وعدے اور دعوے بلند بانگ، سفر اُلٹی سمت

آج ہم جس دنیا میں آباد ہیں یہ کرۂ ارض ٹھیک ایک سو برس قبل یعنی 1921ء سے پہلے تک صرف 63 ممالک پر مشتمل تھی۔ اب اس دنیا کے نقشے پر 195 ممالک موجود ہیں جن میں سے 193 اقوام متحدہ کے باقاعدہ رکن ہیں۔ گذشتہ ایک صدی کے دوران میں ہماری اس دنیا نے بہت سے ارتقائی مراحل طے کئے، وباؤں، زلزلوں، طوفانوں، سیلابوں، جنگوں اور دیگر قدرتی آفات کا سامنا کیا۔ ٹیکنالوجی کی ناقابلِ یقین ترقی کی بدولت ہر وہ سہولت ہماری زندگی کا حصہ بن گئی جس کا ایک صدی پہلے تصور بھی ناممکن تھا۔ آنے والے سو سال یعنی ایک صدی بعد یہ دنیا کیسی ہوگی؟ اس پر غور کرنے کی بجائے اگر ہم اس حقیقت کا تجزیہ کریں کہ گزرنے والے 100 برسوں میں جو ملک اس دنیا کے نقشے پر موجود رہے ہیں اور جن کی ترقی سے وہاں کے رہنے والوں کی خوشحالی میں اضافہ ہوا ہے، اُن کے بنیادی اسباب کیا ہیں؟
حقیقت یہ ہے کہ گذشتہ صدی کے دوران میں صرف وہی ملک قائم رہے ہیں جنہوں نے تعلیم اور انصاف کو اپنی پہلی ترجیح بنائے رکھا ہے۔ سب کے لئے یکساں نظامِ تعلیم اور معاشرتی انصاف کی بدولت ان ملکوں نے نہ صرف ہر طرح کے چیلنجز کا مقابلہ کیا بلکہ ترقی اور خوشحالی کے معاملے میں بھی آج تک اُن کا کوئی ثانی نہیں۔ یہی وہ دو چیزیں ہیں جو ملکوں اور قوموں کو ٹیکنالوجی کے اس دور میں حالات کے تقاضوں سے ہم آہنگ کیے ہوئے ہیں، جن ملکوں میں تعلیم یعنی خواندگی کی شرح 100 فیصد ہے اور ہر شعبے میں فوری انصاف کے تقاضوں کی 100 فیصد تکمیل کی جاتی ہے، وہاں نہ تو کرپشن جڑ پکڑتی ہے، نہ ملاوٹ اور جعل سازی کو فروغ ملتا ہے، نہ آبادی میں بے تحاشا اضافہ ہوتا ہے، نہ اقربا پروری پروان چڑھتی ہے، نہ انسانی حقوق کو پامال کیا جاتا ہے، نہ کسی سے رنگ، نسل، صنف اور مذہب کی بنیاد پر امتیاز برتا جا سکتا ہے، نہ وہاں مارشل لا لگتا ہے اور نہ وہاں سیاسی جماعتوں کی قیادت ایک ہی خاندان کی اگلی نسل کو وراثت میں سونپی جاسکتی ہے۔ جو معاشرے اور ملک سماجی انصاف سے محروم ہو جاتے ہیں، وہاں کے عوام مصیبتوں، مشکلات اور مسائل کی ایسی دلدل میں دھنسنا شروع ہو جاتے ہیں کہ جس سے باہر نکلنا وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اگر ناممکن نہیں تو بہت دشوار ہو جاتا ہے۔ آج دنیا کے نقشے پر 50 سے زیادہ ممالک ایسے ہیں جن کی اکثریتی آبادی اسلام کے پیروکاروں پر مشتمل ہے، لیکن ملایشیا کے سوا کوئی مسلمان ملک ایسا نہیں جس نے گزشتہ چالیس سے پچاس برسوں میں تعلیم اور سماجی انصاف کو اپنے عوام کے لیے پہلی ترجیح بنایا ہو، حالاں کہ حضور نبی کریمؐ، خاتم النبینؐ جب اس کائنات کے لیے اللہ کے رسول بنائے گئے، تو آپؐ نے علم اور تعلیم کے فروغ کے ساتھ ساتھ سماجی انصاف کی بالادستی کو اپنا مشن بنایا اور جس کے سبب مثالی ریاستِ مدینہ قائم ہوئی۔ مسلمان ممالک اور خاص طور پر پاکستان کے حکمران کتنی بڑی خود فریبی میں مبتلا ہیں کہ وہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کو ریاستِ مدینہ بنانا چاہتے ہیں، لیکن تعلیم اور سماجی انصاف اُن کی اولین ترجیحات میں شامل نہیں۔ ملایشیا نے 31 اگست 1957ء کو برطانوی سامراج سے آزادی حاصل کی، تو اس ملک کے حالات بہت دگرگوں تھے، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہاں کی سیاسی قیادت نے اپنی ترجیحات کا تعین کیا اور جب مہاتیر محمد کو اقتدار میں آنے کا موقعہ ملا، تو انہوں نے اپنی سیاسی بصیرت کی وجہ سے تعلیم اور انصاف کی فراہمی کو اپنی ترجیحات میں شامل رکھا جس کے بعد ملک نہ صرف معاشی طور پر مستحکم ہوا بلکہ اس ملک کے رہنے والوں کی زندگی میں ترقی اور خوشحالی کے ستارے جگمگانے لگے۔
ملکوں اور قوموں کی ترقی میں سڑکیں، پل، ٹرانسپورٹ، ٹیکنالوجی، ائیرلائنز وغیرہ کی بڑی اہمیت ہوتی ہے لیکن جو معاشرے سات دہائیاں گزرنے کے بعد بھی 100 فیصد تعلیم کی سہولت اور سماجی انصاف کی آسان دستیابی سے محروم رہیں وہاں عوامی خوشحالی کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا۔ مَیں نے پہلے بھی اس تلخ حقیقت کی نشان دہی کی تھی کہ ہمارے ملک کے حکمران، اربابِ اختیار اور سیاست دان اس لیے بھی تعلیم اور سماجی انصاف کی فراہمی کو اپنی اولین ترجیحات میں شامل نہیں کرتے کہ ایسا کرنے سے رفتہ رفتہ سیاسی فرسودہ نظام پر سے ان کی اپنی گرفت کمزور ہونا شروع ہوجائے گی۔ اگر پاکستان میں 100 فیصد لوگ تعلیم یافتہ ہوجائیں اور سب کو یکساں تعلیم میسر آئے، تو پھر عوام کا شعور بیدار ہوگا اور وہ اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے کسی سہارے کی تلاش کی بجائے خود اُٹھ کھڑے ہوں گے اور ملکی سیاست پر اجارہ داریوں کا سلسلہ خود بخود ختم ہونا شروع ہو جائے گا۔
اسی طرح اگر سماجی انصاف کی فوری فراہمی کو اولین ترجیحات میں شامل رکھنے سے کوئی طاقتور کسی کمزور کا حق نہیں مار سکتا، کوئی کسی سے امتیازی سلوک نہیں برت سکتا، مراعات یافتہ طبقے کو قانون اور ضابطے کی خلاف ورزی پر جواب دہ ہونا پڑے گا، اسی لیے ہمارے ملک کا حکمران طبقہ ہر دور میں یا کسی بھی حکمران نے آج تک پاکستان میں تعلیم کی شرح کو 100 فیصد کرنے اور سماجی انصاف کی فوری فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے اپنی ترجیحات متعین نہیں کیں۔
کہنے کی حد تک تو پاکستان، اسلامی جمہوری ملک ہے لیکن حقیقی طور پر وطنِ عزیز نہ اسلامی ہے اور نہ جمہوری۔ اگر پاکستان اسلامی ملک ہوتا، تو ہماری قوم کی اکثریت 70 برس گزرنے کے باوجود جاہل نہ ہوتی اور ہمارے معاشرے میں ہر فرد کو یکساں اور فوری انصاف میسر آتا جو ملک علم کی روشنی اور انصاف کی دستیابی سے محروم رہے، وہ اسلامی نہیں ہوسکتا۔ جہالت، ناانصافی اور ظلم کی کوکھ سے صرف اور صرف مسائل جنم لیتے ہیں۔
جہاں تک پاکستان کے جمہوری ہونے کا تعلق ہے، تو مَیں اس کا موازنہ برطانیہ سے کرتا ہوں۔ یونائٹیڈ کنگڈم میں جمہوری روایت کا استحکام اس ملک کی سیاسی جماعتوں کے اندر جمہوری تسلسل سے مشروط ہے۔ لیبر پارٹی ہو یا ٹوری کسی بھی سیاسی جماعت میں شخصیت پرستی یا خاندانی اجارہ داری کا دور دور تک کوئی تصور نہیں۔ قائدین آتے جاتے رہتے ہیں لیکن سیاسی جماعتیں قائم رہتی ہیں اور اپنے منشور کی پاس داری کو اپنا نصب العین سمجھتی ہیں۔ عام انتخابات میں ناکامی پر پارٹی لیڈر عام طور پر مستعفی ہو کر کسی دوسرے کے لیے پارٹی لیڈر شپ کی گنجائش پیدا کر دیتے ہیں۔ پارٹی لیڈر کا انتخاب صرف اور صرف قابلیت اور اہلیت کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔ برطانیہ کی سیاسی جماعتوں کے اندر مستحکم جمہوریت کی وجہ سے ہی ملک کے اندر جمہوری استحکام ہے جب کہ پاکستان کے اندر کسی بھی سیاسی جماعت کے اندر ایسا جمہوری تسلسل اور استحکام دیکھنے کو نہیں ملتا، یعنی اگر ملک کی سیاسی جماعتوں کے اندر جمہوریت نہیں ہوگی، تو ملک میں جمہوری اقدار کیسے فروغ پائیں گی؟ عملی طور پر نہ ہمارے اندر جمہوریت ہے اور نہ اسلام کے سنہری اصولوں کی پاس داری مگر ہم اسلامی جمہوری پاکستان ہونے کے دعویداری پر فخر کرتے ہیں، حالاں کہ یہ ایک خود فریبی ہے۔ انصاف کے بغیر اسلام کا دعوا محض خوش فہمی اور پارٹیوں میں جمہوریت کے بغیر ملک میں حقیقی جمہوریت کے استحکام کا خواب صرف ایک دھوکا ہے۔
پوری دنیا گذشتہ ایک صدی کے دوران میں جس رستے پر چل کر خوشحالی اور ترقی کی منزل تک پہنچی ہے، ہم بھی اُسی منزل تک پہنچنے کے خواہش مند اور دعویدار ہیں، مگر ہم الٹی سمت میں سفر کر رہے ہیں۔ جب تک ہم اپنا رستہ اور سمت درست نہیں کریں گے، اپنی ترجیحات کا ٹھیک تعین نہیں کریں گے، ہم منزل تک نہیں پہنچ سکیں گے بلکہ منزل سے دور ہوتے چلے جائیں گے۔ مجھے پھر سے اعادہ کرنا پڑے گا کہ علم اور تعلیم کو اپنی پہلی ترجیح اور سماجی انصاف کی فراہمی کو یقینی بنائے بغیر نہ تو کسی ملک و قوم نے آج تک ترقی کی ہے اور نہ ہی اسلامی جمہوریہ پاکستان اِن دونوں ترجیحات کے بغیر اپنے قیام اور استحکام کے تقاضے پورے کر سکتا ہے۔
اب بھی وقت ہے کہ ہمارے حکمران اور اربابِ اختیار اپنی سمت درست کرلیں اپنی ترجیحات ٹھیک کرلیں، وگرنہ ہم خوشحالی کی منزل کے قریب ہونے کی بجائے دور ہوتے چلے جائیں گے۔
……………………………………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔