کے خلاف یہ جرائم کیوں واقع ہوتے ہیں؟ ان کا خیال ہے کہ وزیراعظم نے بیان محض ایک مخصوص طبقہ کو خوش کرنے واسطے کیا، لیکن دنیا میں اس بیان کی وجہ سے ہماری جگ ہنسائی ہوئی۔
کچھ لوگ تو یہ بھی دور کی کوڑی لائے کہ چوں کہ وزیراعظم نے اس کی ایک وجہ ہماری معاشرتی و دینی اقدار کو بھی کہا کہ چوں کہ ہمارا معاشرہ ایک خاص ماحول اور ثقافت رکھتا ہے اور اس وجہ سے ہمارے ہاں جنسی عیاشی کے اڈے جیسے ’’پب ہاؤس‘‘، ’’نائٹ کلب‘‘ اور ’’چکلے‘‘ نہیں سو جنسی بے چینی کچھ لوگوں کو ان حرکات پر مجبور کرتی ہے۔ اسی وجہ سے اس سوچ کا یہ خیال ہے کہ شاید وزیراعظم اس آڑ میں ملک کا معاشرتی ڈھانچا تباہ کرنا چاہتے ہیں اور ملک کو یورپ کی طرز پر بنانا چاہتے ہیں۔
ایک اور طبقہ کی یہ رائے ہے کہ وزیراعظم نے یہ بات زمینی حقائق کے تناظر میں کی ہے اور مجرموں کی مذمت اور سزا اپنی جگہ لیکن ہماری خواتین کو بھی بہرحال اپنی اقدار کے مطابق لباس کا چناؤ کرنا چاہیے، جو مذہب کا بھی تقاضا ہے اور عورت کی حرمت کی بہت حد تک ضمانت بھی۔ سو وزیراعظم کے اس بیان کی نہ صرف غیر مشروط حمایت کرنی چاہیے بلکہ وزیرِ اعظم کو اس سلسلے میں عملی اقدام بھی کرنا چاہیے، بلکہ خواتین کے لباس کے حوالے سے ایران اور سعودیہ کی طرح ایک قانون بنایا جائے، تاکہ معاشرے میں ’’جنسی انارکی‘‘ کا خاتمہ ہو۔
ہم نے دونوں طرف کے دلائل کو بغور سمجھنے کی کوشش کی اور ہمارا ذاتی خیال ہے کہ جس طرح ہمارا معاشرہ خاص کر 80 عیسوی کی دہائی کے بعد دو متوازی انتہاؤں میں بٹ چکا اور درمیانی طرز مفقود ہوچکی ہے۔ سو ہم اس پر نسبتاً درمیانی رائے رکھتے ہیں۔
قارئین کرام! اب دلائل کے تناظر میں دیکھا جائے، تو درجِ بالا دونوں نکتۂ نظر نہ تو کلی طور پر غلط ہیں اور نہ کلی طور پر صحیح ہی ہیں۔ دونوں کے دلائل میں وزن بھی ہے اور دونوں کے نتائج میں کنفیوژن بھی۔ اس حوالہ سے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اگر حقائق کی نظر سے دیکھا جائے، تو وزیر اعظم کی بات اتنی بھی فضول نہیں جتنی پیش کی جا رہی اور نہ اتنی مضبوط کہ جس کو دین کی اساس بنا کر پیش کیا جائے ۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر ہم اسلام کی نظر سے بھی دیکھیں، تو اسلام نے بے شک لباس کے معاملے میں ہمیں ایک بنیادی اصول دیا ہے۔ اسلام کا بنیادی اصول ہے کہ آپ کا لباس ایک تو آپ کی پہچان مجروح کرنے کا باعث نہ ہو، یہ نہ ہو کہ مرد خاتون اور خاتون مرد نظر آئے۔ دوسرا آپ کا لباس باوقار اور مہذب ہو، جو کسی بھی حالت میں جنس مخالف کے جنسی تحرک اور بے چینی کا باعث نہ ہو۔ یہاں یہ بات یاد رہے کہ یہ اصول دونوں طرف ہے یعنی مرد ہو یا عورت۔ یہ نہیں کہ مرد کو کھلی چھٹی ہے اور سب پابندیاں خواتین واسطے ہیں۔
میرا خیال ہے کہ پاکستان کی شاید 98 فی صد آبادی اس اصول کے مطابق ہی چلتی ہے۔ شاید لاہور، اسلام آباد یا کراچی کے کچھ پوش علاقوں میں اس سے ہٹ کر لباس پہنا جاتا ہے۔ لیکن وزیراعظم کی بات اس حد تک تو صحیح ہے کہ خواتین کا لباس جو شاید عام حالات میں تو اتنا قابلِ اعتراض نہ ہو، لیکن بہرحال ہمارے میڈیا، ڈراموں اور فلموں میں تو انتہائی بے ہودہ لباس کا استعمال ہوتا ہے جو ایک نارمل شخص کے واسطے بے شک جنسی ہیجان خیزی کا باعث بن سکتا ہے۔ پھر اندر کی ’’فرسٹریشن‘‘ اس سے کچھ غیر فطری اور سنگین جرائم کا ارتکاب کروادیتی ہے۔ سو اگر ہم وزیر اعظم پاکستان کے بیان کو اس نکتۂ نظر سے دیکھیں، تو اس کو تسلیم کرنے میں حرج بھی نہیں، بلکہ ہم معاشرے کو نسبتاً زیادہ پاکیزہ بنا سکتے ہیں۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ کچھ ذہنی مریض بے شک کچھ پردہ دار خواتین کے ساتھ زبردستی کا ارتکاب کر گزرتے ہیں، لیکن عمومی طور پر باپردہ خواتین اور مہذب لباس میں ملبوس خواتین پر عمومی طور پر عزت کی نظر ہی پڑتی ہے
دوسری طرف یہ بات بھی صحیح ہے کہ معاشرے کے چند اوباش محض اپنی سستی خواہشات اور عیاش رویہ کی وجہ سے ایسی بہت سی غلط حرکات کرتے ہیں کہ جہاں لباس کی اہمیت ہی نہیں بلکہ کتنی دفعہ تو یہ شادی شدہ مہذب نقاب پہننے والی باعصمت خواتین کے علاوہ میتوں اور معصوم کلیوں کے ساتھ بھی جنسی جرم کا ارتکاب کر دیتے ہیں۔ ان کے اس عمل کو کسی طور پر بھی کسی توجیح کے دائرے میں نہیں لایا جاسکتا اور ریاست کو ایسے عناصر کے خلاف سخت سے سخت اقدامات کیے جائیں اور ان کو نشانِ عبرت بنایا جائے ۔ یعنی ہم یہ سمجھتے ہیں کہ دو طرفہ اقدامات ہی اس کا کلی نہیں تو جزوی حل ضرور ہیں۔
مثال کے طور پر آپ مالکان کو دکان کی حفاظت واسطے موزوں اقدام کی تبلیغ بھی کریں لیکن دوسری طرف چوروں کو محض اس بنیاد پر ’’مجبور‘‘ یا ’’بے گناہ‘‘ قرار نہ دیں کہ کھلی دکان نے ان کو چوری کرنے کی پیشکش کی ہے۔
ان جرائم کا ایک تیسرا پہلو بھی ریاست اور سول سوسائٹی کے سوچنے کا ہے کہ ایسے اشخاص جو ان مکروہ جرائم کے مرتکب ہوتے ہیں، خاص کر معصوم بچوں کے ساتھ ان کا نفسیاتی تجزیہ کیا جائے۔ کیوں کہ جنسی جرائم کا بنیادی مقصد تو جنسی اطمینان و لذت ہوتا ہے۔ اب ایک نارمل شخص معصوم بچوں سے اور وہ بھی زبردستی یہ شیطانی فعل کرکے کس طرح اطمینان اور لذت حاصل کرسکتا ہے؟ بظاہر تو یہ ممکن ہی نہیں……! تو وہ پھر اس عمل واسطے خود کو راغب کس طرح کرسکتا ہے؟
میری ان علوم کے کچھ ماہرین سے بات ہوئی ہے۔ اُن کا یہ تجزیہ ہے کہ کوئی نارمل شخص ایک جوان خوبصورت عورت سے بھی اس وقت تک اطمینان حاصل نہیں کرسکتا جب تک وہ خاتون اس عمل میں اس کے ساتھ برابر کا ساتھ نہ دے۔ تو معصوم بچوں سے زور بردستی تو ممکن ہی نہیں۔
سو حکومت کی سزا اپنی جگہ لیکن ان حرکات میں ملوث اشخاص کا مکمل نفسیاتی معائنہ کروائیں، تاکہ ان کی اصل وجوہات کا پتا چل سکے اور پھر ان وجوہات کے خاتمہ واسطے اقدامات کیے جائیں۔ وگرنہ خالی سخت قوانین شاید پر اثر نہ ہوں۔
اس حوالہ سے ہماری اس پر حتمی رائے ہے کہ تینوں طرح کے اقدامات ضروری ہیں:
پہلا، خواتین کو لباس اور مخلوط محفلوں کے حوالے سے سمجھایا جائے۔
دوسرا، اوباش عناصر کے خلاف سخت اقدامات کیے جائیں۔
تیسرا، ان مجرموں کا نفسیاتی معائنہ کروا کر وجوہات کے خاتمے واسطے طریقۂ کار وضع کیا جائے۔
………………………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
