پرانے وقتوں میں ’’جنریشن گیپ‘‘ کے لیے چالیس سال کا دورانیہ مقرر ہوتا تھا، لیکن آج کل کے اس ہر پل اور ہمہ جہت تبدیل ہوتی ہوئی دنیا میں یہ دورانیہ بہت کم ہوگیا ہے۔ اس لیے موجودہ حالات میں خود کو منوانے کی اس کے علاوہ کوئی سبیل نہیں کہ علم کا جواب اس سے برتر علم سے، ٹیکنالوجی کا جواب اس سے برتر ٹیکنالوجی سے، جمہوریت کا جواب اس سے برتر جمہوریت سے اور کارکردگی کا جواب اس سے برتر کارکردگی سے دیا جائے۔
ایک طرف جدید دنیا میں انسانی رویوں اور ان پر اثر انداز ہونے کے مؤثر طریقوں، مؤثر فیصلہ سازی اور پالیسی سازی کے لیے جدید ٹیکنالوجی کے استعمال اور کارکردگی کو بہتر بنانے میں ٹیکنالوجی کے استعمال کو ترقی ناپنے کے بین الاقوامی پیمانوں کے طور پر منوایا جاچکا ہے اور دوسری طرف ہم ہیں کہ ایسے لوگوں کو فیصلہ سازی کے مناصب پر فائز کیے ہوئے ہیں جو ان چیزوں کا ادراک رکھتے ہیں اور نہ ادراک کروانے کا ارادہ ہی رکھتے ہیں۔
معلومات اور ڈیٹا کی بنیاد پر پالیسی سازی اور فیصلہ سازی سے لے کر احتساب اور مانیٹرنگ کے نظام تک، بین الادارتی ہم آہنگی سے لے کر مؤثر ابلاغِ عام تک، کون سی ایسی فیلڈ ہے جس میں مصنوعی ذہانت، ’’ڈیپ لرننگ‘‘، ’’سمارٹ سسٹمز‘‘ کا ککھ بھی پتا ہو کسی کو۔
عالمی طور پر لوگ اپنے ذاتی کاروبار کو تندہی سے (pro-actively) ان ’’ٹیکنالوجیز‘‘ کی مدد سے ’’سروایو‘‘ کر رہے ہیں اور ادھر ہم ہیں کہ اپنے ادارہ جاتی طریقہ کار کی پیچیدگی کی وجہ سے اوقات اور وسائل کے بے محابا ضیاع کو جانتے بوجھتے ہوئے بھی اس نسبتاً قابل عمل ’’ٹیکنالوجیکل ٹرانسفرمیشن‘‘ میں بھی احساسِ عدم تحفظ کا شکار ہیں۔
اگر ’’ٹیکنالوجیکل ٹرانسفرمیشن‘‘ کی کچھ ’’کیس سٹڈیز‘‘ ملاحظہ کی جائیں، تو ثابت ہوتا ہے کہ بہت سے ایسے ممالک اور’’کمپنیز‘‘، جو ’’ڈیفالٹ‘‘ ہونے کے دھانے پر تھیں، وہ اس عمل کی وجہ سے مارکیٹ لیڈر بن گئیں۔ مثلاً جنوبی کوریا کے حوالے سے مشہور ہے کہ پاکستان کے پہلے پانچ سالہ منصوبے کی نتیجہ خیزی کو دیکھتے انہوں نے پاکستان ماڈل کو ’’فالو‘‘ کیا تھا۔ اسی جنوبی کوریا نے ’’ٹیکنالوجیکل ٹرانسفرمیشن‘‘ کے کمالات کو دیکھتے ہوئے اپنی ریاستی ترجیحات میں "innovation technologies” کو پہلے درجے میں رکھ دیا اور اپنے تعلیمی، انڈسٹرئیل اور تجارت کی ’’سپلائی چین‘‘ کو اس انداز سے مربوط کر دیا کہ محض تیس سال کے عرصے میں اس کی صرف ایک کمپنی، یعنی ’’سام سنگ‘‘ کی قیمت ہزار ارب ڈالر سے تجاوز کرگئی ہے، جب کہ پاکستان کا وزیر اعظم محض دو ارب ڈالر کے لیے متحدہ عرب امارات کے وزیر کا ’’ڈرائیور‘‘ بنا پھرتا ہے۔
اس طرح ’’آئی بی ایم‘‘ ایک وقت میں کمپیوٹر کی دنیا خاص کر ’’مین فریم کمپیوٹرز‘‘ کے گرو مانے جاتے تھے، لیکن ’’کمپیکٹ سسٹمز‘‘ کے زیادہ استعمال کی وجہ سے ان کا بزنس تقریباً ختم ہونے کے درپے تھا۔ اس تبدیلی کو مد نظر رکھتے ہوئے انہوں نے اپنی تنظیمی ساخت، تنظیمی کلچر اور ان ٹیکنالوجیز کی مارکیٹ سے ہم آہنگی کے ذریعے ہارڈوئیر مارکیٹ کے گرو کے طور پر دوبارہ سے اڑان بھری ہے۔
’’امازون‘‘ نے کتابوں کی فروخت میں کمی کو حرزِ جاں بنانے کی بجائے آن لائین کاروبار میں ایسی جدتیں متعارف کروائیں کہ صرف اس ایک کمپنی کی قیمت ہزار ارب ڈالر سے تجاوز کرگئی ہے۔ اس لحاظ سے ہم گلوبل ولیج میں ضعیفوں کی فہرست میں گرتے جا رہے ہیں۔ کیوں کہ ہماری یونیورسٹیوں کی ترجیحات اور ’’ریسرچ کوالٹی‘‘ ایک طرح کی ہے، تو ریاست کی دوسری اور انڈسٹری کی تیسری طرح کی۔ مختلف سمتوں میں ہماری یہ حرکتیں ہمیں تھکا تو بہت رہی ہیں، لیکن سفر کٹنے میں نہیں آرہا۔ ہم اپنے معدوم ہوتی ہوئی بین الاقوامی موجودگی کو یاس انگیز نظروں سے ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے ملاحظہ فرما رہے ہیں۔ کیوں کہ
ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات

…………………………………………………………..

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔