بیگم نسیم ولی خان کی جد و جہد بھری زندگی پر اِک نظر

بانیِ خدائی خدمت گار تحریک، خان عبدالغفار خان المعروف باچا خان کی بہو، اصول پرست سیاست دان اور رہبرِ تحریک خان عبدالولی خان کی بیگم، اسفندیار ولی خان اور سنگین ولی خان کی ماں ’’بیگم نسیم ولی خان‘‘ جنہیں پختون پیار اور عقیدت سے ’’مور بی بی‘‘ کے نام سے پکارتے ہیں، 16 مئی 2021ء بروزِ اتوار 85 برس کی عمر میں اس دارِ فانی سے کوچ کرگئیں۔
مور بی بی نے 24 جنوری 1936ء کو مردان پار ہوتی میں خدائی خدمت گار تحریک کے اہم رکن امیر محمد خان ہوتی کے گھر جنم لیا۔ رہبرِ تحریک کے ساتھ اسفندیار ولی خان کی پرورش اور تربیت کے لیے 1954ء کو اُس وقت شادی کے بندھن میں بندھ گئیں جب باچا خان کو صوبہ بدر کیا گیا تھا۔
’’آئرن لیڈی‘‘ کے نام سے مشہور بیگم نسیم ولی خان عملی طور پر 1975ء کو پاکستانی سیاست کے میدان میں اس وقت کود پڑی، جب بھٹو کے نام نہاد عوامی دور میں نہ صرف خان عبدالولی خان کو گرفتار کرکے پابندِ سلاسل کیا گیا بلکہ ان کی جماعت نیشنل عوامی پارٹی (نیپ) پر بھی پابندی لگا دی گئی۔ مور بی بی نے ایسے حالات میں پارٹی کا کنٹرول سنبھالا جب ذوالفقار علی بھٹو کے بنائے ہوئے ’’حیدر آباد ٹریبونل کیس‘‘ میں ’’نیپ‘‘ کی تمام صفِ اول کی قیادت جیل میں اسیرانہ زندگی گزار رہی تھی اور سیاست کی خالی گدی سنبھالنے والا کوئی نہ تھا۔ کیوں کہ بھٹو صاحب کے ظلم و بربریت کی وجہ سے یا تو تمام مرد جیل میں تھے، یا زیرِ زمین، یا پھر جَلا وطن۔ کوئی قد آور مرد ایسا نہیں بچا تھا جو قومی و جمہوری کارواں کو آگے لے کر جائے۔ ایسے میں پختون سیاست کا پانسا پلٹنے والی اصولی خاتون مور بی بی آگے آئیں اور سردار شیر باز خان مزاری کی قیادت میں ایک نئی جمہوری جماعت ’’نیشنل ڈیمو کریٹک پارٹی‘‘ (این ڈی پی) کی داغ بیل ڈالی۔ یوں مور بی بی نے میدان میں آکر بھٹو کی آمریت اور رعونت کو چیلنج کرتے ہوئے نہ صرف سیاسی گدی سنبھالی، بلکہ نام نہاد عوامی لیڈر بھٹو اور حیدر آباد کیس کا بھی ڈٹ کر مقابلہ کیا۔
ضیاء الحق کے دورِ حکومت میں مور بی بی نے مذکورہ پلیٹ فارم سے حیدر آباد سازش کیس کے خلاف ایک منظم تحریک چلائی اور کامیاب پیروی پر اس میں نیپ کے نامزد تمام اسیر رہنماؤں کو باعزت رہائی دلانے میں کامیاب ہوئیں۔ این ڈی پی وہ جماعت تھی جس نے بھٹو کی جمہوریت کے نام پر مسلط آمرانہ حکومت کے خلاف جد و جہد میں ہر اول دستے کا کردار ادا کیا اور بھٹو کو ناکام و نامراد ٹھہرا کر ہی چھوڑا۔
حیدر آباد سازش کیس جیسے نازک موڑ پر سیاست میں قدم رکھنے والی بیگم نسیم ولی خان نے تمام معاشرتی ناہمواریوں کو رد کرتے اور مفروضوں کو غلط ثابت کرتے ہوئے یہ ثابت کیا کہ پختون معاشرے میں صرف مرد ہی نہیں بلکہ خواتین بھی سیاست میں حصہ لے کر اپنی کامیابی کے جھنڈے گاڑ سکتی ہیں۔ آپ ہمیشہ سے انتخابی عمل میں خواتین کی سیاسی شمولیت کی مضبوط حامی رہی ہیں۔ وہ اس بات پر یقین رکھتی تھیں کہ خواتین کو سیاست میں ضرور حصہ لینا چاہیے۔ کیوں کہ وہ معاشرے کا بڑا حصہ ہیں۔ خواتین کو نظر انداز کرنا معاشرے کی اکثریت کو نظر انداز کرنے کے مترادف ہے۔
خیبر پختون خوا میں مزاحمت کا استعارہ سمجھی جانے والی مور بی بی کو خیبر پختون خوا سے پہلی منتخب خاتون رکنِ قومی اسمبلی کا منفرد اعزاز بھی حاصل ہے۔ 1977ء کو چارسدہ اور مردان کے قومی اسمبلی (این اے 4 اور این اے 8) کے حلقوں پر بہ یک وقت رکنِ قومی اسمبلی منتخب ہوئیں۔ تاہم انہوں نے قومی اسمبلی کی رکنیت کا حلف نہیں اٹھایا۔ کیوں کہ اس وقت این ڈی پی کی تحریک اپنے عروج پر تھی اور مارشل لا نافذ کیا گیا تھا۔
1986ء کو جب اے این پی کی بنیاد رکھی گئی، تو خان عبدالولی خان مرکزی صدر جب کہ ممتاز قوم پرست سیاست دان افضل خان لالا (مرحوم) صوبائی صدر منتخب ہوئے۔ 1994ء کو مور بی بی پہلی بار جب کہ 1998ء کو دوسری بار عوامی نیشنل پارٹی خیبر پختون خوا کی صدر منتخب ہوئیں۔ انہوں نے پارلیمانی انتخابات میں پہلی بار 1988ء کو پی ایف 13 چارسدہ سے حصہ لیا اور خیبر پختون خوا اسمبلی کی رکن منتخب ہوئیں۔ پھر 1990ء، 1993ء اور 1997ء میں بھی رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہوئیں۔ وہ چار مرتبہ اے این پی کی صوبائی اور پارلیمانی لیڈر بھی رہ چکی ہیں۔ جب کہ 97-1990ء کے دوران میں صوبائی اسمبلی میں قائدِ حزب اختلاف بھی رہی ہیں۔ یہ سہرا اے این پی ہی کے سر سجتا ہے کہ ایک خاتون نے سب سے پہلے پاکستان کی سیاست میں جنرل نشست پر انتخابات میں کامیابی حاصل کی۔
پچھلے دنوں سینئر صحافی سہیل وڑائچ صاحب کی ایک ویڈیو نظر سے گزری جس میں وہ مور بی بی سے پوچھتے ہیں کہ ’’آپ نمازیں اور تسبیح پڑھ رہی ہیں جب کہ ولی خان کے خانوادے کی سیاست سیکولر ہے، یہ تضاد کیوں……؟ جس پر مور بی بی نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ سیکولر کا مطلب یہ نہیں کہ انسان کافر ہو بلکہ اس کا مطلب غیر فرقہ واریت ہے۔ یہ باچا خان کی تعلیمات ہیں جنہوں نے خود بھی ہمیشہ جمیعت علمائے ہند کا ساتھ دیا۔ عقیدتاً میں مسلمان ہوں اور یہ مجھ پہ فرض ہے کہ میں نماز پڑھوں۔‘‘
قارئین! مور بی بی ایک عرصے تک پختون سٹوڈنٹس فیڈریشن (پی ایس ایف) کے امور بھی دیکھتی رہیں۔ اُن کی تربیت کی وجہ سے پختون سٹوڈنٹس فیڈریشن نے طلبہ سیاست میں نمایاں مقام حاصل کیا۔ مور بی بی کی سیاست، جد و جہد اور قربانیوں کی تاریخ طویل ہے۔ ایک مختصر تحریر میں اس کا احاطہ ممکن نہیں۔ ان کی سیاسی خدمات پر مختلف نشستوں کا سلسلہ جاری رہے گا۔ بلاشبہ مور بی بی ایک باہمت، نڈر اور بہادر خاتون تھیں۔ اپنی زندگی میں نمایاں اور منفرد کردار ادا کرتے ہوئے ساری عمر جد و جہد میں گزاری۔ ان کے انتقال کے ساتھ جمہوریت کے لیے جد و جہد کا ایک ناقابلِ فراموش باب بند ہوگیا۔ بیشتر پشتون سوگوار ہیں۔ کیوں کہ تاریخ نے ایسی باہمت خواتین بہت کم دیکھی ہیں۔ مور بی بی کی زندگی ایک روشن باب کی مانند ہے جو تاریخ میں ہمیشہ سنہری حروف میں لکھی جائے گی۔
د سنگر ملالہ لاڑہ، دہ لخکر ملالہ لاڑہ
اشنغرہ تہ خبر شوے ستا د سر ملالہ لاڑہ
غم و الم کے ان لمحات میں دعا ہے کہ اللہ تعالا مور بی بی کو جنت الفردوس میں اعلا مقام عطا فرمائے اور مشر اسفند یار ولی خان سمیت تمام اہلِ خانہ اور پوری پشتون قوم کو صبرِ جمیل اور استقامت دے، آمین!
………………………………………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔