یہ ایک ایسے پہاڑی جزیرے کے سفر کی داستان ہے جسے دیکھنے کی تمنا لڑکپن سے ہی میرے دل میں پنپنا شروع ہو گئی تھی۔ مَیں سوچا کرتا تھا کہ وہ کیسا خطہ ہوگا جہاں سے روانگی کے بعد ایک مسلمان سپہ سالار نے اپنی کشتیاں جلا کر یورپ کی سرزمین پر قدم رکھا۔ 2.6 مربع میل رقبے پر مشتمل یہ پہاڑی جزیرہ جو کبھی ’’جبل الطارق‘‘ کہلاتا تھا، اب ’’جبرالٹر‘‘ کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔ اب یہاں تقریباً 34 ہزار افراد آباد ہیں۔
اس جزیرے اور افریقی ملک مراکو کے شہر طنجیر (طنجہ) کے درمیان بحر اوقیانوس یعنی اٹلانٹک اوشن کا 14 کلومیٹر کا سمندری راستہ حائل ہے جب کہ اس کے دوسری طرف سپین (ہسپانیہ) کا ساحلی شہر ماربیلا اور بحیرۂ روم یعنی ’’میڈی ٹرینین سی‘‘ ہے۔
کورونا وائرس کی وبا پھیلنے سے پہلے یہ میرا آخری سفر تھا۔ اس سفر میں نسیم احمد اور شہزاد خان میرے ہمراہ تھے بلکہ میں اُن کا ہم سفر تھا۔ ہمارا قیام مالاگا میں تھا جو سپین کا ایک پُرکشش تفریحی مقام اور چھٹیاں گزارنے کے لیے شان دار ساحلی علاقہ ہے۔ اس شہر میں معتدل درجۂ حرارت کے سبب سارا سال سیاحوں کی بھیڑ لگی رہتی ہے۔ ہمارا پڑاؤ ساحل کے ساتھ ایک ’’ہالیڈے ریزارٹ‘‘ میں تھا جہاں سوئمنگ پول اور جکوزی سے لے کر ہر طرح کی سہولت اور آرام میسر تھا۔
ہمارا پہلا دن تو ’’مالاگا‘‘ کی رونقیں اور رعنائیاں دیکھنے میں گزر گیا اور شام ڈھلے ہم نے ایک ساحلی ریستوران پر پہلی بار ’’پائیلا‘‘ یعنی مچھلی، پران اور چاول وغیرہ سے بنی ہوئی خاص روایتی ’’سپینش فوڈ‘‘ کھائی، تو دن بھر کی تھکن دور ہوگئی۔
اگلے روز ہماری منزل ’’جبرالٹر‘‘ تھی۔ چناں چہ ہمیں پہلے ’’ماربیلا‘‘ پہنچنا تھا جہاں سے ہمیں ’’امیگریشن‘‘ کے مرحلے سے گزر کر ’’جبل الطارق‘‘ میں داخل ہونا تھا۔جب ہم ’’امیگریشن کاؤنٹر‘‘ پر پہنچے، تو ہم سے پہلے چند سیاحوں کے علاوہ اُن لوگوں کی ایک بڑی تعداد بھی موجود تھی جو روزانہ سپین سے کام کاج کے لیے ’’جبرالٹر‘‘ جاتے ہیں۔ جبرالٹر چوں کہ برطانیہ کی 14 ’’اوورسیز ٹیریٹری‘‘ (Overseas Territory) میں سے ایک ہے۔ اس لیے برطانوی پاسپورٹ والے مسافروں کو کسی قسم کے ویزے کی ضرورت نہیں پڑتی۔
امیگریشن کی راہداری سے گزر کر جب ہم جبرالٹر میں داخل ہوئے، تو موسم ابر آلود تھا اور تیز ہواؤں نے ہمارا استقبال کیا۔ ہمارے سامنے ایک قِطار میں کوچز کھڑی ہوئی تھیں جو مسافروں کو شہر تک لانے لے جانے کے لیے متعین تھیں۔ شہر میں داخل ہونے کے لیے مسافروں کو وہ چھوٹی سی آبنائے عبور کرنا پڑتی تھی جس پر اب جبرالٹر ایئرپورٹ بنا ہوا ہے۔ کسی پرواز (فلائٹ) کی آمد پر ٹریفک کے لیے سڑک بند کر دی جاتی ہے یعنی اس ہوائی اڈے کا رن وے جہاز اور گاڑیوں دونوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ کوچ نے جب ہمیں شہر کے داخلی راستے کے آغاز میں اتارا، تو ہمیں یوں لگا کہ ہم انگلستان میں آ گئے ہیں۔ وہی سرخ رنگ کے ٹیلی فون بوتھ، پوسٹ کوڈ سمیت سڑکوں کے سائن بورڈ،سرخ لیٹر بکس، بلیک کیبز اور برٹش یونیفارم میں ملبوس پولیس، خریداری کے لیے برطانوی طرز پر بنی ہوئی ہائی سٹریٹ اور جانے پہچانے ناموں والے شاپنگ سٹور۔ ہماری اجنبیت یک دم شناسائی میں بدل گئی۔ ہم نے کوچ سے اترتے ہی ایک ٹیکسی لی جس نے ہمیں پورا جبراالٹر دکھانے بلکہ سیر کرانے کی حامی بھر لی۔ ٹیکسی ڈرائیور انگریز تھا جو چند برس پہلے ہی لندن سے جبرالٹر منتقل ہوا تھا۔ چیلسی فٹ بال کلب کا زبردست فین یعنی مداح تھا۔ جبرالٹر کے بارے میں بہت سی باتیں تو پہلے سے ہمارے علم میں تھیں کچھ اس ٹیکسی ڈرائیور نے بتا کر ہماری معلومات میں اضافہ کیا۔
جبرالٹر مشرق اور مغرب کا سنگم ہے اور یہاں کے موسم میں بھی افریقہ اور یورپ کا دلفریب امتزاج سارا سال محسوس کیا جا سکتا ہے۔ اس جزیرے کا قدرتی حسن اپنی جگہ لیکن اس فطری حسن کا تحفظ اور تاریخی باقیات کو محفوظ کرنا بھی قابلِ ستائش ہے۔ انہی دو چیزوں کی وجہ سے جبرالٹر سیاحوں کے لیے ایک خاص کشش رکھتا ہے۔
تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ خلیفہ الولید اول کے زمانے میں افریقہ کے گورنر موسیٰ بن نصیر نے 710ء میں طارق بن زیاد کو طنجیر کا گورنر مقرر کیا۔ طارق بن زیاد 670ء میں پیدا ہوا جس کا تعلق الجیریا کی بربر نسل سے تھا۔ وہ ایک بہادر، نڈر، ذہین اور دور اندیش جنگجو کمانڈر تھا۔ ابتدائی عمر میں وہ غلام تھا لیکن اسلام قبول کرنے کے بعد اُسے آزادی نصیب ہوئی، تو اس نے اپنی ساری زندگی اسلام کی سربلندی کے لیے وقف کر دی۔ بتایا جاتا ہے کہ اُسے خواب میں بشارت ہوئی تھی کہ وہ بحر اوقیانوس عبور کر کے ہسپانیہ کو فتح کرے۔ اُس وقت ہسپانیہ پرتگال اور سپین پر مشتمل یورپ کی بہت طویل داخلی سرحد تھا۔ طنجیر اور ہسپانیہ کے درمیان جبرالٹر کا پہاڑی جزیرہ حائل تھا۔ طارق بن زیاد نے اپریل 711ء میں بحری کشتیوں کے ذریعے اپنے جانثار فوجی دستوں کے ہمراہ سمندر عبور کر کے جبرالٹر پر پڑاؤ ڈالا۔ دوسری طرف سپین کے عیسائی بادشاہ کنگ روڑرک کی ایک لاکھ سے زیادہ فوج مدِ مقابل تھی۔ یہ جگہ آج بھی اس جزیرے پر راک آف جبرالٹر کے نام سے محفوظ ہے۔
ہسپانیہ پر حملہ آور ہونے سے پہلے طارق بن زیاد نے اپنی تمام کشتیوں کو آگ لگا دی اور اس موقعہ پر اپنے فوجیوں سے وہ تاریخی خطاب کیا جس کی بازگشت ہمیں آج بھی تاریخ کے گنبدوں سے سنائی دیتی ہے۔ اس دلیر سپہ سالار نے کہا کہ ’’ہمارے آگے دشمن کی فوج صف آرا ہے اور پیچھے سمندر ہے۔ اب ہمیں صرف اپنے مقصد کے حصول کے لیے اس وقت تک لڑنا ہے جب تک شہادت یا فتح ہمارا مقدر نہ بن جائے۔ ہمارے پاس واپسی کا اب کوئی رستہ نہیں ہے۔‘‘
طارق بن زیاد کی فوج کی تعداد سات ہزار کے قریب تھی لیکن وہ اس بہادری اور جرأت سے لڑے کہ انہوں نے کنگ روڈرک کی ایک لاکھ سے زیادہ مسلح فوج کے قدم اکھاڑ دیے اور سپین کو فتح کرلیا۔ یہ 28 رمضان کا دن تھا۔ سپین میں فاتح کی حیثیت سے داخل ہونے پر موسیٰ بن نصیر نے طارق بن زیادکو پیش قدمی کے لیے مزید فوجی دستے بھجوائے جن کی تعداد 6 ہزار بتائی جاتی ہے۔ سپین کو فتح کرنے کے بعد اسے اندلس کے نام سے بھی پہچانا جانے لگا۔ مسلمانوں نے یہاں آرٹ، کلچر اور سائنس کے شعبے میں بہت شان دار کام کیے جو آج بھی یورپ میں مسلمانوں کے کارناموں کی یادگار کے طور پر موجود ہیں۔
سپین میں مسلمانوں کے ساڑھے سات سو برس کے اقتدار کی نشانیاں ہمیں اب بھی بہت کچھ سوچنے اور غور کرنے کی دعوت دیتی ہیں۔
سپین کی فتح کے سات برس بعد خلیفہ وقت نے طارق بن زیاد کو دمشق بلایا موسیٰ بن نصیر بھی اُن کے ہمراہ تھے جو تمام فتوحات کا کریڈٹ خود لینا چاہتے تھے لیکن حقیقت کھلنے پر انہیں جیل کی ہوا کھانی پڑی، مگر طارق بن زیادکو بھی ان کے تمام اعزازات سے محروم کر دیا گیا اور اُن کی عمر کا آخری حصہ بہت کسمپرسی میں گزرا اور وہ 720ء میں انتقال کرگئے۔
سپین کے تاریخی حوالے اپنی جگہ لیکن جبرالٹر (جبل الطارق) کی تاریخ بھی بہت دلچسپ ہے۔ 18ویں صدی کے آغاز تک یہ جزیرہ سپین کے کنٹرول میں تھا لیکن 1704ء میں یہ برطانیہ کے قبضے میں آگیا۔ دوسری جنگِ عظیم میں یہ جزیرہ برطانوی رائل نیوی کے اہم مرکز کے طور پر استعمال ہوتا رہا۔ سپین آج بھی ’’جبرالٹر‘‘ پر اپنا حق جتاتا ہے اور برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی کے بعد جبرالٹر کا مستقبل کئی طرح کے خدشات کا شکار ہوگیا ہے۔ ان دنوں اس پہاڑی جزیرے کی 34 ہزار آبادی میں 78 فیصد عیسائی اور تقریباً 4 فیصد مسلمانوں کے علاوہ دیگر اقلیتوں کے لوگ آباد ہیں۔
ٹیکسی ڈرائیور ہمیں بل کھاتی تنگ سڑکوں کے ذریعے پہاڑی رستوں کے بارے میں بتاتا ہوا ایک غار کے دھانے پر لے گیا۔ یہ ’’جبرالٹر‘‘ کا ایک تاریخی اور قابلِ دید مقام ہے اسے "Saint Michael Cave” کہتے ہیں۔

جبرالٹر کے تاریخی "Saint Michael Cave” کا اندرونی منظر۔ (فوٹو بہ شکریہ: tripsavvy.com)

جب ہم ٹکٹ لے کر اس غار میں داخل ہوئے، تو یوں لگا کہ ایک جہانِ حیرت ہمارا منتظر ہے۔ ٹھنڈک کے ایک عجیب و غریب احساس نے ہمیں اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ غار کی بلندی سے پانی رِس رہا تھا اور چاروں طرف سے ایک خواب ناک روشنی ہر آنے والے کا استقبال کر رہی تھی۔ وقفے وقفے سے یہ روشنی کبھی ہلکی گلابی، کبھی سفید، کبھی ہلکی نیلی اور کبھی ہلکی سبز رنگت میں تبدیل ہو رہی تھی۔ یوں لگ رہا تھا کہ ہم کسی خواب کی دنیا میں آگئے ہیں۔ نسیم احمد اور شہزاد خان اپنے فون سے اس ماحول کی ویڈیو بنا رہے تھے اور بہت سے سیاح بھی غار کے پتھروں سے رسنے والے پانی کے ساتھ تصویریں بنانے میں مصروف تھے۔
یہ غار صدیوں پرانا ہے اور اسے دوسری جنگِ عظیم کے دوران میں ہسپتال کے طور پر بھی استعمال میں لایا گیا۔ اس غار کے بارے میں ایک طویل مدت تک یہ سمجھا جاتا رہا کہ یہ سمندر کے اندر افریقہ تک پہنچنے کا کوئی جادوئی راستہ ہے۔ ہم اس رنگ برنگے پتھریلے غار کے سحر سے نکل کر باہر آئے، تو سرمئی اور سفید بادلوں کی ٹولیاں سمندر سے ہم آغوش ہو رہی تھیں اور تیز ساحلی ہوا کے ساتھ رم جھم کی وجہ سے ٹھنڈک میں اضافہ ہوگیا تھا۔ ہماری اگلی منزل ’’ٹاپ آف دی راک‘‘ تھی جہاں سے کیبل کار کے ذریعے ہمیں بحرِ اوقیانوس اور جبرالٹر کے ملاپ کا نظارہ کرنا تھا لیکن ٹیکسی ڈرائیور نے بتایا کہ آج تیز ہواؤں اور موسم کی خرابی کے باعث کیبل کار سروس بند ہے۔ چناں چہ ڈرائیور نے ٹیکسی کا رُخ ’’دی گریٹ سیج ٹنلز‘‘ (The Great Seige Tunnels) کی طرف موڑ دیا۔ یہ سرنگیں 18ویں صدی کے آخر میں اس وقت بنائی گئیں جب برطانیہ کو فرانس اور سپین کے خلاف اس جزیرے کے دفاع کی ضرورت پیش آئی۔ اِن سرنگوں میں ’’ورلڈ وار ٹنلز‘‘ بھی ہیں جن میں جگہ جگہ روشن دان اور مورچے بنے ہوئے ہیں، جہاں سے دشمن کو اسلحے اور بارود کا نشانہ بنایا جاسکتا تھا۔ پہاڑوں کے اندر بنائی گئی یہ سرنگیں انسانی محنت اور مہارت کا منھ بولتا ثبوت ہیں اور خاص طور پر اُس زمانے میں ان سرنگوں کا بنایا جانا جب موجودہ دورجیسی سہولتیں بھی میسر نہیں تھیں، واقعی حیرت انگیز ہے۔ ان سرنگوں کے مورچوں میں اب بھی باوردی مجسمے رکھے گئے ہیں جن کے ساتھ معلوماتی سائن بورڈ بھی آویزاں ہیں۔ ان سرنگوں کے داخلی گیٹ کے ساتھ ہی سیاحوں کے بیٹھنے اور تصاویر بنانے کے لیے جگہ مختص ہے جہاں سے ماربیلا اور اس سے ملحقہ مضافاتی علاقے دور دور تک دکھائی دیتے ہیں بلکہ اس بلند مقام جبرالٹر کے ہوائی اڈے کے ’’رن وے‘‘ کو دیکھنا بھی خوشگوار تجربہ تھا۔ یہیں سے ہمیں ایک قلعہ کھائی دیا جس کو ہم نے واپسی کے رستے پر رُک کر دیکھا جس کی تفصیل اس سفر کی داستان کے آخر میں آئے گی۔
سرنگوں سے نکل کر ہمارا رُخ ’’اپر ایپس ڈین‘‘ (UPPER APES DEN) کی طرف تھا۔ یہ جزیرے کی وہ بلند و بالا جگہ ہے جہاں تقریباً 3 سو جنگلی بندر آزادانہ گھومتے اور سیاحوں کے ساتھ اٹھکیلیاں کرتے ہیں۔ یہ پورے یورپ کا وہ واحد تفریحی مقام ہے جہاں اتنی بڑی تعداد میں بھورے بندروں کو آزاد چھوڑا گیا ہے۔ یہ بندر اتنے سمجھ دار یا چالاک ہیں کہ سیاحوں کے ساتھ تصویر بنوانے کے لیے باقاعدہ پوز بناتے اور تصویر بنائے جانے تک ساکت رہتے ہیں اور تصویر بن جانے کے بعد سیاحوں سے کھانے کے لیے کسی پھل یا مونگ پھلی کی توقع کرتے ہیں۔ اچھی بات یہ ہے کہ بند رکسی سیاح پر حملہ آور نہیں ہوتے۔ اگر آپ کچھ کھا رہے ہوں، تو حسرت سے دیکھتے رہتے ہیں، چھینا جھپٹی نہیں کرتے۔

جزیرے کی وہ بلند جگہ جہاں بندر آزادانہ گھومتے ہیں۔ (فوٹو بہ شکریہ: istockphoto.com)

ان بندروں کے بارے میں ایک خیال یہ بھی ہے کہ جب تک اس جزیرے پر موجود رہیں گے، یہاں پر برطانوی راج قائم رہے گا۔ اسی لیے ونسٹن چرچل نے اپنے زمانے میں ان کی دیکھ بھال کا حکم نامہ جاری کیا تھا۔ یہ بندر بلند پہاڑی رستے کے دونوں طرف چٹانوں پر بیٹھے سیاحوں کی راہ تکتے رہتے ہیں۔ یہ بندر رنگ برنگے سیاحوں کو دیکھ کر اس قدر حیران نہیں ہوتے جس قدر سیاح انہیں بلندی پر دیکھ کر حیران اور خوش ہوتے ہیں۔ جبرالٹر کے سکّوں پر بھی اِن بندروں کی تصاویر کندہ ہیں۔
ٹیکسی ڈرائیور نے ہمیں بتایا کہ محکمۂ موسمیات کی پیش گوئی کے مطابق کچھ دیر بعد تیز بارش کا امکان ہے، تو ہم نے واپسی کا سفر اختیار کیا۔ ٹیکسی میں بیٹھنے سے پہلے ہم نے ڈرائیور سے فرمائش کی کہ وہ اس بلند پہاڑی مقام پر ہم تینوں دوستوں کی کچھ تصاویر بنا دے، تو اس نے خوشی خوشی شہزاد خان کے موبائل فون کیمرے سے ہم سب کے لیے گروپ فوٹو بنائے اور نسیم احمد نے ویڈیو بنا کر اس تفریحی مقام کی یادوں کو محفوظ کر لیا۔

جبرالٹر کے اوپر لکھاری کی اپنے دوستوں کے ساتھ ایک یادگار تصویر۔ (بہ شکریہ فیضان عارف)

واپسی کا پہاڑی رستہ بل کھاتی ڈھلوان سے ہمیں اس قلعے کی طرف لے جا رہا تھا جس کی فصیلوں اور چھت کو ہم نے بلندی سے دیکھا تھا۔ موسم کی خرابی کی وجہ سے ہم اس قلعے کے اندر نہیں جاسکے۔ یہ وہ واحد نشانی ہے جو مسلمانوں کی اس جزیرے پر حکمرانی کی یادگار ہے۔ اس قلعے کو 11ویں صدی میں تعمیر کیا گیا۔ یہ ’’موریش کاسل‘‘ (Moorish Castle) کہلاتا ہے جس کی فصیلیں اور ٹاؤر اب بھی اپنی اصلی حالت میں موجود ہیں۔ اب اس قلعے کے مرکزی دروازے اور ٹاور پر برطانوی پرچم لہرارہا تھا اور ان دنوں اس پتھریلے اور مستحکم قلعے کو عارضی جیل کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے۔
مسلمانوں نے سپین کو فتح کرنے کے بعد جبرالٹر میں کئی مساجد تعمیر کروائیں۔ غسل کے لیے جگہ جگہ حمام بنوائے بلکہ اس جزیرے کو مدینہ الفتح یعنی ’’سٹی آف وکٹری‘‘ قرار دیا مگر اب اس موریش کاسل کے علاوہ مسلمانوں کی کوئی نشانی اور یادگار موجود نہیں بلکہ 1997ء میں جب سعودی شاہ فہد نے اس جزیرے پر مسجد ابراہیم کی تعمیر کے لیے 5 ملین پونڈ کی رقم مختص کی، تو مقامی عیسائی آبادی نے اس وسیع و عریض مسجد کی تعمیر کی مخالفت کی لیکن ضابطے اور قانون کی پاس داری کرتے ہوئے حکومت کو اس مسجد کی تعمیر کی اجازت دینا پڑی۔
ہمارا خیال تھا کہ اس جزیرے پر طارق بن زیاد کی کوئی یادگار یا نشانی موجود ہو گی لیکن ہمیں بہت مایوسی ہوئی۔ برطانوی حکومت نے اس جزیرے پر کنٹرول حاصل کرنے کے بعد پانچ پونڈ کا ایک سبز نوٹ جاری کیا جس کے ایک طرف ملکہ برطانیہ اور دوسری طرف طارق بن زیاد کی تصویر ہے۔ہسپانیہ سے مسلمانوں کی حکمرانی کے خاتمے کے بعد ا ن کی ایک ایک یادگار اور نشانی کو ختم کرنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی۔ جبل الطارق (یعنی طارق کا پہاڑ) کا نام بھی جبرالٹر میں تبدیل کر دیا گیا۔ تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ جب طاقتور غالب آتا ہے، تو وہ شکست کھانے والوں کے نشان مٹا کر وہاں اپنے نقش بناتا ہے۔ بہرحال ہمارا واپسی کا سفر ڈھلوان کی طرف تھا۔ جبرالٹر میں صرف 29 کلومیٹر سڑک ہے جو بل کھاتی ہوئی اس پہاڑی جزیرے کی چوٹی تک جاتی ہے۔سڑک کے دونوں طرف گھنے درخت اور پیڑ ہیں جو تین سو سے زیادہ اقسام کے پرندوں کی آماجگاہ ہیں۔ ایسے ہزاروں پرندے جو مختلف موسموں میں افریقہ سے یورپ کی طرف ہجرت کرتے ہیں، وہ بھی جس جزیرے پر پڑاؤ ڈالتے ہیں۔
سنگا پور، ہانگ کانگ، مکاؤ اور مناکو کے بعد جبرالٹر پانچواں بڑا سب سے زیادہ آبادی والا جزیرہ ہے (یعنی رقبے اور آبادی کے تناسب سے۔) اپنے شان دار ساحلوں، موسم اور قدرتی رعنائیوں کی وجہ سے جبرالٹر سیاحوں کے لیے بہت پرکشش جزیرہ ہے یہاں جیمز بانڈ کی دو فلوں کی شوٹنگ ہو چکی ہے۔ شہزادی ڈیانا اور پرنس چارلس بھی شادی کے بعد ہنی مون کے لیے اس جزیرے پر آئے تھے۔
اس جزیرے میں جگہ جگہ سرنگیں بنائی گئی ہیں جن کی طوالت تقریباً 34 میل ہے۔ ان سرنگوں میں ٹیلی فون ایکس چینج، پاؤر جنریٹر سٹیشن، واٹر فلٹر پلانٹ، ورکشاپ اور ہسپتال قائم ہیں۔ اس جزیرے میں رہنے والوں کو تعلیم اور علاج معالجہ کی مفت سہولت میسر ہے۔ جبرالٹر کے لوگ ملن سار اور سیاحوں کے لیے خوش گوار مزاج رکھنے والے ہیں۔
ویسے تو جبرالٹر میں دیکھنے کو اور بہت کچھ تھا لیکن ہم وقت کی قلت اور موسم کی خرابی کے باعث بہت سی جگہوں پر نہ جا سکے۔ ویسے بھی مَیں، نسیم احمد اور شہزاد خان جب بھی کسی دوسرے ملک جاتے ہیں، تو وہاں کی ہر شے کو جاننے یا دریافت کرنے کی کوشش نہیں کرتے، تاکہ دوبارہ بھی وہاں آنے کا جواز موجود رہے۔ ٹیکسی ڈرائیور نے واپس آ کر ہمیں وہیں اُتار دیا جہاں سے اس نے ہمیں لیا تھا۔ ہمارے سامنے جبرالٹر کی ہائی سٹریٹ تھی جہاں سے ہم نے کچھ سونیئرز اور ٹی شرٹس خریدیں۔ نسیم احمدنے پوچھا کہ آپ کو اس جزیرے کی سب سے اچھی چیز کون سی لگی؟ مَیں نے اور شہزاد خان نے بیک زبان ہو کر کہا کہ جبرالٹر کی بلند ترین پہاڑی چوٹی سے بحرِ اوقیانوس اور بحیرۂ روم کے نیلے پانیوں کا نظارہ سب سے دلچسپ تھا۔ جب ہمارے ایک طرف مراکو کے شہر طنجیر کے دھندلے آثار دکھائی دے رہے تھے اور دوسری طرف سپین کے شہر ماربیلا کے ساحل اور ساحلی آبادیاں نظر آ رہی تھیں۔ ہمیں یوں لگ رہا تھا کہ مشرق کی طرف بحرِ اوقیانوس کی تاحدِ نظر وسعتوں میں طارق بن زیاد کے بحرے بیڑے کہیں گم ہو گئے ہیں جو ذرا سی دھند چھٹنے پر پھر سے نمودار ہوں گے۔ نسیم احمد نے جبرالٹر ایئرپورٹ کو کراس کرتی ہوئی سڑک کو عبور کرتے ہوئے فرمائش کی کہ اپنی غزل کا وہ مقطع تو سنا دو جس کی وجہ سے ہم یہاں تک آئے ہیں۔ مَیں نے اُداس دل کے ساتھ اپنا یہ شعر پڑھا
چلو کہ فیضانؔ کشتیوں کو جلا دیں گمنام ساحلوں پر
کہ اب یہاں سے نہ واپسی کا سوال ہو گا یہ طے ہوا تھا
ہماری کوچ امیگریشن کاؤنٹر تک پہنچ چکی تھی۔ ہم نے مڑ کر جبل الطارق کو حسرت بھری نگاہوں سے دیکھا اور خدا حافظ کہہ کر سرحد عبور کر لی۔
……………………………………………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔