جب بھی بزرگ یا بیماریوں سے مضمحل لوگوں کو مل بیٹھنے کا موقع ملتا ہے، تو ایک جملہ ’’ہمارا زمانہ کیا اچھا زمانہ تھا‘‘ مکرر سننے کو ملتا ہے۔
یہ بزرگ جب زمانے کی بات کر رہے ہوتے ہیں، تو ان سے ان کی مراد ان کی اپنی جسمانی و ذہنی حالت ہوتی ہے۔ زمانے کو وہ بطورِ استعارہ استعمال کرتے ہیں۔ اس سے مراد وقت یا وقت کی روانی میں کوئی خاص دورانیہ نہیں ہوتا، اور نہ ماضی میں کسی اجتماعی حالت کا بیاں ہی مقصود ہوتا ہے۔
یہ بزرگ ایک اکیلے پن کا شکار ہوتے ہیں کہ حال میں ان کو کسی قطار میں شمار نہیں کیا جاتا۔ ان کے ساتھ کوئی کسی دلچسپی کی بات نہیں کرتا، اور نہ ان کو موجودہ دور میں ’’ریلوینٹ‘‘ یعنی موجودہ دور سے متعلق ہی سمجھا جاتا ہے۔ یہ کرب کیسا ہوتا ہے صرف وہی بزرگ بیان کرسکتے ہیں، لیکن ان کو سنتا بھی کوئی نہیں۔
اس کو ماضی کا بوجھ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا!
دوسری طرف لوگ مجموعی طور پر ماضی کا ماتم کرتے نظر آتے ہیں۔ ماضی میں کسی سنہرے دور کا تخیل ان کو ستاتا ہے۔ کسی بادشاہت میں بادشاہ کی شخصی؍ انفرادی خصلتوں کی تعریف کی جاتی ہے، کسی یاغستانی دور میں انسانی سماج کے سکوت، خوف اور بے بسی کو سراہا جاتا ہے، اور اسے اعلا اخلاقیات ، اعلا نضم و انصرام سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ ایسے میں کئی لوگ خود کو مصلح بناکر آگے بڑھتے ہیں اور ماضی کے احیا کی کوشش کرتے ہیں۔
اسے ماضی کا خمار کہا جاسکتا ہے۔
ماضی کا احیا نہیں ہوسکتا۔ ایسی ہر کوشش تاریخ اور تبدیلی کے پہیے کو پیچھے مڑنے کے مترادف ہوگی۔ اسی لیے بہتر یہی ہے کہ نئے نقاضوں کو سمجھ کر، نئے علوم کو اپنا کر، اپنے علمی خزانوں کو تلاش کر اور نئی افکار کا تجزیہ کرکے لوگوں کو علمی طور پر مضبوط کیا جائے، تاکہ وہ حال اور مستقبل میں اپنی راہ خود ڈھونڈ سکیں۔ اس کے لیے آزادی، برداشت اور انفرادیت بنیادی شرائط ہیں۔
جب معاشرہ اس قدر تنگ نظر ہوجائے کہ انسانی زندگی کی تمام خصلتوں، ضابطوں، اصولوں، مسئلوں، فکروں اور نظریوں کو صرف ایک ہی زاویے سے دیکھے، تو علمی و فکری حرکت تھم جاتی ہے۔ عدم برداشت پیدا ہوتا ہے اور نوجوان ایک نادیدہ خوف کا شکار رہ کر زندگی ہی سے بے زار ہوجاتے ہیں۔
……………………………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔