ابراہام لنکن کے بقول: ’’جمہوریت ایک ایسی طرزِ حکومت کا نام ہے جو عوام سے، عوام کیلئے اور عوام پر مشتمل ہوتی ہے۔‘‘
بدقسمتی سے ہمارے ملک میں جمہوریت کو اشرافیہ کے ساتھ جوڑا گیا ہے اور اس کی پوری ذمہ دار یہ قوم خود ہے۔ ہمارے ہاں ہر گلی محلے میں سیاست پر گھنٹوں بحث ہوتی ہے لیکن عملی کردار ندارد۔ یہاں پر ریڑھی والا، چھابڑی والا اور سبزی کے ٹیلے والا بھی ملکی سیاسی نشیب و فراز سے مکمل واقف ہوتا ہے۔ اُسے یہ بھی پتا ہوتا ہے کہ سول ملٹری تعلقات کی نوعیت کیا ہے؟ پاک امریکہ تعلقات میں کتنا اُتار چڑھاؤ ہے اور پاک بھارت بارڈر پر فائر کی گئی گولیوں کی تعداد کتنی ہے؟ لیکن یہ ساری واقفیت محض زبانی ہوتی ہے اور ہماری قوم کے عملی کردار کو اگر دیکھا جائے، تو صفر تو دور کی بات، منفی اعشاریوں میں یہ نظر آتا ہے۔

’’جمہوریت ایک ایسی طرزِ حکومت کا نام ہے جو عوام سے، عوام کیلئے اور عوام پر مشتمل ہوتی ہے۔‘‘ (ابراہام لنکن)

ہمارے ملک میں اگر آپ کسی والد سے پوچھیں کہ آپ کا بیٹا مستقبل میں کیا بنے گا؟ تو وہ آپ کو جو جواب دے گا اُس میں ڈاکٹر سرفہرست ہوگا، پھر انجینئر، وکیل، پروفیسر حتیٰ کہ کوئی کلیریکل پوسٹ کا نام بھی اُس کے منھ سے نکل جائے گا لیکن آپ کسی بھی والد سے یہ نہیں سنیں گے کہ اُس کا بیٹا سیاستدان بنے گا۔ اور یہی اس قوم کی بدقسمتی ہے، یہی اس نظام کی خرابی کی اصل جڑ ہے۔ اگر ہمارے ملک کے سارے باصلاحیت نوجوان زندگی کے دیگر پیشے اپنالیں گے، تو پھر بچھا کچھا تھرڈ ڈویژن کھیپ ہی سیاست کرے گا۔ اور جارج برناڈ شا کے بقول: ’’جمہوریت ایک ایسا آلہ ہے کہ جسے اُس انداز سے ہی چلایا جاتا ہے جس کے عوام خود حقدار ہوں۔‘‘ اگر عوام یہ نہیں یہ نہیں چاہیں گے کہ اُن کے اپنے گھر کے افراد اس ملک کی سیاست میں کردار ادا کریں، تو پھر اُنہیں یہ حق بھی نہیں حاصل کہ وہ سیاستدانوں کو ان خرابیوں کا ذمہ دار ٹھہرائیں۔ کیونکہ ان خرابیوں کے ذمہ دار عوام خود بھی ہیں۔

’’جمہوریت ایک ایسا آلہ ہے کہ جسے اُس انداز سے ہی چلایا جاتا ہے جس کے عوام خود حقدار ہوں۔‘‘ (جارج برنارڈ شا)

بقول شخصے معاشرہ خراب لوگوں کی خرابی کی وجہ سے نہیں بگڑتا بلکہ اچھے لوگوں کے خاموش رہنے سے بگڑتا ہے۔ جو تبدیلی ہم اس معاشرے میں چاہتے ہیں، وہ گھر میں بیٹھے تسبیح پر تبدیلی، تبدیلی یا انقلاب،انقلاب پڑھنے سے نہیں آئے گی بلکہ ایک منظم عوامی جدوجہد کے نتیجے میں آئے گی۔ ہم انقلابِ فرانس یا حالیہ انقلابِ ایران کی مثالیں دیتے نہیں تھکتے، لیکن یہ کبھی خاطر میں نہیں لاتے کہ اُنہوں نے بہت خون پسینہ بہانے کے بعد موجودہ مقام حاصل کیا۔ ہم تو بس یہی چاہتے ہیں کہ کیا بندہ دوسرا مر جائے اور شہید ہم کہلائیں۔
اب آتے ہیں اس مسئلے کے حل کی طرف کہ جمہوریت میں عوامی کردار کو کیسے بڑھایا جائے؟
٭ سب سے پہلے حکومت اور سول سوسائٹی کو ایسے اقدامات کرنا ہوں گے کہ سیاست جو آج کل ایک گالی بنی ہوئی ہے، بس یہ سوچ بدل دی جائے۔
٭ ہر کوئی بندہ خواہ اس کا تعلق کسی بھی مذہب، قوم یا قبیلے سے ہو، اُسے اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ اُس کے اپنے گھر کے باصلاحیت نوجوان سیاست میں حصہ لیں اور ان کی نمائندگی کریں، تب ہی یہ سیاسی نظام ڈیلیور کرنے کی پوزیشن میں آجائے گا۔
٭ اگر درج بالا دو اصولوں پر تہہ دل سے عمل کیا گیا، تو پھر ہماری قوم کو اس نظام کو بدلنے کیلئے وقت دینا ہوگا۔ کیونکہ سیراج الحق صاحب کے بقول: ’’بچپن میں ایک بار میرا بازو ٹوٹ گیا تھا اور دو ہفتے کی غفلت کے بعد جب ڈاکٹر نے اس کا علاج کیا، تو اس بازو کو ٹھیک ہونے میں چھے ماہ لگے تھے۔‘‘ اگر دو ہفتے کی غفلت کا نتیجہ چھے ماہ ہو، تو ستّر سال کی غفلت کا نتیجہ ٹھیک کرنے میں وقت تو لگے گا۔

’’بچپن میں ایک بار میرا بازو ٹوٹ گیا تھا اور دو ہفتے کی غفلت کے بعد جب ڈاکٹر نے اس کا علاج کیا، تو اس بازو کو ٹھیک ہونے میں چھے ماہ لگے تھے۔‘‘ (سیراج الحق)

اور ان سب تبدیلیوں کی شروعات ہمیں اپنے گھر سے کرنا ہوگی۔ کیونکہ ’’ہم خود کو بدلیں گے، تو بدلے گا پاکستان۔‘‘
علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ کا ایک شعر ہے کہ
خُدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری اور نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔