کاش، امریکہ جنگِ ویتنام نہ لڑتا

1940ء کی دہائی کے وسط سے امریکی پالیسی سازوں کی میز پر جنوبی ایشیا میں جنگ سے متعلق فائلوں کا ڈھیر لگ گیا۔ اس سلسلے کی پہلی جنگ ویت نام کی بغاوت میں ملوث ہونا تھا۔ جاپانی قبضے کے خلاف ویتنام میں پیدا ہونے والی آزادی کی امنگ کو دبانے کے لیے امریکہ نے فوج کشی کی ٹھان لی۔ ویتنامی باشندے فرانسیسی نو آبادیات کے شدید مخالف تھے۔ اس اندرونی دباؤ کا سامنا کرنے کی سکت فرانس میں نہ تھی۔ لیکن امریکہ کا پھر بھی اس معاملے سے کوئی تعلق نہ تھا۔ ویت نامی افواج نے ڈین بین فو (Dien Bein Phu) کے مقام پر فرانسیسی افواج کو شکست دے کر تاریخی فتح اپنے نام کرلی تھی۔ سابق صدر ’’آئزن ہاور‘‘ کا خیال تھا کہ امریکی افواج کے سامنے چھوٹے سے ملک کی افواج گھٹنے ٹیک دے گی، مگر شمالی ویتنامی دستوں کی حمایت کے باوجود 1972ء میں امریکہ کو پسپائی اختیار کرنا پڑی۔
(صہیب مرغوب کے مقالہ ’’کاش، امریکہ یہ جنگیں نہ لڑتا‘‘ سے اقتباس)