آج کل مسلم امت میں جائز طور پر دو بین الاقوامی معاملات میں عوامی سطح پر غصہ پایا جا رہا ہے۔ ایک تو جو خاکوں کا مسئلہ ہوا کہ پہلی مرتبہ جس کے پیچھے باقاعدہ ایک جدید دور کے ترقی یافتہ اور نام نہاد مہذب ملک کے صدر کی طرف سے اس توہین کا براہِ راست ارتکاب کیا گیا۔ دوسرا حال میں جو صورتِ حال اسرائیل کی بنی کہ جس میں غزہ اور یروشلم میں فلسطین کے نہتے عوام پر ظلم و ستم کی انتہا کی جاری ہے۔
سچ یہ ہے کہ ان دونوں معاملات میں اسلامی ممالک کے عوام میں تو نہایت ہی شدید غم و غصہ پایا جا رہا ہے لیکن مسلم ممالک کے حکمرانوں اور خصوصاً عرب حکومتوں کا رویہ انتہائی شرمناک ہے۔ کیوں کہ حکومتی سطح پر جو تھوڑی بہت آوازیں اُٹھ رہی ہیں، ان میں نمایاں نام پاکستان، ترکی، ملائیشیا اور ایران کے ہیں۔ جو سب کے سب عجمی یعنی غیر عرب ہیں۔
اس صورتِ حال میں اگر یہ کہا جائے کہ سب سے زیادہ شرمناک کردار سعودی عریبیہ کا ہے، تو غلط نہ ہوگا۔ کیوں کہ سعودی حکمران خود کو خادمِ حرمین شریفین کہلاتے ہیں اور اس حوالے سے دنیا میں منفرد حیثیت اور اہمیت کے طلب گار ہیں، لیکن دنیا میں جہاں کئی بھی امتِ مسلمہ پر مصیبت آتی ہے، خواہ وہ کشمیر ہو، میانمار ہو، فلسطین ہو، فلپائن ہو، بوسینیا ہو یا پھر یمن (جہاں یہ خود ذمہ دار ہیں) ان کی طرف سے وہی پالیسی آتی ہے جو بحیثیتِ مجموعی مغرب اور خاص کر امریکہ کی ہوتی ہے۔ قطعِ نظر اس کے کہ مذکورہ ظلم و ستم پر مسلم ریاستوں کا بحیثیتِ مجموعی ردِ عمل کیا ہوتا ہے یا مسلم عوام کے جذبات کیا ہوتے ہیں؟ ہم نے اول اس بات پر غور کرنا ہے کہ آج ہم جو کہ ایک شان دار ماضی رکھتے ہیں اور اس بات کے دعویدار ہیں کہ جدید دنیا کو تہذیب، سائنس، فن، ادب اور انسانی حقوق سے متعارف ہم نے کروایا ہے۔ تو پھر یہ بات سوچنا ہوگی کہ دوسری اقوام بجائے ہماری شکر گزار ہوں، ہم سے نفرت کیوں کرتی ہیں؟ آخر جب ہمارے ساتھ یہ ظالمانہ سلوک ہوتا ہے، تو کوئی ہمارے حق میں اس طرح آواز بلند کیوں نہیں کرتا؟ اب اگر کوئی دانش ور اس کو محض مذہبی تعصب بولے، تو اس کی مرضی، وگرنہ حقائق ایسے ہیں نہیں۔
یہ تو ممکن ہے کہ ایک معمولی ہندو توا، صہیونی یا صلیبی دماغ اس پہلو کو ترجیح دیتا ہو لیکن آج دنیا کی ایک اکثریت اور بالخصوص مغرب و مشرقِ بعید کے زیادہ تر ترقی یافتہ ممالک مکمل طور پر مادہ پرست ہیں۔ ان کے نزدیک مذہب کی جزوی اہمیت بھی نہیں۔ وہاں پیسا اور تجارت ہی تقریباً (معاذ اﷲ) خدا بن چکے ہیں۔ یعنی آپ آج پیسا لگا کر نیو یارک کے کسی کلب کو مسجد بنا سکتے ہیں۔ لندن کے کسی چکلے کو گرجا بنا سکتے ہیں۔ ایمسٹرڈیم کے کسی پب ہاؤس کو مندر بنا سکتے ہیں اور اسی طرح آپ مال لگا کر کسی مقدس جگہ کو مکمل کمرشل بلکہ نہایت ہی قابلِ اعتراض تجارتی عمارت میں تبدیل کرسکتے ہیں۔ ان کو نہ اس کی پروا ہے نہ تعلق۔ ان کا سارا زور مارکیٹ پر ہے۔ وہ کمرشل سرگرمیوں کا انتہائی فروغ چاہتے ہیں کہ پیسا کی سرکولیشن بڑھے اور حکومتی اور ذاتی ٹیکس اور دولت میں اضافہ ہو۔
اب جو تھوڑی بہت اسلام کے خلاف ان میں نفرت بڑھی، تو اس کی وجہ بھی اسی دہائی سے کچھ ایسے دہشت گردی کے واقعات ہوئے کہ جن سے تاثر یہ گیا کہ یہ اسلام پسندوں کی حرکات ہیں اور وہ تمام غیر مسلم لوگوں کو یا تو بذریعۂ طاقت مسلمان بنانا چاہتے ہیں یا پھر ان کو ختم کر دینا چاہتے ہیں۔ اس میں زیادہ شدت 9/11 کے واقعہ کے بعد آئی۔
یہ خیال رہے کہ چند ایک خالصتاً سیاسی معاملات میں مسلمانوں کے چند عناصر کی کچھ حرکات کو مذہبی بنانے میں بین الاقوامی میڈیا کہ جس کی مکمل ڈوریں یہودی بلکہ صہیونی لابی کے ہاتھوں میں ہیں، نے بہت ہی اہم کردار ادا کیا۔ بہرحال ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اس کا حل نہ تو مذمتی قراردادوں میں ہے، نہ جلسے جلسوں میں ہے، نہ اپنی املاک کو تباہ کرنے اور اپنے ہی لوگوں کے رستے بند کرنے میں ہے، بلکہ اس کا حل جدید دنیا کے حالات کے مطابق خود کو منوانے اور چلنے میں ہے۔
اب اٹلی کے سابق وزیراعظم کی یہ بات آپ کو بری لگے یا اچھی، صحیح تو ہے کہ گذشتہ پانچ صدیوں سے عالمِ اسلام نے جدید دنیا کو کچھ بھی نہیں دیا۔ سائنس ہو یا سیاست، ادب ہو یا ثقافت، مسلمانوں کا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ سو اَب ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلمان دنیا خود احتسابی کا مظاہرہ کرے اور زیادہ نہیں تو معمولی سی یہودی آبادی سے کچھ تو سبق لے۔
آج کی دنیا میں یہودیوں کی کل آبادی کروڑ سوا کروڑ ہے، لیکن انہوں نے پوری دنیا میں اپنا سیاسی و معاشی تسلط قائم رکھا ہوا ہے۔ کاش، ہماری دانشور اور با اثر کلاس اس سے سبق لے ۔
اب یہودیوں نے کیا کیا ہے۔ بس ان کے چند مٹھی بھر دولت مندوں نے اپنے پیسے کا ایک معمولی حصہ اپنے خاص مقاصد واسطے مختص کر دیا ہے۔ وہ مغربی میڈیا اور سیاست کے ایوانوں میں اربوں کی سرمایہ کاری کرتے ہیں۔ آج بھی امریکہ اور یورپ کے بڑے بڑے چینل یہودی سرمایہ کاروں کے محتاج ہیں۔ میڈیا سینٹر کی جرأت نہیں کہ ان کی مرضی سے ہٹ کر کوئی خبر یا تبصرہ چلا پائیں۔
اسی طرح وہ پورے ہالی وڈ کی فلم انڈسٹری پر چھائے ہوئے ہیں۔ پھر وہ داخلی طور پر زیادہ پیسہ تعلیم پر خرچ کرتے ہیں۔ مزید لوگوں میں اپنا تصور بہتر کرنے واسطے کروڑوں ڈالر خیراتی اداروں کو بھی دیتے ہیں۔ اسی وجہ سے آج اسرائیل جو کہ بہت کم رقبہ پر ہے اور اُس کا بھی بڑا حصہ لق و دق صحرا پر مشتمل ہے، دنیا کا چوہدری بنا ہوا ہے۔
لیکن اس کے مقابل مسلم دنیا ہر قسم کی دولت سے مالا مال ہے۔ لاکھوں ایکڑ کا زرعی رقبہ، بے شمار معدنیات اور پٹرول سے مالا مال ہے، لیکن افسوس یہ تمام نعمتیں اور دولتیں وہ محض سستی عیاشیوں پر لٹا رہے ہیں۔ اب جتنا پیسا مسلم ممالک خاص کر شرق الوسط کے عربوں اور پھر مشرق بعید جیسے ملائیشیا اور برونائی کے پاس ہے، اگر وہ اپنی کل آمدنی کا بس 0.50 فی صد مختص کر دیں اور اُس پیسے کو مغربی ممالک خاص کر امریکہ، روس اور برطانیہ کے میڈیا ہاؤسز، فلم انڈسٹری اور سیاسی ایوانواں میں لگائیں، تو آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ اس کا کتنا مثبت اثر ہو سکتا ہے!
پھر وہ اگر ذرا سا عقل سے کام لیں اور وہاں کی بڑی بڑی کمرشل کمپنیوں میں سرمایہ کاری کریں، تو وہ وہاں منافع بھی حاصل کرسکتے ہیں۔ مثلاً آپ ہالی وڈ میں سرمایہ کاری کریں۔ اسرائیل کے ظلم پر فلم بنائیں۔ آپ کا عوام میں آگاہی کا مقصد بھی پورا ہو جائے گا اور منافع علیحدہ۔
پھر آپ جب وہاں کے سیاسی اداروں میں سرمایہ کاری کرتے ہیں، تو پھر ان کو استعمال کر کے ملت کے مفادات کا تو تحفظ کرتے ہیں، ساتھ میں اپنے ذاتی و تجارتی مفادات کو بھی حاصل کر سکتے ہیں۔ یہودی یہی تو کرتے ہیں۔ وہ الیکشن میں عوامی رائے عامہ کا عمومی جائزہ لیتے ہیں اور جس امیدوار کے جیتنے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں، اس کو زیادہ چندہ دیتے ہیں۔ احتیاطاً دوسرے امیدوار کو بھی کچھ نہ کچھ دیتے ہیں۔ مثلاً پچھلے امریکی انتخابات میں انہوں نے ہیلری کلنٹن کو زیادہ چندہ دیا، لیکن اس کے مقابل ڈولنڈ ٹرمپ کو بھی لاکھوں ڈالر دیئے۔ پھر اسی طرح وہ کانگریس اور سینٹ کے امیدواران کو بھی دل کھول کر چندہ دیتے ہیں۔ انہوں نے وہاں اپنی ذاتی لابنگ ایجنسیاں بنا ئی ہیں۔ انہی کی مدد سے وہ اپنے سیاسی مفادات کا بھرپور تحفظ کرتے ہیں۔
تو معذرت کے ساتھ میں جب ان کے مطلب یہودیوں کے یہ کارنامے دیکھتا ہوں، تو بے ساختہ ان کی عقل و دانش کو خراجِ تحسین پیش کرنے کا دل کرتا ہے۔ وہ ہماری طرف سے یا بے شک آپ کہہ سکتے ہیں، اصولی و اخلاقی طور پر غلط ہوں گے لیکن اپنے ملک و قوم کے ساتھ وہ بہت مخلص ہیں۔ اپنے ’’کاز‘‘ کے واسطے وہ سنجیدہ ہیں۔
دوسری طرف ہمارے شہزادے، سیٹھ حتی کہ عام عوام اس طرح توجہ ہی نہیں کرتے۔ وہ یہودیوں کی سرمایہ کاری مقصد واسطے سیاست و میڈیا میں خرچہ کے مقابل دس گنا زیادہ پیسا وہاں جا کر کلبوں، چکلوں، کیسینو وغیرہ میں اُڑا دیتے ہیں۔ تو مجرم تو ہم خود ہیں۔ پھر یہودیوں سے کیا گلہ……!
یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ ہم 57 اسلامی ممالک کی ترجیحات میں سائنس اور ٹیکنالوجی سرے سے ہے ہی نہیں۔ ہم تعلیم پر خرچہ شاید کُل آمدن کا ایک فی صد بھی نہیں کرتے۔ نئی تحقیقات و ایجادات کا ہمارے ہاں تصور ہی نہیں۔ تو پھر بہتر نہیں کہ بجائے جعلی صلاح الدین بنیں جب کہ حقیقت میں ہیں بھڑکیں مارنے والے ’’سلطان راہی‘‘۔ بجائے جذباتی نعرے مار کر اپنا مزید نقصان کریں بلکہ معاملات کو حقیقت کی عینک لگا کر دیکھیں، اور نہ صرف بین الاقوامی معاملات کو یہودیوں کی طرح عقل سے حل کریں بلکہ داخلی طور پر تعلیم اور سائنس کی ترقی پر زور دیں۔ پھر یقینا ہم مٹھی بھر اسرائیلوں سے کئی درجہ بہتر نتائج دینے کے متحمل ہوسکیں گے۔
………………………………………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔