پچھلے کچھ عرصہ سے الیکٹرانک میڈیا ایک خطرناک روش اپناتا جا رہا ہے کہ کوئی سماجی تہوار ہو، معاشرتی مسئلہ ہو، یا کوئی مذہبی دن یا مہینا، ہر موقع کو ریٹنگ بڑھانے کے لیے استعمال کیا جانا شروع ہو چکا ہے۔
ایک تو بیڑا غرق ہو اُس کا جس نے یہ دُور کی کوڑی لائی کہ جو بندہ ایک چینل کا حصہ بن گیا، وہ ایک ہی وقت میں اینکر بھی ہے، تجزیہ کار بھی ہے، نعت خواں بھی ہے، مقرر بھی ہے، اسکالر بھی ہے، مہمان بھی ہے، میزبان بھی ہے، گلوکار بھی ہے اور ناجانے کیا کیا ہے۔ اس سے دو نقصانات ہوئے کہ صحافت کی تعلیم سے فارغ التحصیل طالب علموں کے لیے مواقع کم ہوتے گئے۔ دوسرا بڑا نقصان یہ ہوا کہ بندر کے ہاتھ اُسترا آ گیا، یعنی آپ عالم ہوں یا نہ ہوں لیکن اگر آپ اونچا، بے تکان اور بنا رُکے بول سکتے ہوں، تو آپ کسی بھی علمی معاملے میں ٹانگ اڑا دیجیے، کوئی مسئلہ نہیں۔ آپ کسی فقہی مسئلے پہ رائے زنی شروع کر دیں، کوئی حرج نہیں۔ مسئلہ صرف چینل کی ریٹنگ کا ہے، عوام جائیں بھاڑ میں! انہیں ہم نے کون سا علم سے مستفید کرنا ہے۔ کچھ ایسا ہی ہر سال رمضان الکریم کے بابرکت مہینے میں دیکھنے اور سننے کو ملتا ہے۔ حیرت یہ ہے کہ ایک ایک لفظ پہ پابندیاں لگا دینے والی سرکاری ریگولیٹری اتھارٹی اس پورے معاملے پہ ستو پی کر سو جاتی ہے اور تمام چینلوں کو اپنی مرضی کرنے کا مکمل موقع فراہم کرتی ہے۔
پہلا منظر ایک عقل سے پیدل شخص کا ہے جو اپنی دانست میں عالم بھی ہے، اینکر بھی ہے، تجزیہ کار بھی ہے اور نجانے کیا کیا ہے۔ وہ مخبوط الحواس شخص کی طرح ایسی حرکات کر رہا ہے کہ جسے دیکھ کر گلی کے ننھے بالک پتھر دے ماریں۔ کبھی زمین پہ لوٹ پوٹ ہو رہا ہے۔ کبھی سو میٹر ریس میں منھ کے بل زمین پہ آ رہا ہے اور کبھی تو ایسا ہو رہا ہے کہ حقیقتاً مسخرے کے جیسے حاضرین کو خوش کر رہا ہے۔ یہ دیکھتے ہوئے کہنا پڑتا ہے کہ یہاں آوے کا آوا بگڑنے سے بھی کچھ اوپر کی صورت حال جنم لے چکی ہے۔
ایک اشتہار نظر سے گزرتا ہے جس میں متنازعہ ترین اور ہر شوق رکھنے والے اسکالر صاحب اور ان کے ساتھ اختلافات و تنازعات میں رہنے والی چھمک چھلو ہی ان کے ساتھ بطورِ مہمان ایک پروگرام میں جلوہ گر ہیں۔ میزبانی کے فرائض بھی ریٹنگ کے اصولوں کے عین مطابق ایک خوش شکل اداکارہ، اینکر، میزبان اور گلوکارہ ادا کریں گی۔ اس سے آپ اندازہ لگا لیجیے کہ اس پروگرام میں کس قدر علمی گفتگو ہوگی اور اس پروگرام کا اصل مدعا کیا ہے؟
اب آئیے، سب سے دلچسپ اور تیسری مثال کی جانب! مختلف فکر اور سوچ رکھنے والے علمائے کرام پینل کا حصہ ہیں۔ سب کا اندازِ بیاں الگ ہے، دلائل الگ ہیں۔ بڑی اچھی بحث چل رہی ہے کہ شائد اینکرصاحبہ کے کان میں لگے آلے پہ کہا گیا ہو گا کہ بی بی تم ٹھہری شوخ و چنچل حسینہ اور تمہارا تو خاصا ہی چیخنا چلانا ہے، تو یہ تم کیا کر رہی ہو کہ پروگرام میں اتنے اچھے انداز میں خالصتاً علمی بحث پہ خاموش بیٹھی ہو۔ پھر اینکر صاحبہ نے اپنی ٹون بدلتی ہے اور تاک تاک کر متنازعہ سوالات کی بوچھاڑ کر دیتی ہے۔ نتیجتاً مختلف مکاتبِ فکر کے علمائے کرام برداشت کا دامن چھوڑ دیتے ہیں اور پھر کچھ سجھائی نہیں دیتا کہ کون سوال کر رہا ہے اور کون جواب دے رہا ہے؟ کس کی دلیل میں وزن ہے اور کس کی دلیل ناقص ہے؟ ہاں، اس شور و غل میں اینکرنی صاحبہ کی چیختی بلکہ چنگھاڑتی ہوئی آواز واضح سنائی دے رہی ہے جو یقینی طور پر اس کی ’’کارکردگی‘‘ کا نہ صرف ثبوت ہے بلکہ چینل انتظامیہ اس پہ اسے نوازے گی بھی۔ پھر سخت جملوں میں پروگرام کا وقت پورا ہو جاتا ہے۔ کوئی زیرِ لب ذرا اونچا بڑبڑا رہا ہے اور کوئی دل ہی دل میں فریقِ مخالف کو کوس رہا ہے۔ سوشل میڈیا پہ کلپ چل گئے۔ اینکرنی صاحبہ کے الگ سے وارے نیارے اور ’’رمضان کا فلسفہ‘‘ اُس کی بھلا کس کو فکر ہے؟
گزری ایک دہائی سے یہ روش ہر گزرتے دن کے ساتھ مضبوط ہوتی جا رہی ہے۔ ’’جس کا کام اُسی کو ساجھے‘‘ شائد اب عملی طور پر محاوراتی لغت سے پاکستان میں سے ختم ہو چکا ہے۔ اسی لیے جس کا کام نہیں، وہی اسے کر رہا ہے۔ چینل انتظامیہ کو صرف ریٹنگ سے غرض ہے۔ کلیہ یہ اپنایا گیا ہے کہ جتنا زیادہ متنازعہ مواد پروگرام میں شامل ہوگا، اتنی ہی پروگرام کی ’’ٹی آر پی‘‘ میں بھی اضافہ ہو گا۔ کیسا رمضان الکریم، کیسی برکتیں، کیسی رحمتیں، کیسی برداشت، کیسا احساس……! یہ سب باتیں پرانی ہو چکی ہیں۔ اب تو رمضان ایک سیزن ہے جناب ہر چیز کا! اسی طرح چینلوں کے لیے بھی یہ ریٹنگ کا ایک سیزن ہے۔ اسی لیے چن چن کر ایسے نمونے مقرر کیے جاتے ہیں جو صحافت کی بے شک الف بے سے بھی واقف نہ ہوں، جو میڈیا کی اخلاقیات کی کوئی سد بد نہ رکھتے ہوں، لیکن وہ صرف ریٹنگ بڑھانے کا ہنر جانتے ہوں، چاہے اس کے لیے انہیں کچھ بھی کیوں نا کرنا پڑے۔
حیرت اس بات کی ہے کہ اس پورے تماشے کو مانیٹر کرنے والا ادارہ مکمل طور پر خاموش تماشائی کا کردار احسن طریقے سے نبھا رہا ہے۔ خالصتاً مذہبی معاملے پہ رائے ایک چھیل چھبیلی اینکر صاحبہ دے رہی ہے، تو بھی کوئی پوچھنے والا نہیں۔ ایک اینکر رمضان نشریات کا بھی میزبان بنا دیا گیا ہے، تو کسی کے کان پہ یقینی طور پر جوں تک نہیں رینگ رہی۔ متنازعہ فقہی معاملات کو اچھالا جا رہا ہے، تو بھی یہ ادارہ خوابِ خرگوش کے مزے لیتا دکھائی دیتا ہے۔ تنازعات اس حد تک پھیل جاتے ہیں کہ سوشل میڈیا کا عفریت ان تنازعات کو مزید ہوا دینا شروع کر دیتا ہے۔ یہ معاملات دیکھنے والا ادارہ باقی سب کام کرے گا صرف وہی نہیں کرے گا جو اس کا کام ہے۔ سب اپنی اپنی رو میں بہتے جا رہے ہیں۔ چینل کی ریٹنگ بڑھتی جا رہی ہے اور باقی ستے وی خیراں۔ کوئی اس حقیقت کو سمجھنے کی کوشش نہیں کر رہا کہ رمضان ریٹنگ بڑھانے کا نہیں رحمتیں اور برکتیں سمیٹنے کا مہینا ہے۔
…………………………………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔