23 نومبر 2020ء کی صبح تھرپارکر کے ریگستانوں میں گم ہونے پانچ پیاروں کا قافلہ وادیِ سوات کے صدرمقام سیدو شریف سے نکلتا ہے۔ فرصتِ اولین میں کلر کہار جھیل کے بیک گراؤنڈ میں واقع ریسٹورنٹ میں شاہی دال کھانے کو دھمال ڈالتاہے۔ دال کی بھرپور دیگ، سلاد چٹنی اور لگ بھگ آدھ سیکڑا چپاتیوں کا خاتمہ بالخیرکرتا ہے۔ ہوٹل والا 21 توپوں کی سلامی کے ساتھ باعزت رخصتی کا پروانہ جاری کرنے کا موڈ بناتا ہے، تو وہ فوری طور پررفع دفع ہوکر اوکاڑہ روٹ پکڑتا ہے۔ ایک دوست کے ڈیرے پر بھنگڑا ڈالتا ہے۔ طلوعِ ماہتاب کے ساتھ ایک بار پھر’’آب و دانہ‘‘ کی ایک بھرپور نشست آغاز پاتی ہے، جس کے فی البدیہہ نتیجے میں متذکرہ قافلہ خوابِ غفلت کی ایک طویل نشست میں غلطاں ہو کے اُٹھتا ہے، تو اگلے دِن کے ظہر کا ظہور کب کاہو چکا ہوتا ہے، بلکہ ’’عصرین‘‘ کی دوسری نماز روا ہونے کو ہوتی ہے کہ قافلہ اگلے پڑاؤ کے لیے تیاری پکڑتا ہے۔ لفظ ’’عصرین‘‘ پچھلے سے پچھلے سال تبلیغی جماعت کے ساتھ سرگودھا میں چلّے کے دوران میں سیکھا۔ یہ اُن دو نمازوں کو کہتے ہیں جن کی فضیلت بہت زیادہ ہے۔ ایک سورج نکلنے سے پہلے ایک سورج نکلنے کے بعد، یعنی فجر اور عصر۔ تو ہاں، اُوکاڑہ سے ایک مزید پیارے کو اُٹھا کر قافلہ موٹر وے پر رونق افروز ہوتا ہے اور ’’علی العشا‘‘ مدینۃ الاولیا کے حدود اربعہ میں کسی روضہ کے لنگرخانے پرلنگر کھانے کولنگر انداز ہوتا ہے۔ یہ شہر ہمیں بڑا بابرکت،پُرلطف اور سہانا لگتا ہے۔ کارِ سرکار کے دوران میں بڑاآنا جانا لگا رہتا تھا۔ اِدھر کسی نے دعوت دینے کے لیے گلا کھنکارا نہیں اور اُدھر ہم اسلام آباد سے آنے والے فوکر جہاز کی کسی فولڈنگ یا عین ’’کنڈیکٹر سیٹ‘‘پر تشریف فرما ہوکر یہاں پہنچے نہیں، تو ہمارا نام بدل دینا۔ ہم نے گھاٹ گھاٹ کا بہتیراپانی پیا ہے، خود سے گویا ہو جاتے ہیں، تو یادوں کا صفحہ پلٹتا ہے۔
دورانِ ملازمت اپنے بالا بابوؤں کے ساتھ پانی پت کی لڑائیاں لڑنے کی پاداش میں دیگر شہروں کے علاوہ یہاں کے پل موجِ دریا کے پہلو میں بھی بہ طورِ سزا سہی زندگی کے کئی حسین لمحات گزارے ہیں۔ بڑی قدآور باڈی بلڈر خواتین کی ہمسائیگی میں تیر اور جگر آزمائے ہیں۔ موج میلہ کیا ہے۔ نوک جھونک کی محفلیں منعقد کی ہیں۔ دوستوں کے ساتھ گلچھڑے اُڑائے ہیں۔ ڈھابے کے ذائقہ دار چانپوں کے ساتھ انگلیاں چاٹی ہیں۔ چونسا آموں کے چسکے لیے ہیں اورسوہن حلوے کھا کھا کر ذیابیطس کو للکارا ہے۔ یاد رہے ، اولیاؤں کی اس سرزمین کو ملتان کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ داتا کی نگری کے بعدپنجاب کا یہ دوسرا بڑاشہر دریائے چناب کے عقب میں ایک ایسے بلند ٹیلے پرآباد ہے، جو پرانی عمارتوں کی مسماری کی وجہ سے بنا تھا۔ تاریخ کے اورق کنگالنے کی ضرورت نہیں، یہاں کے سارے مکین جانتے ہیں کہ سوات کی طرح اپنے جغرافیائی محل وقوع کی وجہ سے یہ شہر بھی بار بار اُجڑتا رہا اور سج دھج کے ساتھ آباد ہوتا رہا۔ قدیم تاریخ میں یہاں کے کئی معرکوں کا ذکر ملتا ہے۔ چنگیزوں اور مغلوں نے دہشت کے ساتھ لوٹ کھسوٹ کی یہاں۔ پتا نہیں کیا نام تھا امیر تیمور کے اُس ناہنجار پوتے کا جس نے اِس شہر کی اینٹ سے اینٹ بجا دی اور اسے صفحۂ ہستی سے مٹانے کی کوشش کی۔ بعد ازاں لنگاہی سلطنت میں اس شہر کو اتنا لوٹا گیاکہ کسی کو اس کی دوبارہ آبادکاری کی اُمید ہی نہ رہی۔
ہم نے خدا کے نام پر شہر تباہ کر دیے
ہم سے ولی چھپائیے ہم سے نبی چھپائیے
ہاں، مگر لنگر خان بلوچ کو خدا وندِذوالجلال ہر عیب سمیت بخشے، اُنہوں نے بہ نفسِ نفیس لنگوٹ کس کر اسے دوبارہ ایک زندہ و تابندہ شہر بنا کر دم لیا ۔ وہ حملہ آور نیست و نابود ہو گئے۔ کوئی اُن کا نام لینے کا روادار نہیں، مگر ملتان آج بھی اپنے پورے تقدس و تبرک اور جاہ و جلال کے ساتھ زندہ وتابندہ شہر ہے۔ یہاں کے لوگوں کو اپنی دردناک تاریخ یاد ہے۔ اس لیے بڑا سنبھل کر چلتے ہیں۔ وہ یہی شہر ہے جہاں حضرت بہاؤ الدین زکریا، حضرت شاہ رکن عالم اورشاہ شمس تبریز جیسی عظیم ہستیوں نے اسلام کی شمع روشن کی۔ اِن بابرکت بزرگوں کے درباروں پر عقیدت اور محبت کے اظہار کے لیے لوگوں کا تانتا بندھا رہتا ہے۔ چھٹی کے دن تل دھرنے کو جگہ نہیں ہوتی۔ ایک اشارے پر ملتان میں سورج کا سوا نیزے پرآنا اور اس کی حدت سے بزرگوارم شاہ شمس کا گوشت کی بوٹی بھوننااور کھانا، ملتان سے متعلق یہ داستان کس نے نہیں پڑھی ہوگی۔ کتابوں میں لکھاہے کہ پاکستان کی شہریں مردُم خیز ہوتی ہیں، لیکن ہماری نظر میں اولیائے کرام کا یہ ہیڈ کوارٹر پاکستان کا واحد شہر ہے جو مردم خیز کم اور ’’مستور خیز‘‘ زیادہ لگتاہے۔ اس کے گلی کوچوں اور بام و در پر خواتین کا ہلہ گلہ جاری رہتا ہے۔ اس صفت میں ملتان، ترکی کے اُس تیسرے بڑے شہر اَزمیر کو مات دیتا ہے جہاں ماضی میں حسن کے مقابلے منعقد ہوتے تھے۔ یہاں کی خواتین بھی وہاں کی طرح اپنے شوہروں پر کابوس کی طرح بیٹھی ہوتی ہیں۔ واقعی اس تناظر میں ان دونوں شہروں کی خواتین کے دراز قد کا، لمبی گردن کا، باوقار چلن کا، سریلی آوازکا، اعضا کی شاعری کا اورکثیر نفسی کا اتناجلیل القدر ہونا توبنتا ہے کہ مرد اپنی مردانگی کا نذرانہ اُن کے قدموں میں رکھ کر ’’کابوس‘‘ کاآلہ کار بن جائے ۔آموں کا سیزن نہیں، ملتان سے اور کیا تحفہ کسی کے لیے لا سکتے ہیں؟ جب یہاں کے محترم بزرگوارم یوں فرماتے ہیں۔
چہار چیز است تحفۂ ملتان
گرد، گرما، گدا و گورستان
درونِ ملتان گھومنے کا موقع اب نہیں۔ آہ بھر کر یہاں سے نکلتے ہیں۔ آگے ایک دن ایک رات کہاں گذاری، کیوں اور کیسے گذاری؟ اِس کی تفصیل میں نہ جائیں تو بہتر ہے۔ اپنی ساری حماقتوں کا ’’پردیسیوں‘‘ کے سامنے ذکر کرنے کی فی الحال کیا تُک؟ تاہم ابھی مغرب کی اذان کا وقت ہوا چاہتا ہے۔ پنجند عبور کرنے سے پہلے مچھلی بازار سونگھ کر دو گھنٹوں کے بھوکے پیاسے قافلے کی رال ٹپکنا شروع ہو جاتی ہے اور لمحہ ضائع کیے بغیر ایک اوپن ائیر ہوٹل کے بنچوں پر جوں ہی تشریف رکھتے ہیں، تو پیٹھ پیچھے سے ایک لائیواعلان کانوں سے ٹکراتا ہے۔ ’’کوڈا فش یہاں کے پانی کا انعام ہے یہ طعام خاص لوگوں کو ملتا ہے۔ آپ پنجندکے مہمان ہیں۔ صرف نو سو روپے فی کلو ہے۔‘‘ ریسٹورنٹ کامالک کچے برآمدے کے نکڑ پر پڑے فریزسے ایک مچھلی نکال کر بڑے پیار سے لہراتے ہوئے اس کے مزیدکوائف یوں بیان کرتا ہے:’’یہ وہ نایاب مچھلی ہے جو سمندر سے نکل کر تیز پانی کے بہاؤکے مخالف سمت چلتی ہے اور اپنے ’’زورِ بازو‘‘ سے پنجند میں کامیابی سے پہنچتی ہے۔ سخت محنت اس کے گوشت میں ذائقہ ڈالتا ہے۔ پیداوار کم ہے ڈیمانڈ زیادہ۔ خاصیت میں گرم مزاج کی ہے۔ زبان کو ذائقے کا سرور عطا کرتی ہے۔ زود ہضم ہے۔ اس کے لیے وکرا مصالحہ بنتا ہے۔ مرے شریر کو زندہ کرتاہے…… اور……اور……!‘‘ ایک طرف ہوٹل والا مچھلی کے ان گنت فوائد سنا رہا تھا، دوسری طرف شوکت شرار اور افتخار خان اس کی خصوصیات کا سن کر خماری کیفیت میں ’’کوڈا‘‘ کے تازہ لاٹ میں مچھلیوں کے سائز کا انتخاب کرنے پر ایسے ٹوٹ پڑے، گویا اسے کچا چبانے کے درپے ہوں۔ تیسری طرف حاضر گل کھلی فضا کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سگریٹ کا دھواں اتنے لطف و سرور سے پھیپڑوں میں ’’بھر‘‘ رہے ہیں گویا قبل ازیں روزے سے تھے۔ چوتھی طرف افضل شاہ باچا اور طالع مند خان باہمی طور پر مچھلی مصالحہ بارے جان کاری اور اُسے سوات میں متعارف کرانے کی غرض سے ہوٹل کے کارکنوں کو کرید تے ہیں۔ اس پورے ’’سیناریو‘‘ میں پانچویں طرف ہم کوئی اٹھکیلی سوجھتے ہیں نہ بیزار بیٹھتے ہیں بلکہ دریا کے بائیں کنارے بنی جھونپڑیوں کے اس مچھلی بازار میں جاری ہل چل کا جائزہ لینے کے لیے سُرخ فیتے کی نقالی کرتے ہوئے ’’کھلی کچہری‘‘کا ڈھونگ رچاتے ہیں۔سوالات کرتے ہیں۔جوابات لیتے اور دیتے ہیں۔ ویڈیو بناتے ہیں اور معلومات حاصل کرتے ہیں۔ پنجاب کی تاریخ کا پنجند سے گہرا تعلق ہے۔ یہاں کے پانچ دریاؤں جہلم، راوی، بیاس، چناب اور ستلج کا ملن یہاں ہوتا ہے۔ اس لیے اس کو ’’پنج ند‘‘ کہتے ہیں یعنی پانچ ندیاں۔ جہلم اور راوی، چناب کے غم میں مدغم ہو کر یہاں گُم ہو جاتے ہیں اور باہمی اشتراک سے تقریبا 70 کلومیٹر جنوب مغرب میں بہہ کر کوٹ مٹھن کے مقام پر دریائے سندھ کے ساتھ بغل گیر ہوتے ہیں، جو چلتے چلتے بحیرۂ عرب کے بحر میں بہہ کر اپنی پہچان کا باب تمام کرتے ہیں۔ اِسی جگہ پنجند پر ایک بند تعمیر کیا گیا ہے جو پنجاب اور سندھ کے وسیع دنیا کو آبپاشی کے لیے پانی فراہم کرتا ہے۔ یہ جو یہاں کی زمینیں سونا اگلتی ہیں، اسی پانی کی ذخیرے کی وجہ سے اگلتی ہیں اور یہاں کی کسانوں کی محنت کی وجہ سے اُگلتی ہیں، لیکن افسوس!جنوبی پنجاب کا کسان اور سندھ کا ہاری پھر بھی ننگ دھڑنگ اور بھوکا پیاسا ہے۔ ’’قافلہ ہذا‘‘ اگلے دِن موٹر وے پر سکھر کی جانب رواں دواں ہوتا ہے، بشرطِ زندگی وہ رام کہانی پھرسہی۔
ہم سفر چاہیے ہجوم نہیں
اِک مسافر بھی قافلہ ہے مجھے
کوہ کن ہو کہ قیس ہو کہ فراز
سب میں اِک شخص ہی ملا ہے مجھے
……………………………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔