میرے اور میرے جیسے بے شمار اشخاص سالوں سے انتہا پسندی پر لکھ رہے ہیں، بول رہے ہیں مگر مجال ہے کہ کسی پر رتی برابر بھی اثر ہو۔
پاکستان میں جب انتہا پسندی کا ذکر ہو، تو عمومی طور پر اس کا تعلق فقط ’’مذہبی انتہا پسندی‘‘ سے جوڑ دیا جاتا ہے۔ یہ بات صحیح ہے کہ مذہبی انتہا پسندی نے قائد اعظم کے پاکستان کو تباہ و برباد کردیا ہے۔ بلوچستان کے سنگلاخ پہاڑوں سے لے کر کشمیر کی وادیوں تک، سندھ کے ساحلوں سے گلگت کے چشموں تک، اور پنجاب کے کھیتوں سے لے کر خیبر پختون خوا کے جنگلات تک ملک کو لہو لہان کر دیا ہے، لیکن محض یہ سمجھنا کہ ہمارے ہاں بس یہی انتہا پسندی ہے، خود فریبی کے سواکچھ نہیں۔
بلکہ اگر ہم گہرائی میں جا کر جائزہ لیں، تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ انتہا پسندی ہماری نس نس میں رچی بسی ہے۔ اگر کسی کا مذہبی عقیدہ ہمارے والا نہیں، تو ہم اس کو مسلمانوں میں شمار نہیں کرتے۔ اگر کسی کا خاندان ہمارا نہیں، تو وہ ہماری نظر میں کمی کمیں ہو جاتا ہے۔ اگر کوئی سیاسی نکتۂ نظر میں ہم سے مخالف سوچ رکھتا ہے، تو وہ جاہلِ مطلق بن جاتا ہے۔ اگر کوئی ثقافتی و لسانی بنیاد پر ہم جیسا نہیں، تو غدار کلی قرار پاتا ہے۔اب بات یہاں تک رہتی نہیں بلکہ پھر اپنے انتہا پسند رحجان اور نظریہ کو ثابت کرنے واسطے جھوٹ اور فریب کا بے تحاشا استعمال کیا جاتا ہے۔ کچھ بدبخت اس واسطے جھوٹ اور فراڈ کا سہارا لینے کی ناکام کوشش کرتے ہیں اور بہت سے معصوم بنا تحقیق اس پر ایمان لے آتے ہیں۔ یہی دجالی سوچ معاشرے میں مسائل میں اضافہ کرتی ہے۔
مثال کے طور پر یہاں میں دو مثالیں دینا چاہتا ہوں۔ ایک واقعہ ہوا ملالہ یوسف زئی کا۔ اس پر ایک رائے کلی طور پر ملالہ کی حمایت میں تھی جب کہ ایک گروہ نے یہ سمجھا کہ یہ سب مغرب کا ڈراما ہے اور مغرب ایک خاص ایجنڈا کے تحت ملالہ کو لانچ کر رہا ہے۔ اب اگر وہ گروہ ملالہ کے واقعہ کو کسی دلیل، کسی ثبوت یا اپنے فہم سے بیان کرنا چاہتا، تو اختلاف کے باجود بطورِ ایک رائے ان کا احترام ہر مہذب شخص واسطے لازم تھا، لیکن انہوں نے اس پر انتہائی لغو طریقہ سے جھوٹ اور مکر کو پھیلانا شروع کر دیا۔ کبھی انہوں نے بنگلہ دیش کی تسلیمہ نسرین کہ جس نے خود ملالہ کے پھیکے رویہ کی شکایت کی، کو ملالہ کا جگری دوست اور ہم نظریہ بنا کر پیش کیا۔ کبھی یورپی یونین کے سابقہ صدر مسٹر شولز کی ہلکی سے سلمان رشدی کے ساتھ مماثلت کو آڑ بنا کر ملالہ کی وہ تصاویر جو یورپی یونین کے صدر کے ساتھ تھیں، سوشل میڈیا پر پھیلا کر یہ پروپیگنڈا کرنے کی کوشش کی کہ دیکھو جی ملالہ کس طرح ایک شاتمِ رسولؐ کے ساتھ تعلقات بنا رہی ہے اور یہ ملالہ انہی میں سے ہی ہے (معاذ اﷲ!) اسی طرح ملالہ بارے بے شمار اور ان گنت لغو باتیں تواتر کے ساتھ پھیلائی جاتی رہیں۔
اسی طرح کا دوسر واقعہ جو ماضیِ قریب کا ہے۔ خواتین کے حقوق کے حوالہ سے جو ’’عورت مارچ‘‘ کا انعقاد کیا گیا ہے، اس کی ویڈیو کو کمال ہوشیاری سے ایڈٹ کیا گیا۔ مارچ میں لگائے گئے نعروں کو غلط طریقوں سے پیش کیا گیا۔ (معاذ اﷲ) اوریا کو اور فضلو (فضل الرحمان) کو نقلِ کفر، کفر نہ باشد (معاذ اﷲ) رسول بنا کر دکھایا گیا کہ ’’دیکھو جی، کس طرح توہینِ مذہب کی جا رہی ہے۔‘‘ پھر اس میں موجود ایک بینر کہ جس پر لکھا تھا: ’’میں نو سال کی تھی اور وہ پچاس سال کا۔‘‘، ’’میں مظلوم تھی اور اس کی آواز اب بھی مسجد میں گونج رہی ہے‘‘ کہ جس کا پس منظر لاہور کے ایک قاری کا واقعہ ہے کہ جس میں اس نے ایک نو سال بچی سے زیادتی کی تھی۔ اس واقعہ کو (نعوذباﷲ) اسلامی تاریخ کے ایک واقعہ سے غلط طور پر جوڑ دیا گیا۔
اس کے علاوہ ایک واقعہ عورت مارچ کے جھنڈے کو لے کر ہوا۔ اب اس جھنڈے کے دور کے عکس سے اس میں فرانس کے جھنڈے سے ہلکی سی مماثلت کا تاثر ہوتا ہے ، تو یہ بیانیہ بنانے کی کوشش کی گئی کہ فرانس کا جھنڈا اس وجہ سے لہرایا جا رہا ہے، کیوں کہ فرانس میں گستاخانہ خاکے بنائے گئے، جس پر عورت مارچ کی انتظامیہ کی طرف سے ایک مکمل بیان آیا۔ اس میں اور باتوں کے علاوہ یہ دلچسپ وجہ بیان کی گئی کہ فرانس ایک سامرامی قوت ہے اور ہمارا اصل مقصد سامراجیت کے خلاف اظہارِ نفرت ہے۔ سو ہم کس طرح فرانس کا جھنڈا استعمال کر سکتے ہیں؟ لیکن اس وضاحت کے باجود بھی ان جہلا اور جذباتی عناصر کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی۔ بس وہی بھیڑ چال، وہی رجعت پسندی۔ مکمل جہالت اور بے شرمی سے پروپیگنڈا جاری ہے۔ نئی توجیحات آرہی ہیں۔
اب یہ عجیب اور بے ہودہ مؤقف بھی پیش کیا جا رہا ہے کہ یہ جھنڈا پہلے کیوں نہ تھا؟ یہ تردیدیں اول کیوں نہ دی گئیں، تو ان حالات میں کوئی کیا کرے؟ پھر کچھ جھوٹی سچی ایسی ویڈیو بھی پھیلائی جا رہی ہیں کہ جس میں کچھ مغرب پرست، بے حیا قسم کے بندے جنسی آزادی کی حمایت کر رہے ہیں۔ سو ان منفی پرچار کرنے والوں کو احساس ہی نہیں کہ وہ کتنا نازک اور رسک سے بھرپور کام کر رہے ہیں اور ان کی یہ حرکات کسی کی جان لے سکتی ہے۔
قارئین، اب اسکا حل کیا ہے؟ تو ہم یہ تجویز دیتے ہیں کہ اس پر دو طرفہ کام کیا جائے۔ ایک طرف ہماری سیاسی قیادت اپنے ساتھ صحافتی و تعلیمی حلقوں کو لے کر عوام کی شعوری تربیت کرے۔ ساتھ میں علمائے دین سے یہ درخواست کی جائے کہ وہ مساجد میں جمعہ کے خطبوں، میلاد اور محرم کی مجالس میں اس پہلو کو اجاگر کریں کہ عوام ان جھوٹے پروپیگنڈوں سے متاثر نہ ہوں۔
دوسری طرف قانون کو مکمل بے رحمی اور انصاف سے نافذ کیا جائے۔ عورت مارچ یا کسی بھی اس قسم کی تقریبات کو بہت قریب سے چیک کیا جائے اور اگر ان تقریبات میں کوئی ایسی بات یا حرکت ہو کہ جو ہمارے مذہبی و ثقافتی جذبات کو برانگیختہ کرنے کا باعث بنے، تو اس کو رپورٹ کیا جائے۔دوسری طرف ان عناصر پر بھی کڑی نظر رکھی جائے جو اپنے سٹریٹجک مفاد کے پیشِ نظر ان معمولات کو منفی طور پر نہ صرف پیش کرتے ہیں بلکہ اپنے مقاصد واسطے جھوٹ کا بے تحاشا استعمال کرتے ہیں اور مذہبی توہین کا ’’چورن‘‘ بیچتے ہیں۔
مَیں یہ بات یقینی سمجھتا ہوں کہ اگر قانون کا شکنجہ پوری طاقت اور انصاف سے حرکت میں آئے، تو اس میں اگر مکمل خاتمہ نہ بھی ہو، تو تب بھی اس میں بہت واضح کمی نظر آئے گی، لیکن اگر حکومت سوتی رہی، تو پھر یقین رکھیں کہ پہلے سے موجود انتہا پسندی دن بدن اپنی معراج کو چھوتی جائے گی۔ معاشرے میں عدم رواداری کا کلچر پھیلتا جائے گا اور ملک کے اندر بے سکونی اور خون خرابا جاری رہے گا، جو نہ صرف بین الاقوامی برادری میں ہمارا وقار ختم کر دے گا بلکہ اس سے ہمارے اندر سیاسی گھٹن بڑھ جائے گی۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ ہماری معیشت کو یہ تباہ و برباد کر دے گی۔ ایسے حالات میں کسی باہر کیا داخلی طور پر سرمایہ کاری ختم ہو جائے گی اور بے روزگاری کا سونامی آجائے گا۔ معاشی بدحال ملک کے نوجوانوں کو پھر مذہب و قوم پرستی کے نام پر استعمال کرنا بہت آسان ہو جائے گا۔ تو تب ہم کیا کریں گے؟ یہ یقین رکھیں تب اس تباہی کا تماشہ دیکھنے کے بھی ہم قابل نہ رہیں گے۔ دنیا میں ہماری پہچان ایک وحشی و غیر مہذب قوم کے طور پر سامنے آئے گی۔
ایسے بین الاقوامی مسائل کہ جن پر ہمارا قانونی و اخلاقی کیس بہت جان دار ہے کہ جیسے کشمیر وغیرہ، بہت کمزور ہوسکتے ہیں۔ ہماری ایکسپورٹ اور بین الاقوامی تجارت پر اس کے بہت ہی منفی اثرات پڑسکتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ہم عوام سے بھی یہ اپیل کرتے ہیں کہ وہ ہربات واسطے حکومت کی طرف نہ دیکھیں بلکہ اس میں برابر کی حصہ داری قبول کریں اور ہر شخص اپنی اپنی بساط کے مطابق اس پر کام کرے۔ فیس بک یا ٹوئیٹر پر ہر نظر آنے والی تحریر یا ویڈیو کو آگے شیئر کرنے سے قبل بہرحال خود تحقیق کریں اور اگر اس کو وہ فی صد مستند پائے، تو تب شیئر کریں۔ ساتھ میں غلط عناصر کو بھی ممکنہ حد تک سمجھانے کی کوشش ضرور کریں۔تب یہ مسئلہ حل کیا جا سکتا ہے۔ وگرنہ دوسری صورت میں ہم اپنی آنے والی نسلوں کی قبریں خود کھودنے کے ذمہ دار قرار پائیں گے۔
ہر شخص منھ میں فتوا لیے اور ہاتھ میں ڈنڈا اٹھائے قانون اور مذہب کو نافذ کرنا شروع کر دے گا۔ معاشرے میں بس دو ہی نظریات باقی رہیں گے، قاتل اور مقتول۔ قاتل بھی وہ جو بہت جلد مقتولوں میں شامل ہونے جا رہا ہوگا۔
سو اٹھو! قائداعظم اور علامہ اقبال کی روحیں آپ کی منتظر ہیں۔ وہ ان حالات میں سخت بے چینی کا شکار ہیں۔ وگرنہ دوسری صورت میں
ہماری داستان تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں
……………………………………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔