قارئین! بعض حقائق تلخ ہوتے ہیں، لیکن انہیں سننا پڑتا ہے، ماننا پڑتا ہے اور لکھنا بھی پڑتا ہے۔ افغانستان سے امریکی افواج کا انخلا اور انخلا کے بعد خطے پر صورتِ حال کے حوالے سے مختلف تبصرے اور تجزیے ہورہے ہیں، جن میں سرِفہرست اس ممکنہ فیصلے پر حیرت، تعجب اور کسی حد تک شرمندگی کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ ’’مملکتِ پاکستان امریکہ کو ایک بار پھر افغانستان پر اپنا فوجی اثر و رسوخ قائم رکھنے اور ضرورت پڑنے پر طالبان کے خلاف فوجی طاقت استعمال کرنے کے لیے اپنا فضائی سپورٹ دینے اور زمینی اڈے دینے پر راضی ہوگیا ہے۔‘‘
مَیں اس حوالے سے سلیم صافی سے لے کر ’’روزنامہ آزادی‘‘ کے کالم نگاروں کے تجزیوں اور تبصروں سے متفق ہوں کہ ’’ہمیں امریکہ پر اعتبار نہیں کرنا چاہیے۔ ایسا کرکے ہم تاریخی غلطی کریں گے۔ اس طرح ہم ایک بار پھر پاکستان کے عوام کو دہشت گردی کے شعلوں میں دھکیل دیں گے۔ مزید یہ کہ اس بارے میں حالیہ طالبان کی دھمکی کو بھی نظر انداز کرنا طالبان کے خلاف اعلانِ جنگ تصور ہوگا۔‘‘
لیکن یہ ایک عام جذباتی تبصرہ ہے جو زمینی حقائق سے یکسر مختلف ہے۔ کیوں کہ حقیقت یہ ہے کہ ہم آج بھی امریکہ کو ’’نہ‘‘ نہیں کہہ سکتے۔ اسے تاریخی جبر کہیے یا قدرت کی عجیب ستم ظریفی یا پھر مکافاتِ عمل کہ ماضیِ قریب میں جو سیاسی شخصیت ایسی صورتِ حال کو صاف اور واضح الفاظ میں امریکہ کی جنگ قرار دے رہی تھی، اور اس حوالے سے پاکستان کو پرائی جنگ میں دھکیلنے پر پچھلے حکمرانوں کو لعنت ملامت کر رہی تھی اور تورخم بارڈر پر امریکی سپلائی روکنے کی دھمکیاں دے رہی تھی، ڈرون حملوں کے خلاف وزیرستان والوں سے ہمدردی کے لیے لانگ مارچ کر رہی تھی، آج وہی شخصیت اقتدار کی کرسی پر براجمان ہے۔ اُن کو بہر صورت امریکہ کا فضائی اور زمینی فوجی سپورٹ کا مطالبہ ماننا پڑے گا۔ مَیں تو یہ کہوں گا کہ عسکری حلقوں نے مانا ہے اور سیاسی حکومت کو ماننے اور دستخط کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ عمران خان سے اس حوالے سے کوئی تجویز، کوئی صلاح و مشورہ نہیں مانگا گیا ہے۔ صاف الفاظ میں انہیں حکم دیا گیا ہے۔ مَیں اس فیصلے پر عسکری قیادت کو موردِ الزام ٹھہراتا ہوں اور نہ عمرانی قیادت کو دوشی ٹھہراتا ہوں۔ ایسا بالکل ہونا چاہیے۔ امریکی بات کو ماننا وقت کا تقاضا ہے۔ حقائق کو تسلیم کرنا ہے بلکہ مَیں یہ حقیقت واضح کردوں کہ آج جو بھی سیاسی اور غیر سیاسی قیادت ہوتی وہ یہی فیصلہ کرتی۔ کیوں……؟ چلیے، یہ عجیب و غریب پٹاری کھولتے ہیں۔
٭ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ سائنسی، علمی اور نظریاتی تجزیوں، تحقیق کے ٹھوس نتائج کے باوجود حالات بالکل برعکس رُخ اختیار کرلیتے ہیں۔ جدلیاتی فلسفے کے خالق مارکس اور ہیگل نے فلسفے کے رو سے یہ ٹھوس نتائج نکالے تھے کہ کائنات میں جدلیاتی عمل سے تاریخ ارتقا کی شکل میں آگے سفر کرے گی۔ قدیم اشتراکی نظام سے قبیلہ سماج اور قبیلہ سماج سے غلامانہ سماج اور غلامانہ سماج سے جاگیرداری سماج اور جاگیرداری کی کوکھ سے سرمایہ داری سماج اور اس طرح سرمایہ داری سماج سے عالمی سامراج جنم لیتا رہے گا، اور پھر عالمی سامراج اپنے عروج پر ختم ہوگا اور نیا اشتراکی نظام وجود میں آئے گا۔ لیکن ہوا کیا……! مختصراً روس اور امریکہ دو مخالف طاقتیں وجود میں آگئیں۔ امریکہ سامراجی عروج پر اور روس اشتراکیت کے بام پر کھڑا عالمی مزدور تحریک اور اشتراکی فلسفے کی نمائندگی کررہا تھا۔ پوری دنیا دو کیمپوں میں بٹی ہوئی تھی۔ دنیا میں ان دو عالمی طاقتوں کے درمیان کہیں ’’سرد’’ اور کہیں ’’گرم‘‘ جنگ جاری تھی۔ ویت نام، کوریا، کمبوڈیا، مشرقی وسطیٰ اور افریقہ کے کئی ممالک، جرمنی، رومانیہ اور چیک ریاستیں ان گرم اور سرد جنگوں کی آماجگاہیں تھیں۔ اب جدلیاتی فلسفے کی رو سے تاریخ کے ارتقا کے سفری نتیجے میں چاہیے تھا کہ آگے جاکر کوئی تیسری طاقت پیدا ہوتی، لیکن بجائے آگے جانے کے 70 سال کی گرم اور سرد جنگ کی گھمبیر صورتِ حال اور جدلیاتی جد و جہد کے بعد روس کا بہ طورِ ’’عالمی طاقت‘‘ خاتمہ ہوا اور تاریخ نے پیچھے گھوم کر بجائے تین کے ایک عالمی طاقت کو جنم دیا اور امریکہ نئے سرے سے ’’نیو ورلڈ آرڈر‘‘ کی شکل میں دنیا پر اپنی مرضی سے حکمرانی کرنے لگا۔ 19ویں اور 20ویں صدی میں اقوامِ متحدہ کے تمام انسانی حقوق کے دستخط شدہ چارٹرڈ کے باوجود، اقوامِ عالم کے چیخنے چلانے کے باوجود اپنی سامراجی طاقت کے ننگے پن، ظلم و بربریت کے وہ مظاہرے کیے، انسانی حقوق، سماجی رویوں اور تمام تر اصولوں کی وہ دھجیاں بکھیردیں کہ دنیا دنگ رہ گئی۔ تمام قاعدے اور اصول کچھ نہ کرسکے۔ معصوموں اور بے گناہوں کو خون میں نہلادیا گیا۔ اپنی غلط، نا حق، ظلم اور نا انصافی کی بات کو منوانے اور سامراجی رٹ کو بر قرار رکھنے کے لیے اربوں اور کھربوں ڈالر خرچ کرکے لاکھوں، کروڑوں انسانوں کو صفحۂ ہستی سے مٹا دیا گیا۔ لاکھوں ٹن بارود آسمانوں سے گرا کر نیچے آبادیوں کی آبادیاں، برسوں سے آباد خوبصورت عمارات، پل، درس گاہیں، تاریخی ورثے، آثارِ قدیمہ، کتب خانے، شفا خانے عبادت خانے سب کچھ صفحۂ ہستی سے مٹادیا گیا اور دنیا دیکھتی رہی۔ ہم سب چیخ رہے تھے۔ اصولوں، معاہدوں کے حوالے دے رہے تھے، لیکن وہ ظالم ہنستا رہا اور اپنے سامراجی قہقہوں سے لطف اندوز ہوتا رہا۔ اُس کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی۔ یہ سب کچھ ہونے کے باوجود شرمندگی کا اظہار اور نہ ندامت شائبہ۔ دوسری طرف اُس نے تمام اقوامِ عالم کے اہم ممالک کو پیسے کے زور پر مختلف معاشی مجبوریوں کی ہتھکڑی میں جکڑ رکھا تھا۔ مجال ہے کہ کوئی اِدھر سے اُدھر ہوتا۔ ذرا سا شک ہونے پر مختلف حکمرانوں کو انہی کے ملک میں اُن کے اپنوں کے ہاتھوں قتل کروادیا گیا۔ بادشاہوں کے تختے الٹا دیے۔ پھانسیاں لگوا دیں۔ جہازوں میں بموں سے اُڑا دیا گیا۔ بعض کو اقتدار کے سنگھاسن سے اوندھے منہ ایسے گرادیا گیا کہ عمر بھر نہ اُٹھ سکے۔ تو یہ تھے وہ خطرناک، گھناونے نتائج جو تاریخی ارتقائی عمل کے بجائے آگے جانے کے اُلٹا پیچھے آنے کی وجہ سے ہوا۔ لیکن اس بار تاریخی ارتقائی عمل نے آگے کی جانب سفر کیا ہے اور اب عالمی سطح پر ’’اسٹیک ہولڈر‘‘ زیادہ ہوگئے ہیں۔ امریکہ، روس اور چین کے علاوہ بھی کچھ طاقتیں ایسی وجود میں آرہی ہیں بلکہ آچکی ہیں کہ جن کی طاقت اور مؤقف کو اور دنیا میں عمل دخل کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، اگرچہ یہ اپنی ابتدائی مراحل میں ہیں۔
قارئین، اب اس نقطے کو اتنا سمجھ لیجیے کہ اُن طاقتوں یا اسٹیک ہولڈروں کی اپنی جگہ اہمیت ہے، جن کی بات یا مؤقف کو آسانی سے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ اس اہم نقطے کی تشریح کے بعد مَیں اسے یہاں پر چھوڑتا ہوں۔ اس اُمید پر کہ آپ ان کو اپنی یادداشت میں رکھ کر اب میرے ساتھ آگے بڑھیں گے۔ ان اسٹیک ہولڈروں میں عوامی جمہوریہ چین سب سے آگے ہے، جس نے معیشت کا ایسا جال پھیلا دیا ہے کہ ایشیا سے افریقہ، جنوبی ایشیا، مشرقی وسطیٰ اور وسطی ایشیائی ممالک سے ہوتے ہوئے یوروپی ممالک کے ساتھ ساتھ امریکہ کو بھی جکڑدیا ہے۔
پاکستان میں سی پیک کے ذریعے شاہراہوں کے عظیم الشان منصوبوں پر کام جاری ہے۔ ان منصوبوں میں ایران، ترکی، بھوٹان، بنگلہ دیش، سری لنکا، انڈونیشیا، ملایشیا وغیرہ جیسے ان گنت چھوٹے بڑے ممالک کو مختلف طریقوں اور ناموں سے شراکت دار بنا رہا ہے۔ چین بھی معاشی مجبوریوں کی آڑ میں مختلف ممالک کو اپنا ہم نوا بنانے کی کوشش کررہا ہے۔ وہ اتنا تو مخلص ہے کہ ان ممالک کو امریکہ کے معاشی یا دوسری مختلف مجبوریوں کی ہتھکڑیوں سے آزاد کرے، لیکن اتنا مخلص نہیں کہ انہیں آزاد چھوڑدے۔ بس فرق یہ ہے کہ امریکی معاشی مجبوری کی ہتھکڑی نکال کر اپنی ہتھکڑی پہنادیتا ہے۔ تھوڑی سی یہ ہتھکڑی ’’خوبصورت‘‘ اور ’’نرم‘‘ ہے۔ امریکہ کی ہتھکڑی کی طرح بدنما، سخت اور کھردری نہیں۔
قارئین، موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اب ذرا دونوں طاقتوں کا موازنہ کرتے ہیں۔ مجھے یہ بتایا جائے کہ چین کی اتنی ترقی کے باوجود کیا وہ اقوامِ عالم میں امریکہ کے اثر و رسوخ کا مقابلہ کرسکتا ہے؟ مثلاً اسلامی دنیا پر آج امریکہ کا اثر و رسوخ زیادہ ہے یا چین کا……؟ مشرقِ وسطیٰ کی اسلامی ریاستوں کے بادشاہ اور شیخ، امریکہ کی بات مانیں گے یا چین کی؟ مَیں مانتا ہوں کہ دنیا کی دوسری طاقتوں اور اسٹیک ہولڈروں کے وجود میں آنے سے امریکہ کا گرفت ذرا سا ہلکا ہوا ہوگا، لیکن ختم تو نہیں ہوا۔ اب اس گرفت کو مضبوط بنانے کے لیے وہ اقوامِ عالم کی اندرونی اور بیرونی پالیسیوں میں اہم بنیادی تبدیلی پیدا کرنے کی کوشش کررہا ہے۔
دنیا میں اب تک ملکی پالیسی بنانے کے تین درجے ہیں۔ یعنی ملکی معیشت کو کن خطوط پر استوار کیا جائے؟ پھر اُن معاشی خطوط پر ملکی سیاسی کی داغ بیل ڈالی جاتی ہے اور پھر اس کے اوپر خارجی پالیسی کی عمارت اور پھر خارجی پالیسی کے تناظر میں ملکی دفاعی پالیسی بنائی جاتی ہے۔ اس پر سب کچھ کا عمل دخل ہوتا تھا۔ اسے موجودہ سماج کی کوکھ سے منطقی نتیجے کے طور پر حاصل شدہ سمجھا جاتا تھا۔ عوامی جمہوریہ چین بھی اسی راہ پر گامزن تھا اور خوشی خوشی اقوامِ عالم میں معاشی پالیسیوں سے اپنے ’’یار دوست‘‘ بنا رہا تھا اور بنا رہا ہے۔ اتنے میں اچانک امریکہ کے طرزِ عمل سے اور افغانستان سے اچانک فوجی انخلا سے یہ ملکی پالیسیاں یکسر بدل گئیں، جس کی وجہ سے اس اچانک رویہ اور تبدیلی سے چین کے ساتھ ساتھ دوسرے ممالک بھی حیران و پریشان ہیں۔ کس طرح یہ پالیسی بدل گئی ہے؟ کیا تبدیلی آئی ہے اور اس نئی پالیسی کہ تبدیلی کے تناظر میں اب بین الاقوامی مسئلے کیسے حل ہوں گے؟ اس پر کل کی تحریر میں بحث کریں گے، ان شاء اللہ!
افغانستان سے امریکی فوجی انخلا کے بعد اس خطے کی صورتِ حال یکسر بدل رہی ہے بلکہ بدل گئی ہے۔ امریکی سامراجی عزائم اب نئی شکل میں ڈھل رہے ہیں۔ ان عزائم کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کے لیے اب رُعب داب، دھمکیوں، یک طرفہ فرعونانہ فیصلوں کی بجائے سمجھوتوں، مشوروں، وعدوں اور معاہدوں سے کام لیا جارہا ہے۔ لیکن حالات کو اس نہج پر پہنچایا گیا ہے کہ صورتِ حال کافی گھمبیر ہوچکی ہے۔ نیز افغانستان سے فوجی انخلا کا طریقۂ کار قصداً ایسا واضح کیا گیا ہے کہ خطے کے سارے ممالک (بہ شمول پاکستان) کو اپنی اپنی ریاستی سلامتی کی فکر کھائی جارہی ہے۔
جیسے میں اس تحریر کے پہلے حصہ میں ذکر کرچکا ہوں کہ ریاستی پالیسیوں کے حوالے سے اب ریاستی ترجیحات بدل چکی ہیں۔ اول اول معیشت، معیشت پر سیاسی ڈھانچا اور سیاسی ڈھانچے پر خارجہ پالیسی اور خارجہ پالیسی کے تناظر میں ریاستی سلامتی یعنی ڈیفنس کی پالیسی وضع کی جاتی تھی۔ اب ایسا نہیں ہے۔ اب سب سے پہلے ریاستی سلامتی یعنی ڈیفنس کی صورتِ حال کو ترجیح دی جائے گی۔ کہاں کہاں سے ملک کی سلامتی کو خطرہ ہے اور ملکی سلامتی کو مد نظر رکھ کر کس کو دوست بنانا ہے اور کس سے دور رہنا ہے؟ اسی پر خارجہ پالیسی بنائی جائے گی اور اُس پر سیاست کی جائے گی اور پھر آخر میں معیشت کو استوار کیا جائے گا۔ اب آپ دیکھ لیں بجائے شاہ محمود قریشی کے اب عسکری کمانڈر باجوہ صاحب پہلے تشریف لے جاتے ہیں۔ سعودی عرب سے ریاستی سلامتی پر بات چیت ہوتی ہے۔ امریکہ کی ترجیحات پر غور و خوص ہوتا ہے، فیصلہ ہونے کے بعد ملکی وزیراعظم کو بلایا جاتا ہے۔ اُسی تناظر میں اُس کے ساتھ سیاسی داؤ پیچ پر بحث کرکے اُسے ایک لائن دی جاتی ہے۔ سعودی عرب سے آنے کے بعد فوراً آپ کی ڈگمگائی معیشت کے پاؤں ٹک جاتے ہیں۔ ملکی زرِ مبادلہ میں یک دم اضافہ ہوجاتا ہے۔ سٹاک ایکسچینج فوراً بڑھ جاتا ہے اور اربوں میں شیئر فروخت ہونا شروع ہوجاتے ہیں، آخر کیوں……؟
ملکی وزیراعظم یک دم ملکی معیشت کے بہتر ہونے اور مضبوط ہونے کی خوش خبریاں سنا رہا ہے۔ دوسری طرف وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی امریکہ کو لاجسٹک سپورٹ دینے کی مسلسل تردید کررہا ہے، لیکن اس حوالے سے اگر پاکستانی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے اور ایوب خان سے لے کر جنرل ضیاء الحق اور مشرف دور کے تمام وعدوں اور معاہدوں پر غور کیا جائے، تو ہمیشہ تردید کے پردوں میں تائید چھپی ہوئی نظر آئے گی۔ حال ہی میں مشرف دور کے ایک اہم اور ’’باغی‘‘ جنرل، جنرل شاہد عزیز کی کتاب ’’یہ خاموشی کہاں تک!‘‘ کا مطالعہ کیا جائے، تو اندر اور باہر، کھلے عام اور دیواروں کے پیچھے جو اہم ریاستی فیصلوں کی سلامتی کے متضاد بیانات چلے آرہے ہیں، تو ایک محب وطن پاکستانی کا سر چکرانے لگتا ہے۔ لہٰذا مجھے تو ان سوچے سمجھے بیانات پر بالکل یقین نہیں ہے۔ میرے اندازے اور سیاسی سوجھ بوجھ کے مطابق اندرون سعودی عرب میں افغانستان کے حوالے سے امریکہ کو زمینی اڈے اور فضائی راستے کی سہولت فراہم کی گئی ہے۔ شاید نئے حالات کے تناظر میں اور بعض ناگزیر زمینی حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے اور چینی دوستوں کے تحفظات کا خیال کرتے ہوئے اس حوالے سے کچھ ’’نرم گرم‘‘ شرائط بھی اس بار ساتھ شامل کی گئی ہوں۔ مثلاً زمینی اڈے امریکی اپنے مفادات کے لیے استعمال کرسکتے ہیں لیکن پورے اڈے پر کنٹرول ہمارا ہوگا۔ ہوائی جہازوں کو حرکت دینے سے پہلے ہمارے ہوائی کمانڈ (یعنی ائیر فورس) کو اطلاع ضرور فراہم کرنا ہوگی۔ آپ کیوں اڑان بھر رہے ہیں اور کہاں جارہے ہیں؟ وغیرہ وغیرہ۔ ہوسکتا ہے اس پر عمل نہ ہو، لیکن پڑوسیوں کو دکھانے کے لیے اور اپنی ساکھ کو قائم رکھنے کے لیے اسے تحریری شکل میں رکھنا ہوگا۔
تو سوال وہی اپنی جگہ قائم ہے کہ ہم چین کے ساتھ سمندر سے گہری اور کوہِ ہمالیہ سے اونچی دوستی کے باوجود اتنے مجبور اور خوف زدہ کیوں ہیں کہ امریکہ کے ساتھ بار بار اِس جیسے یک طرفہ، موقع پرستانہ اور مفاد پرستانہ معاہدے کرجاتے ہیں جس کے خطے میں خطرناک نتائج ہمیں صاف نظر آرہے ہیں۔ ہم پھر بھی کیوں جان بوجھ کر گنجلک اور خطرناک صورتِ حال کے گہرے کھڈے میں آنکھیں بند کرکے کود جاتے ہیں؟
پہلے تو ذرا آس پاس اور ارد گرد نظریں دوڑائیں کہ آپ کے چاروں طرف کون ہیں؟ صرف چین نہیں افغانستان بھی ہے جسے دوست نما دشمن کہا جاتا ہے، جو کبھی قابلِ اعتماد نہیں رہا، افغانستان کے ساتھ تقریباً 1500 کلومیٹر پیچیدہ اور سنگلاخ بارڈر پر ہمیں اپنی بہترین فوج کا بڑا حصہ نہ چاہتے ہوئے بھی رکھنا پڑتا ہے۔
ایران کا کردار بھی اس حوالے سے ہمیشہ مشکوک رہا ہے اور ہندوستان کے ساتھ تعلقات کا تو سب کو پتا ہے۔ سال کے بارہ مہینے ہمیں وہ بارڈر ہر وقت اور ہر لمحہ تیار بلکہ ’’فائر پوزیشن‘‘ میں رکھنا پڑتا ہے۔ کیا چین اس پوزیشن میں ہے کہ ان سب کی ذمہ داری اٹھالے؟ اُس کے خود ہندوستان کے ساتھ سرحدی کشیدگی انتہا پر ہے۔
قارئین! ہم پچھلے تقریباً 70 سال جب سے پاکستان معرض وجود میں آیا ہے، تمام معاشی، سیاسی اور انتظامی امور میں امریکہ، تاجِ برطانیہ اور یورپی ممالک سے نتھی ہوکر چلے آ رہے ہیں۔ مَیں نے انتظامی امور کا حوالہ اس لیے دیا ہے کہ اب یہ بات کوئی ڈھکی چھپی تو رہی نہیں کہ ہمارے الیکشن، ہمارے سیاسی حکمرانوں کا انتخاب، ہماری عسکری قیادت کی تقرری وغیرہ سب پر ہمیں امریکہ کو اعتماد میں لینا پڑتا ہے اور اس بارے میں اُن کے مشوروں اور تجاویز کو اہمیت دی جاتی ہے۔ تمام بیرونی معاہدوں کی تفصیل اور شرائط سے امریکہ کو آگاہ کرنا پڑتا ہے۔ بعض اوقات لکھے ہوئے معاہدوں کو امریکی اشیرباد نہ ملنے کی وجہ سے ہمیں منسوخ کرنا پڑا۔ اس دوران میں بعض سر پھرے حکمرانوں (سول یا فوجی) نے جب تھوڑی گردن اونچا کرنے کی کوشش کی، تو جنرل ضیا، ذوالفقار علی بھٹو، عبدالقدیر خان کے انجام کو یاد رکھیں، جنہیں ’’عبرت کا نشان‘‘ بنایا گیا۔
عالمی مالیاتی ادارے ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف امریکی اشارے کے منتظر رہتے ہیں۔ علاوہ ازیں تمام خلیجی ریاستیں بہ شمول سعودی عرب، خزانوں کا اختیار امریکہ کے ہاتھوں میں ہے۔ یہ ریاستیں اور اُن کے حکمران سانسیں بھی امریکہ کی مرضی کے بغیر نہیں لے سکتیں، فیصلے اور معاہدے تو دور کی بات ہیں۔ ہمارے تمام عسکری ٹریننگ، داؤ پیچ، طور طریقے اور بود و باش برطانیہ اور امریکی فوجی اداروں کی مرہونِ منت ہے۔ ہمارے بری، بحری اور ہوائی فوج کے اسلحوں کی ساخت، برانڈ، اقسام اور سپیئر پارٹس کا تمام دارو مدار امریکہ، برطانیہ، جرمنی کے اسلحوں کے کارخانوں پر ہے۔ ہمارا ٹرانسپورٹ، بسوں، ٹرکوں اور ریلوے تک اور شپنگ یارڈ کے مسئلوں اور معاملوں تک انحصار مغربی ممالک پر ہے۔ اگر چہ اس حوالے سے اب ہم تھوڑا بہت چین، روس کے بھی قریب آگئے ہیں، جیسے اسٹیل مل جسے اب سازشوں سے ناکام کیا جارہا ہے، کچھ آبدوزوں، جہازوں اور ہوائی جنگی جہازوں کے حوالے سے ہم روس، فرانس اور چین کے قریب آگئے ہیں لیکن اتنے نہیں کہ مکمل طور پر ہم ان تینوں ممالک پر انحصار کرسکیں۔
اس کے علاوہ ایک حقیقت روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ بدقسمتی یا خوش قسمتی سے ہمارے سیاسی اور غیر سیاسی حکمرانوں، لیڈروں، سرمایہ داروں، جاگیر داروں، کارخانہ داروں کے تمام خزانے، جائیدادوں کے اثاثے، کوارٹر، محلات، بنک بیلنس، کاروبار غرض تمام معاشی، سیاسی اور ذاتی مفادات امریکہ، برطانیہ، سوئیزرلینڈ، کینڈا، اسٹریلیا میں عرصہ دراز سے قائم و دائم ہیں۔ اُن کے تحفظ کے لیے بنیادی طور پر تمام سیاسی فیصلوں، جغرافیائی فیصلوں، خارجہ معاملات پر گہری نظر رکھی جاتی ہے۔ اس بارے میں سیاسی اور غیر سیاسی قوتیں ایک صفحے پر ہیں۔ اس حوالے سے بہت کم قومی مفاد کو اولیت دی جاتی ہے۔ اس تناظر میں (کہ اب وقت آگیا ہے کہ چین اور امریکہ میں ایک کا انتخاب کیا جائے) نوازشریف سیاسی قیادت نے مکمل طور پر 90 درجے کے زاویے پر گھوم کر چین کا ساتھ دینے اور اس کے ساتھ جانے کا فیصلہ کرلیا تھا، لیکن غیر سیاسی قیادت نے اسے جلد بازی اوروقت سے پہلے خطرناک فیصلہ قرار دے کر اسے مسترد کیا تھا۔ شاید عسکری قیادت اسے آہستہ آہستہ وقت کے ساتھ ساتھ مفاہمتی انداز میں حل کرنا چاہتی تھی۔ کیوں کہ یک دم ایسے فیصلوں سے متنازعہ اور متصادم صورتِ حال پیش آنے کے ایسے خطرناک نتائج پیدا ہوسکتے ہیں جن کا تدارک کرنا، ناممکن ہوجاتا ہے۔ کیوں کہ یہ تو حقیقت ہے کہ ہم ابتدا ہی سے ایک طرف اتنا جھک گئے ہیں کہ اب سیدھا ہونے میں اور وہاں سے الگ ہونے میں وقت لگے گا۔ ہم یک دم یک طرفہ طور پر سب کچھ نظر انداز نہیں کرسکتے۔ لہٰذا اب آپ خود اندازہ لگائیں کہ افغانستان کو زمینی اور ہوائی فوجی تعاون سے ہم کیسے انکار کرسکتے ہیں؟ ہاں، اس ننگے پن کو چھپانے کے لیے ہمیں کچھ شلواروں کی سلائی کرنا پڑے گی۔ کچھ پردے، کچھ پمیپر سے اپنے ننگے پن کو ڈھانپنا ہوگا۔
قارئین، آئندہ کی تحریر میں ہم افغانستان کے حوالے سے خصوصی ذکر کریں گے کہ افغانستان کی موجودہ صورتِ حال کی وجہ سے ہمیں کیا واقعات پیش آسکتے ہیں اور ممکنہ خطرناک حالات کا سامنا کیسے کیا جائے گا؟ چین، امریکہ، روس اور ترکی کا کیا رول ہوگا؟ پاکستان میں دہشت گردی کے دوبارہ شروع ہونے کے کتنے امکانات ہیں؟ تب تک اللہ حافظ و ناصر!
قارئین! پچھلی تحاریر میں ایک اہم نقطے کو یاد کرنے کا مشورہ دیا گیا تھا۔ وہ یہ تھا کہ اب عالمی سطح پر امریکہ کے علاوہ اور بھی طاقتیں ہیں، یعنی ایسی طاقتیں اب ’’اسٹیک ہولڈر‘‘ کی حیثیت رکھتی ہیں۔ مختلف ممالک میں یہ ’’اسٹیک ہولڈر‘‘ بھی اپنی سیاسی اور معاشی مفادات رکھتے ہیں۔ اُن مفادات کا تحفظ بھی کرنا چاہتے ہیں۔ مثال کے طور پر ہم سب سے پہلے افغانستان کا مسئلہ لیتے ہیں۔ امریکی فوجی انخلا کے بعد سب سے زیادہ اثرات پڑوسی ممالک پر پڑیں گے۔ پاکستان، ایران، ترکی، روس کے ساتھ ساتھ چین بھی افغانستان کی پیچیدہ صورتِ حال کے حوالے سے ایک اہم سٹیک ہولڈر کی حیثیت رکھتا ہے۔ اگر پاکستان مجبوراً امریکہ کو افغانستان پر نظر رکھنے کے لیے فوجی اڈے اور فضائی راستے دے دیتا ہے، تو لازمی بات ہے کہ افغانی طالبان کے ساتھ ساتھ ایران، روس، ترکی اور عوامی جمہوریۂ چین کے بھی مختلف تحفظات اور شکوک و شبہات ہوں گے، لیکن یہ حقیقت بھی تو مدِ نظر رکھنا ہوگی کہ پاکستان کی مجبوریوں کے علاوہ طالبان کا خطرہ بھی ہے۔
جیسے مَیں پہلے عرض کرچکا ہوں کہ ملکی سلامتی (ڈیفنس) کی اہمیت کی اول درجہ پر آنے سے تمام ممالک اپنی سلامتی کے حوالے سے الرٹ ہوچکے ہیں۔ کوئی بھی ملک اپنے اندرون اور سرحدات پر گڑ بڑ نہیں چاہتا۔ موجودہ ماحول، معاشی تنگ دستی، عالمی سرمایہ دارانہ مارکیٹ میں کھلے عام سخت مقابلہ بازی، کساد بازاری، کرونا وبا کی وجہ سے بے روزگاری اور مہنگائی کا سیاسی دباؤ (جو ہر ملک کے حکمران پر مسلسل بڑھ رہا ہے) تو ان تمام عوامل نے حالات کی کشیدگی میں اضافہ کردیا ہے اور ہر ملک اپنے اندرونی مسائل میں حساس ہوگیا ہے۔ لہٰذا کوئی بھی اپ سیٹ اللہ نہ کرے ایک بڑے طوفان کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتا ہے۔
لیکن خطرے کی یہ بات نہیں۔ کیوں کہ تمام ممالک اس ساری صورتِ حال سے واقف ہیں۔ انہیں حالات کی کشیدگی اور حساسیت کا اندازہ ہے۔ خطرے کی بات یہ ہے کہ اگر طالبان بزورِ طاقت افغانستان میں بر سرِ اقتدار آجاتے ہیں، تو اس سے ارد گرد کے حالات سنگین تر ہوجائیں گے۔ کیوں کہ بزورِ طاقت حاصل کرنے کے بعد اور افغانستان میں طالبان کے بر سرِ اقتدار آنے کے بعد اگر ایک جانب ملک کے اندر طالبان کا رویہ اپنے مخالفین کے لیے سخت اور غیر مفاہمانہ ہوگا، تو دوسری جانب اڑوس پڑوس کے ممالک میں طالبان کے باقیات کی بھی حوصلہ افزائی ہوگی۔ پاکستان، ایران، ترکی یہاں تک کہ چین بھی اس سے محفوظ نہیں ہوگا۔ چین کے صوبے سیکیانگ میں پہلے سے مسلمانوں کے حالاتِ زندگی مخدوش چلے آرہے ہیں اور باغیانہ جراثیم پہلے سے موجود ہیں۔
روس کے افغانستان کے ساتھ پڑوسی مسلمان ریاستیں (ازبکستان، کرغستان، تاجکستان) انتشار کا شکار ہوسکتی ہیں۔ لہٰذا اندرونی طور پر تمام ممالک یہ کوششیں کررہے ہیں کہ طالبان کو موجودہ اشرف غنی حکومت کے ساتھ کسی سمجھوتے پر راضی کرلیا جائے۔ ترکی میں جو افغان امن کے حوالے سے ایک کانفرنس کا انعقاد عنقریب ہورہا ہے، اُس میں طالبان نے شراکت سے انکار کیا تھا۔ اب ان ممالک کی کوششوں سے طالبان اس میں مشروط طور پر شرکت پر آمادگی ظاہر کرچکے ہیں۔ یہاں پر مختلف شکلوں میں سب ’’اسٹیک ہولڈروں‘‘ کے مفادات ٹکراتے بھی ہیں، لیکن بعض اوقات یہ مفادات مشترکہ ہوجاتے ہیں۔
کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اگر مذکورہ مسئلہ پُرامن طور پر حل ہوا، تو سب کا فائدہ ہوگا اور اگر حل نہ ہوا، تو سب کا نقصان ہوگا۔ میرے خیال میں وہ وقت اب گزر چکا ہے۔پلوں کے نیچے اب اتنا پانی گزر چکا ہے کہ کوئی بھی ملک اب اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ اپنے اپنے مفادات کے لیے طالبان کو استعمال کرے۔ دوسری طرف طالبان کی اب وہ پوزیشن ہے نہ حالات کا تقاضا ایسی صورت حال کو جنم دے سکتا ہے۔
قارئین! اگر آپ درجِ بالا پیراگراف پر ذرا غور کریں اور ذہن پر زور ڈالیں، تو دو عدد نتائج حاصل ہوسکتے ہیں۔
٭ ایک نتیجہ یہ ہے کہ طالبان کے ساتھ امن مذاکرات اور پُرامن افغانستان صرف امریکہ کی نہیں بلکہ تمام اسٹیک ہولڈروں کی خواہش بلکہ مجبوری ہے۔
٭ دوسرا نتیجہ یہ ہے کہ اس مقصد کے حصول کے لیے سب کو آپس میں مل بیٹھ کر سوچنا پڑے گا اور آپس میں چپقلش اور جنگ کی بجائے بات چیت سے مسئلے کا حل تلاش کرنا پڑے گا۔
جنگ کوئی نہیں چاہتا۔ کیوں کہ یہ سب کو معلوم ہے کہ اس بار جنگ سالوں، مہینوں، ہفتوں اور دنوں میں نہیں بلکہ چند گھنٹوں میں سب کچھ نیست و نابود کردے گی۔
اب ہر ملک کی اپنی سلامتی کے حوالے سے اپنے مفادات ہیں۔ اب وہ زمانہ نہیں رہا کہ وہ اپنی طاقت یا معاشی برتری کے زعم میں ہٹ دھرمی اور انا کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی سلامتی کے مفادات سے چشم پوشی کرے۔
آپ ملاحظہ کریں کہ سعودی عرب کس طریقے سے ایران کے ساتھ اپنے تعلقات بحال رکھنا چاہتا ہے۔ قطر سے معاملات نپٹانا ضروری ہوگیا ہے۔ دوسری جانب ترکی کے ساتھ غلط فہمیاں دور کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ جہاں جہاں مفادات کا ٹکراؤ ہو، کچھ لے دے کر یا آگے پیچھے ہوکر معاملات کو صلح سفائی سے حل کرنے کی کوشش کریں گے۔ اپنی ریاستی اور سلامتی سے نتھی مجبوریوں سے جان چھڑانا پڑے گی۔ کیوں کہ بڑی طاقتیں یا اسٹیک ہولڈر اب یہ نہیں چاہتے کہ پرائی لڑائیوں کو اپنے گلے باندھ لیں۔
اس حوالے سے ایک اور پیش رفت یہ ہے کہ بڑی طاقتیں آپس میں بیٹھ کر ہر خطے میں اپنے مفادات کا تعین کریں گی۔ معاشی اور سیاسی مفادات کا اپنی ضرورتوں کے تحت اندازہ لگایا جائے گا۔ جہاں ضروری ہوا ایک دوسرے کو راستہ دینا پڑے گا۔ علاقے اور خطے تقسیم کریں گے اور ایک دوسرے کے مفادات کا تحفظ کیا جائے گا۔ اگر عوامی جمہوریۂ چین پاکستان میں سی پیک کا تحفظ چاہتا ہے اور یہاں اپنی تجارت، کاروبار کو قائم و دائم رکھنا چاہتا ہے، یا مزید بڑھانا چاہتا ہے، تو اسے کہیں اور امریکہ یا کسی اور اسٹیک ہولڈر کے مقابلے میں پیچھے ہٹنا پڑے گا۔ اب پوری دنیا تجارتی عالمی منڈی ہے اور عالمی منڈی کو جنگوں سے نہیں بلکہ مفاہمتی پالیسیوں، سمجھوتوں ا ور معاہدوں سے چلانی پڑے گا۔
ہر نام، ہر حوالے سے ممکنہ دہشت گردی کا مشترکہ طور سدباب کرنا ضروری ہوگیا ہے۔ کیوں کہ دہشت گردی براہِ راست ملکی معیشت کو نشانہ بناتی ہے۔ کوئی ایک بھی ملکی معیشت اب تنہا اور الگ نہیں تصور کیا جاتا۔ دنیا سکڑ کر ایک گلوبل ولیج کی شکل اختیار کرچکی ہے۔ افغانستان میں امریکی مفادات اس حد تک ہیں کہ وہاں جو بھی حکومت ہو اینٹی امریکہ (امریکہ مخالف) نہ ہو۔ اس طرح اڑوس پڑوس کے ممالک بھی یہی چاہتے ہیں۔ لہٰذا وقت کا تقاضا ہے کہ مستقبل کا پُرامن افغانستان آزاد اور غیر جانب دار ہونا چاہیے۔
اس حوالے سے پاکستان پر زیادہ ذمہ داری آتی ہے اور وہ یہ ایک عرصہ سے صبر و برداشت سے پوری کررہا ہے۔ امریکہ، طالبان مذاکرات میں پاکستان کا اہم رول رہا ہے اور امریکہ سمیت کئی ممالک اس کا اعتراف بھی کرچکے ہیں۔ کوئی بھی جلد بازی یا غلط فہمی معاملات کو خراب بھی کرسکتی ہے۔
افغانستان کے اندر اشرف غنی کی حکومت میں مختلف فرقہ بندیوں اور گروہوں نے بھی حالات کومخدوش بنادیا ہے۔ امریکہ ان سب پر مسلسل دباؤڈال رہا ہے کہ تمام گروپ آپس میں بیٹھ کر کم سے کم پروگرام پر متفق ہوجائیں۔ اس حوالے سے افغانستان کے بارے میں پاکستانی حکمرانوں کی پالیسی پچھلی حکومتوں کے برعکس بالکل تبدیل ہوچکی ہے۔ اسٹریجک ڈیپتھ (تزویراتی گہرائی) والی سوچ اور میلان سے اب توبہ کیا گیا ہے۔ کئی بار موجودہ عسکری قیادت پچھلی غلطیوں کا اعتراف کرکے افغانستان کی آزاد اور خود مختار حیثیت کو تسلیم کرچکی ہے۔
اشرف غنی کی حکومت کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں۔ اسے بے جا شکوک و شبہات کرنے اور پاکستان کو ہر معاملے میں بدنام کرنے کا رویہ اب ترک کردینا چاہیے۔ یہ کئی بار کیا جاچکا ہے، اور وضاحت دی جاچکی ہے کہ پُرامن افغانستان، پاکستان کی سلامتی کا ضامن ہے۔ پاکستان کی سلامتی اور امن افغانستان کی سلامتی اور امن سے منسلک ہوگیا ہے۔
اگر چین اس خطے میں ’’سی پیک‘‘ کے منصوبوں کو پایۂ تکمیل تک پہنچانا چاہتا ہے اور خطے میں تجارت کے رابطے بڑھانا چاہتا ہے، تو بدلے میں امریکہ کے منھ میں کچھ نوالے ڈالنے پڑیں گے۔ خواہ جہاں بھی ہو۔ اس طرح جنوبی ایشیا، مشرقی وسطیٰ، روسی تاجک ریاستیں، وسطی یورپ اور افریقہ کے ممالک کو اپنے اپنے مفادات کی خاطر از سرِنو تقسیم کرنا پڑے گا۔ زور زبردستی اور بد معاشی کا دور اب گزرچکا ہے۔ یہ خوبصورت زمین جہنم کے بجائے گلزار بنانی پڑے گی۔ خدا کی مخلوق کو خدائی نعمتوں سے سرفراز کرانا پڑے گا۔ غریب اور کمزور ممالک کی مجبوریوں سے فائدہ اُٹھانے کے بجائے اُنہیں مالی اور سیاسی طور پر اُٹھاکر اپنے قد کے برابر لانا پڑے گا، تو زندگی خوبصورت اور گلزار ہوجائے گی۔ ورنہ جہنمی زندگی کی آگ سے کوئی نہیں بچے گا۔ کوئی بھی نہیں بچے گا۔
………………………………………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔