ویسے تو یہ نظامِ کائنات کا مسلمہ اصول ہے کہ ہر کمال کو ایک زوال آتا ہے۔ اگر ہم اس کو سیاسی جماعتوں کے حوالے سے دیکھیں، خاص کر پاکستان جیسے ملک کہ جہاں سیاسی جماعتیں نہ تو ایک ادارہ جاتی طور پر بنائی جاتی ہیں اور نہ ادارہ کے طور پر چلائی ہی جاتی ہیں۔ اس لیے سیاسی جماعتوں کا عروج و زوال بہت عموی بات ہے۔
پاکستان کی تاریخ میں اس سے قبل تین سیاسی جماعتیں ہمارے سامنے کمال کے بعد زوال کی پستی کو پہنچ چکی ہیں۔ اس میں اول جماعت جو پاکستان کی بانی تھی یعنی پاکستان مسلم لیگ۔ ایک طویل جد و جہد کے بعد چالیس کے عشرے میں عروج کے اعلا مقام تک گئی۔ حتی کہ اس نے برصغیر کا نقشہ بدل کر ایک ریاست تشکیل کر دی، لیکن اس کی یہ مقبولیت زیادہ عرصہ قائم نہ رہ سکی اور پھر پچاس کے عشرے میں قائد اعظم محمد علی جناح کی یہ جماعت یک دم زمین بوس ہوگئی۔
اس کے بعد 60 کے عشرے کے آخری حصہ میں پاکستان پیپلز پارٹی بنی اور بننے کے فوراً بعد عروج کی طرف رواں دواں ہوگئی۔ کوئی شک نہیں کہ اس جماعت نے قریب تین عشروں تک عوامی مقبولیت کا بھر پور ذائقہ چکھا اور پھر ذوالفقار علی بھٹو کی وہ جماعت کہ جس کو ہرانے واسطے ہمیشہ نو نو ستارے مل جاتے تھے لیکن کامیاب نہ ہوتے تھے۔ وہ جماعت ایک صوبہ کے بس دیہی علاقوں تک محدود ہوکر رہ گئی۔
پھر 70 کے عشرے میں ’’تحریکِ استقلال‘‘ محترم اصغر خان کی ابھر کر سامنے آئی لیکن جناب اصغر خان کی غیر سیاسی سوچ کی وجہ سے یہ جماعت بن کھلے بہت جلد مرجھاگئی۔ جس تیزی سے یہ جماعت اُبھری، اسی تیزی سے زوال پذیر ہوگئی۔ گو کہ ان جماعتوں کی تنزلی کی مختلف وجوہات تھیں، لیکن سب سے بڑی وجہ میرے خیال میں ان کی غیر فطری تشکیل ہوتی ہے۔
یہ بات میں روزنامہ آزادی ہی کے صفحات پر لکھ چکا ہوں کہ فطری طریقہ تو یہ ہے کہ کچھ لوگ کسی منشور پر اکٹھے ہوتے ہیں۔ اس کے زیرِ اثر ایک سیاسی جماعت بناتے ہیں۔ یہ جماعت اپنے اندر سے لیڈر شپ پیدا کرتی ہے جب کہ ہمارے ہاں گنگا الٹی بہتی ہے۔ ہم اول ایک مقبول شخصیت کو لیتے ہیں اور پھر وہ جماعت کی تشکیل کرتا ہے۔ سو اس طرح ہم ایک ادارہ نہیں بلکہ ایک گروہ یا جتھا بنا لیتے ہیں اور وہ جتھا اپنے خالق کے منظر سے ہٹتے ہی بکھر جاتا ہے۔ جیسے 50 کے عشرہ میں اول قائد اعظم اور بعد لیاقت علی خان کی موت سے مسلم لیگ اور اسی طرح اول ذوالفقار علی بھٹو اور بعد بے نظیر بھٹو کی موت سے پاکستان پیپلز پارٹی کے تنزل سے واضح ہوا، لیکن آج ہمارا موضوع جدید دور کی ایک جماعت میری مراد ’’پاکستان تحریک انصاف‘‘ سے ہے۔کیوں کہ تحریک انصاف بہت کافی جدو جہد کے بعد مقبول ہوئی تھی، لیکن بدقسمتی دیکھیے کہ یہ جماعت مقبول تو بہت محنت کے بعد وقت لگا کر ہوئی لیکن اب حکومت اور طاقت ہونے کے باجود غیر مقبول بہت جلد ہونا شروع ہو گئی بلکہ ہوچکی ہے۔ نوشہرہ کے بعد کل کراچی میں جو درگت بنی تحریک انصاف کی، اپنی ہی چھوڑی ہوئی سیٹوں پر وہ سچی بات ہے ان کے کارکنان واسطے حیرت کدہ جب کہ سیاسی و صحافتی تجزیہ نگاروں واسطے پریشان کن صورتِ حال ہے۔
عمومی طور پر تو یہ ہوتا ہے کہ ملک میں جب بھی ضمنی الیکشن ہوتا ہے، تو حکومت اپنی کیا بلکہ اپوزیشن کی طرف سے بھی خالی کردہ سیٹیں جیت لیتی ہے۔ کیوں کہ بہرحال حکومت واسطے کسی ضمنی الیکشن کو مینج کرنا مشکل نہیں ہوتا۔ لیکن اس دفعہ شاید پہلی بار دیکھا جا رہا ہے کہ حکمران جماعت اپنی ہی چھوڑی ہوئی نشستیں پر نہ صرف ہار رہی ہے بلکہ آخری نمبروں میں آرہی ہے۔
مثلاً آپ کراچی ہی کو دیکھیں۔ یہاں سے تحریکِ انصاف کا امیدوار میاں شہباز شریف کو شکست دے کر جیت گیا تھا۔ پھر وہ امیدوارِ وزیر بنا۔ اب بھی سینیٹر اور وزیر ہے۔ لیکن اسی حلقہ سے اب تحریکِ انصاف چھٹے نمبر پر آئی ہے۔
اگر آپ گہرائی میں مشاہدہ کریں، تو اس حلقہ کا ووٹ تقریباً وہی اوسط رکھتا ہے جو 2018ء میں۔ بس تحریکِ انصاف اور پی پی نے اپنی سابقہ پوزیشن کو تبدیل کرلیا۔ اولے تحریکِ انصاف پہلے اور پی پی چھٹے نمبر پر تھی۔ اس بار پی پی پہلے اور تحریکِ انصاف چھٹے نمبر پر آگئی۔ باقی ترتیب یوں ہی رہی، یعنی مسلم لیگ دوسرے، لبیک تیسرے، پی ایس پی چوتھے اور ایم کیو ایم پانچویں نمبر پر آئی۔
سو اب یہ بات بہرحال حکومتی اربابِ اختیار واسطے سوچنے کی ہے کہ اتنی جلدی حکومت غیر مقبول کیوں ہوتی جا رہی ہے؟ یہ بات یاد رہے کہ اس حلقے میں پشتون برادری کی ایک بہت بڑی تعداد ہے کہ جو گذشتہ ایک عشرے سے تحریکِ انصاف سے وابستہ ہے۔ کیا تحریکِ انصاف کے ذمہ داران واسطے یہ بات اتنی معمولی ہے کہ وہ اس ضمنی الیکشن کو صرف ایک سیٹ کے حوالے سے غور کریں اور اس کو قطعی اہمیت ہی نہ دیں۔ اگر تو وزیراعظم کے ارد گرد یہ سوچ ہے، تو پھر تحریک انصاف ابھی سے اپنی قبر واسطے وہ تختی تیار کر لیں کہ جس پر لکھا ہوتا ہے کہ ’’حسرت ان غنچوں پہ ہے کہ جو بن کھلے مرجھا گئے۔‘‘ لیکن اگر وہ اس کو سنجیدہ لیں، تو ان کو اپنی کارگردگی کا جائزہ لینا ہوگا۔ یہ کارگردگی صرف حکومت کے حوالے سے ہی نہیں بلکہ سیاسی اور جماعتی حوالے سے بھی قابلِ فکر ہے۔
اس بات پر تو بے شک دو رائے ہو ہی نہیں سکتی کہ حکومت کی کارگردگی تقریباً ہر شعبہ میں صفر سے نیچے ہے۔ مہنگائی اور بے روگاری نے پورے ملک کی مت ماری ہوئی ہے۔ حکومت کے انتخابی وعدے اب تک سلطان راہی کے ڈائیلاگ ہی ثابت ہوئے ہیں۔ پھر انتظامی طور پر اب تک وزیراعظم صاحب ایک قسم کی فرسٹریشن کا شکار ہیں۔ کچھ تو ہوتا نہیں، البتہ جناب وزیراعظم بس ہر ماہ کابینہ کی ری شفلنگ کو ہی مناسب عمل سمجھ کر وزرا تبدیل کر دیتے ہیں۔ جب کہ حکومتی رٹ اور گورننس کا یہ عالم ہے کہ پہلے اگر آپ دکان دار سے مہنگائی کی شکایت کریں، تو وہ منڈی کا رونا روتا تھا، ٹریفک کے نرخ بتاتا تھا، مال کی کمی کی اطلاع دیتا تھا، لیکن اب وہ بس مسکرا کر ایک بات کہتا ہے کہ’’اجی! ہم کیا کریں؟ یہ سب تبدیلی سرکار کی وجہ سے ہے۔‘‘
دوسری طرف تحریکِ انصاف سیاسی طور پر بے انتہا تنزلی کا شکار ہے۔ ان کو ٹکٹ دینے کے بعد بلکہ عین پولنگ والے دن یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ ہم نے ٹکٹ غلط دیا ہے ۔ جماعت کے حوالے سے تو خان صاحب بالکل ہی لاپروا ہیں۔ چلو، یہ تو صحیح ہے کہ آپ تحریک انصاف کو اس طرح کا ادارہ تو نہ بنا سکے کہ جس کا خواب آپ نے اپنے نوجوانوں کو دکھلایا تھا، لیکن کم از کم اس پر ن لیگ جتنی ہی توجہ دے دیتے۔
یہاں پنجاب میں تو مَیں نے خود اپنی آنکھوں سے یہ دیکھا ہے کہ کوئی طریقۂ کار ہی نہیں۔ یونین کونسل سے لے کر ڈویژن تک چند لوگوں کے ذاتی رشتہ دار اور ملازم عہدیداران بن جاتے ہیں اور عام کارکنوں کو بس سوشل میڈیا سے یہ خبر ملتی ہے کہ فلاں عہدے پر فلاں ہستی آچکی ہے۔ بلکہ ایک دلچسپ بات بتاؤں کہ چند ماہ پہلے مَیں نے ایک شریف آدمی سے لفٹ لی اور اس کو مبارک باد دی کہ سوشل میڈیا کی ایک پوسٹ کے مطابق وہ تحریکِ انصاف کا نائب صدر بنا ہے۔ وہ شخص مسکرایا اور کہنے لگا: ’’اچھا مجھے تو معلوم ہی نہیں۔‘‘ یہ بات اس نے مجھے مکمل سنجیدگی سے بتائی۔ پھر ایک صدر صاحب ملے اور کہتے پائے گئے کہ ان کو ان کی ٹیم بارے معلوم ہی نہیں۔ بس ان کو ایک نوٹیفیکیشن دیا گیا کہ فلاں فلاں بندہ ان کی ٹیم میں ہے اور کچھ نام تو ان واسطے غیر معروف ہیں۔
سو یہ حال ہے تنظیم سازی کا۔ جب پنجاب، خصوصاً شمالی پنجاب کہ جہاں جماعتِ اسلامی نہ ہونے کے برابر ہے جب کہ پی پی محض چند بابے رکھتی ہے اور ن مخالف طبقہ کافی معقول تعداد میں پی ٹی آئی کو مضبوط کرنا چاہتا ہے، یہ صورت حال ہے۔ مطلب یہاں پی ٹی آئی کی معقول پارلیمانی طاقت بھی ہے اور کوئی آپشن بھی نہیں، تو کراچی تو ایک ملٹی پولیٹن شہر ہے جہاں بے شمار آپشن بھی ہیں اور مواقع بھی۔ تو وہاں اگر آپ کی تنظیم سازی ایسی ہی ہوگی کہ جو کہ میری اطلاع کے مطابق ایسی ہی ہے، تو پھر نتائج بھی آپ کو یہی ملیں گے۔ بلکہ میرا تو خیال ہے کہ سارے ملک میں یہی حال ہے ۔
لگتا ہے کہ آئندہ الیکشن ایک بار پھر پی پی اور ن لیگ کے درمیان ہوگا۔ تیسری قابلِ ذکر جماعت شاید لبیک ہو۔ سو وزیراعظم مہربانی کریں اور کم از کم اپنی جماعت ہی بچا لیں کہ ملک کے نوجوانوں کی اکثریت کی ایک امید تھی بلکہ شاید اب بھی ہے۔
قارئین، ہم تو بس سمجھا ہی سکتے ہیں۔ باقی فیصلہ عمران خان صاحب نے خود ہی کرنا ہے۔
………………………………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔