ہر ملک میں عوام کو ریاست کے ساتھ مضبوط شراکت سے وابستہ رکھنے واسطے بہرحال کچھ نہ کچھ قومی بیانیہ ترتیب دیا جاتا ہے۔ یہ بات حقیقت ہے کہ کسی بھی ملک کا تحریر شدہ یا بیان شدہ آئین بھی اس طرح عوام کو یکجا نہیں کرسکتا کہ جس طرح قومی بیانیے اور نعرے۔ ریاست بعض معاملات میں کچھ عارضی اقدام کے تحت بھی ایک بیانیہ بناتی ہے، لیکن اس کے بعد بڑی اقوام ہمیشہ سچ سے کام لیتی ہیں اور پھر اپنی مجموعی دانش کے مطابق مستقبل کی پالیسی بناتی ہیں۔ امریکہ جیسے ترقی یافتہ ممالک کچھ عرصہ کے بعد اپنے انتہائی نازک اور کلاسیفائڈ کاغذات کو مشتہر کر دیتے ہیں۔
لیکن ہمارا المیہ یہ ہے کہ اول تو ہم اپنا قومی بیانیہ ریاست یا ملک کے مفادات کے مطابق بناتے نہیں۔ ہم قطعی طور پر کچھ شخصیات یا اداروں کے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں اور پھر ہم مستقبل بینی سے نا آشنا ہوتے ہیں۔ ہم کو یہ اداراک ہی نہیں ہوتا کہ ہماری آج کی پالیسی کہ جس پر ہم عوام کو یکجا کر رہے ہیں، کل مکمل طور پر بدل سکتی ہے۔ اور جب یہ پالیسی بدل جائے گی بلکہ بالکل اس کے برعکس ہو جائے گی، تو تب ہم عوام کو کس طرح متاثر یا مطمئن کر پائیں گے؟ پاکستان کی حد تک تو یہ بات واضح ہے کہ ہماری حکومتوں خاص کر ہمارے آمرانہ دور میں ہم نے قومی مفادات اور دین کی بقا کے نام پر بہت ہی بے رحم طریقے سے نہ صرف عوام کو احمق بنایا، بلکہ ریاست کے مفادات کا کھلے عام سودا کیا اور نہایت ہی بے شرمی سے اپنے پہلے بیانیہ کو 90 ڈگری سے بدل دیا۔
مثال کے طور پر ایک وقت میں ہمارا قومی بیانیہ تھا کہ روس ایک غاصب ریاست ہے، گرم پانیوں پر اس کی نظر ہے۔ سو اس کو روکنا فرضِ عین ہے۔ ہم نے امریکہ کے حکم پر مذہب کا مقدس نام استعمال کیا اور افغان جنگجو ہمارے ہیرو اور مجاہدین ٹھہرے۔ حالاں کہ ہمارے تب کے پالیسی میکروں کو یہ معلوم تھا کہ یہ جہاد نہیں فساد ہے، لیکن ہمارے تب کے حکمران اپنے اقتدار واسطے امریکہ بہادر کے محتاج تھے، اور سی آئی اے کی پالیسی کو ہمارا قومی بیانیہ بنا کر پیش کر دیا۔ پھر جب دنیا کے حالات بدلے، تو ہم نے انہیں مجاہدین کو ’’ہیرو‘‘ سے ’’زیرو‘‘ (دہشت گرد) بنا دیا۔ اول ان کے ساتھ مل کر روس پر حملہ آور تھے، اب امریکہ سے مل کر ان (مجاہدین) پر حملہ کر دیا۔
اسی طرح کبھی ہم ہندوستان سے غزوۂ ہند واسطے قوم کو تیار کرتے ہیں اور اچانک ہمیں یہ بتایا جاتا ہے کہ جنگ مسئلہ کا حل نہیں۔ بالآخر مذاکرات ہی حتمی آپشن ہے اور مذکرات واسطے ماحول کا بہتر ہونا ضروری ہے۔ دو طرفہ تجارت و ثقافت بہت ضروری ہے وغیرہ وغیرہ۔ اچھا اسی طرح ہم چند مواقع پر چند جملے ضرور بولتے ہیں۔ مطلب ریاست کی طرف سے، جیسے کسی مقدس تہوار وغیرہ پر جیسے عیدین پر، ربیع الاول اور محرم (وغیرہ) کے مواقع پر ہم چند طے شدہ فقرے ہمیشہ سے جاری کرتے آئے ہیں کہ ’’ہم کو ان عظیم ہستیوں کے اسوۂ حسنہ پر عمل کرنا ہے۔‘‘، ’’ہماری بقا اسی میں ہے۔‘‘ اور جب ہم اس قبیل کے بیانیات جاری کر رہے ہوتے ہیں، تو ہمارے اندر کے شیطان کو یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ہم غلط بیانی کر رہے ہیں، جھوٹ بول رہے ہیں، لیکن ہم مکمل بے شرمی سے یہ مشق کرتے جاتے ہیں۔
اسی طرح جب بھی کسی ہیرو یا مقدس ہستی کی سال گرہ اور برسی کا موقع ہوتا ہے، تو ہم یہ خبر دیتے ہیں کہ ’’فلاں کی برسی یا یومِ پیدائش بہت عقیدت و احترام سے منایا گیا۔‘‘ اور ہماری عقیدت کا مظہر فضول جلسے جلوس ہوتا ہے۔ قومی چھٹی منا کر بھارتی فلموں سے لطف اندوز ہوتے ہیں، یعنی کام چوری اور وقت کا غیر ضروری فضول استعمال ہوتا ہے۔ لیکن جن کی سال گرہ و برسی ہوتی ہے، نہ ان کے منشور کی پروا ہوتی ہے اور نہ ان کی نصیحتوں کا پاس۔
پھر ایک اور تماشا لگایا جاتا ہے۔ یومِ آزادی، یومِ دفاع کے نام پر خبر چلتی ہے کہ ’’جوش و خروش سے منایا گیا۔‘‘ اربوں روپیہ لٹا دیا جاتا ہے کہ مقصد کا حصول بالکل نہیں، بلکہ اصل مقاصد سے الٹ کیا جاتا ہے۔ ہم وہ ہیں کہ ان قومی اور مذہبی جلوسوں کے دوران میں بھی ان کا تقدس قائم نہیں رکھ سکتے۔ عین جلوس کے دوران میں خواتین سے چھیڑ خوانی اور جیب تراشی ہمارا معمول ہوتا ہے۔
پھر ایک اور دلچسپ حقیقت جو ہماری عادت سی بن گئی ہے۔ مثال کے طور پر ذخیرہ اندوزی اور مہنگائی کے دوران میں ہم ریاست کی جانب سے یہ بیانیہ دیتے ہیں کہ ذخیرہ اندوزوں اور مہنگائی پیدا کرنے والوں کے خلاف سخت اقدام کیا جائے گا، ان کو معاف نہیں کیا جائے گا۔ لیکن ہوتا کچھ بھی نہیں بلکہ مہنگائی اور ذخیرہ اندوزی اور بڑھ جاتی ہے۔
پھر ایک اور رٹا رٹایا جملہ آئے دن ٹی وی، ریڈیو اور اخبارات کی زینت بنتا ہے کہ جب کہیں دہشت گردی آب رو ریزی کا واقعہ ہوتا ہے، تو کہا جاتا ہے کہ ’’مجرموں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا۔‘‘ اب پتا نہیں ریاست یا حکومتی کے وہ آہنی ہاتھ کون سے ہیں کہ جو کوئٹہ دہشت گردی میں اس طرح پڑتے ہیں کہ چند دنوں بعد وہ دہشت گردی کوئٹہ کے بجائے پشاور پہنچ جاتی ہے۔ آب رو ریزی قصور سے چار سدہ پہنچ جاتی ہے۔
اچھا، جب بھی رشوت اور کرپشن کا کوئی بڑا سکینڈل ابھرتا ہے، تو یہ بیانیہ آتا ہے کہ ’’رشوت اور کرپشن پر برداشت صفر ہوگی‘‘ لیکن یہ برداشت صفر نہیں ہوتی بلکہ ساتھ ایک اور صفر اور ایک کا عدد بنا کر 100 بنا دیا جاتا ہے، اور اس کو دبانے واسطے ایک نیا اسکینڈل بنا دیا جاتا ہے۔ اسی طرح دوسرے لاتعداد معاملات، جو بے شک ہماری مجموعی و اجتماعی منافقت کا عکس ہیں۔
یہاں ہمیں اس بات پر بھی غور کرنا چاہیے کہ اس سلسلے میں عوام کا رویہ بھی قابلِ رشک نہیں۔ عام آدمی جب خود متاثر ہوتا ہے، تو وہ انصاف کی دہائی دیتا ہے لیکن جب وہ خود متاثر نہ ہو، تو یا تو وہ ظلم کرنے والوں کا حصہ ہوتا اور یا پھر خاموش۔ کیوں کہ اوپر ہویا نیچے، یہ ظلم اور زیادتی کرنے والے کوئی امریکہ سے تو نہیں آتے، اور نہ آسمان سے اترے ہوتے ہیں۔ وہ سب ہم ہی میں سے ہوتے ہیں۔ وہ سب پاکستانی ہوتے ہیں اور اس پر خاموشی اختیار کرنے والے بھی ہم ہی ہیں، بلکہ حقیقت یہی ہے کہ ہم میں اکثریت جان بوجھ کر منافق بن جاتی ہے۔ وہ بھی اپنے معمولی مفادات کے پیشِ نظر۔
یہاں ایک دلچسپ واقعہ قارئین کی نذر کرتا ہوں، قریب 95ء کی بات ہے۔ ملک میں پی پی کی حکومت تھی اور ایک تقریب میں بھٹو صاحب کی برسی کے متعلق بات ہو رہی تھی۔ پی پی کے ایک دوست بہت جوش و خروش سے اپنی تقریر کی تیاری واسطے مختلف لوگوں سے راہنمائی مانگ رہے تھے۔ مَیں جانتا تھا کہ ان پر مالی بے قاعدگی کے بہت سنگین الزامات تھے۔ انہوں نے وہ تقریر مجھے دکھائی اور کہا کہ مَیں تبصرہ کروں۔ بہت خوب صورت الفاظ میں لکھی تقریر متاثر کن تھی۔ مَیں نے ان صاحب سے کہا کہ کیا وہ یہ تقریر اسی خوب صورت الفاظ میں بیان کرسکتے ہیں کہ جس طرح یہ لکھی ہوئی ہے؟ وہ بہت اعتماد سے بولے، ’’چھوڑو یار! لوگ جھوٹ صفائی سے بولتے ہیں، مَیں تو سچ بول رہا ہوں۔‘‘ مَیں نے کہا، ’’کیسا سچ؟ جناب!‘‘ اس نے تقریر سامنے رکھی اور اتفاق سے اسی نکتہ پر ہاتھ رکھا جو کرپشن پر تھا۔ فقرہ یہ تھا کہ ’’وہ شخص اس ملک کا وزیراعظم رہا، صدر رہا، وزیر خارجہ رہا لیکن اس پر کرپشن کا ادنا الزام تک نہ لگا۔ یہ کرپٹ عناصر ہمارا مقابلہ کیا کریں گے؟‘‘ مَیں مسکرایا اور کہا، ’’سر! یہ فقرہ کس کے واسطے ہے؟‘‘ وہ بولا، ’’بھٹو کے مخالفین کے واسطے۔‘‘ مَیں نے کہا، ’’مخالف کون ہیں؟‘‘ بولا جو کرپٹ ہیں، جو سیاست میں پیسا لائے ہیں۔‘‘ مَیں نے جھجک کر کہا، ’’اچھا، تو آپ بھٹو مخالف ہیں؟‘‘ وہ بولا، ’’کیا کہہ رہے ہو، ہم نے قربانیاں دی ہیں۔ سب کو معلوم ہے۔‘‘ مَیں نے کہا، ’’آپ خود ہی کہتے ہیں کہ بھٹو کے مخالفین کرپٹ ہیں۔‘‘ اب اُس کو بات سمجھ آئی اور سرگوشی سے بولا، ’’یار، خدا کا خوف کرو۔ ہمیں بدنام تو نہ کرو۔‘‘اس پہلے کہ وہ کہتا ’’غلط بدنام‘‘ مَیں نے کہا، ’’صیح بدنام!‘‘ وہ مسکرایا۔ تقریر میرے ہاتھ سی لی اور کہا، ’’بھٹو کی جماعت کے ہم ہی ہیں۔‘‘ اور چلتا بنا۔
سو یہ معمولی سی مثال ہے ہمارے قومی رویہ کی۔ آخر کب تک ہم برسیاں اور سالگرے جوش و خروش سے مناتے رہیں گے؟ کب تک مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کی باتیں کریں گے، اور کب تک دہشت گردوں اور عوام دشمن عناصرسے آہنی ہاتھوں سے نپٹنے کا اعلان کرتے رہیں گے؟یہ بہت اہم سوال ہیں۔ جواب ہم کو بحیثیتِ قوم تلاش کرنا ہوگا اور اگر جواب ہم حاصل نہ کرسکے، تو پھر یوں ہی باتیں کرتے اور روتے رہیں گے۔
……………………………………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔