گذشتہ ہفتے امریکی سامراج نے ایک رپورٹ جاری کی ہے، جس میں اُن ممالک کا ذکر ہے جہاں بقولِ امریکہ ’’مذہبی آزادی‘‘ کا فقدان ہے۔
اس رپورٹ میں کل 20 ممالک کا ذکر ہے جن میں چین، سعودی عرب اور پاکستان جیسے اہم ممالک بھی شامل ہیں۔ حیران کن امر مگر یہ ہے کہ یہ رپورٹ ایک ایسے وقت میں شائع ہوئی ہے، جب امریکہ میں ’’ٹرمپ ازم‘‘ کا جنازہ نکل چکا ہے اور ’’بائیڈن دور‘‘ شروع ہونے والا ہے۔ تو کیا یہ مفروضہ گڑا جاسکتا ہے کہ امریکہ میں صدر کوئی بھی ہو، لیکن پالیسیاں نہیں بدلا کرتیں، یا یہ کہ امریکہ کا صدر کوئی بھی ہو لیکن چین اور مسلمانوں کے حوالے سے پالیسیاں پرانی ہی رہیں گی، جیسا کہ اس رپورٹ سے واضح ہوتا ہے۔ کیوں کہ اس رپورٹ میں اگر چین کا ذکر ہے، تو قابلِ فہم ہے۔ کیوں کہ چین ایک ابھرتی ہوئی عالمی قوت ہے جس کا اظہار ’’ٹرمپ دور‘‘ میں کھل کر ہوا، جس کو کچھ شہ کورونا وبا بارے امریکی اور چینی حکمت عملیوں سے بھی ملی۔ ویسے بھی تقریباً دنیا کے ہر ملک میں چین نے امریکہ کو چیلنج کرنا شروع کردیا ہے۔ یوں عالمی محاذ پر اب امریکہ تنہا عالمی طاقت نہیں رہا، بلکہ چین کئی ممالک کو باور کرانے میں کامیاب ہوچکا ہے کہ مستقبل چین ہی کا ہے۔
سرِ دست موضوع امریکی جاری کردہ رپوٹ ہے، جس میں پاکستان اور سعودی عرب کا ذکر خاصا معنی خیز ہے۔ کیوں کہ ایک طرف ٹرمپ اور سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کی دوستی کا چہار دانگ عالم میں ذکر ہو رہا ہے، تو ساتھ ہی امریکی اور سعودی خفیہ رضا مندی سے کچھ عرب ممالک نے اسرائیل کو بھی تسلیم کرنا شروع کردیا ہے۔ باوجود اس کے سعودی عرب کو اس رپورٹ میں شامل کرنے کی واحد وجہ اس کے سوا اور کیا ہوسکتی ہے کہ سعودیہ ایک مسلم اکثریتی ملک ہے، جس کو مسلم دنیا میں مرکزیت بھی حاصل ہے۔ یوں امریکہ، مسلمانوں کو ان کی اوقات دکھانا چاہتا ہے۔
اس رپورٹ میں پاکستان کا ذکر بھی کیا گیا ہے۔ حالاں کہ جب میں یہ سطور لکھ رہا ہوں، تو بھی افغان طالبان، پاکستان کی دعوت پر اسلام آباد میں موجود ہیں۔ ذرائع کے مطابق پاکستان کوشش میں ہے کہ طالبان کو قائل کیا جائے کہ تشدد میں کمی کرکے "بین الافغان مذاکرات” کو کامیاب بنایا جائے۔ اب ہر کوئی جانتاہے کہ یہ کس کے لیے کیا جا رہا ہے؟ ظاہری بات ہے کہ جب افغانستان میں مذاکرات کامیاب ہو کر پُرامن ماحول بنے گا، تو امریکی انخلا بھی آسان ہوجائے گی اور امریکہ کو عالمی خفت سے بھی نجات مل جائے گی۔ بصورتِ دیگر بدترین شکست امریکہ کا مقدر ہے۔
کتنے دکھ کی بات ہے کہ تقریباً 20 سال افغانستان میں گزار کر اور لاکھوں افغانوں کو قتل کرکے بھی امریکہ امن قائم نہ کرسکا، بلکہ اب مذاکرات کے لیے طالبان سے بھیک مانگنے پر مجبور ہے۔ وہ طالبان جو کسی زمانے میں امریکی کتاب میں ’’وحشی‘‘، ’’دقیانوسی‘‘ اور ’’فسادی‘‘ تھے۔
خیر، پاکستان کے افغانستان میں مصالحانہ کردار کا خود امریکہ بھی معترف ہے، اور دیگر عالمی ادارے بھی، لیکن سب سے بڑھ کر خود موجودہ افغان حکومت اور طالبان بھی ایسی ہی نیک تمنائیں رکھتے ہیں۔ علاوہ ازیں ’’مذہبی آزادی‘‘ کے حوالے سے کیا یہ کم ہے کہ پاکستان نے ’’کرتارپور کوریڈور‘‘ بنا کر سکھوں کے مذہبی عقائد کا بھرپور عزم کے ساتھ احترام کا اظہار کیا!
کیا یہ کم ہے کہ صوبہ سندھ میں اب بھی ایسے مقامات موجود ہیں جہاں ہندو مندر کے رکھوالے مسلمان، جب کہ مسلمانوں کے مزارات کے مجاور ہندو ہیں، اور مکمل امن و سکون بھی ہے۔ ایسی مثالیں اس بات کی غمازی ہیں کہ پاکستان میں مذہبی آزادی ہر کسی کو حاصل ہے۔ اگرچہ کمی بیشی ہوسکتی ہے، لیکن کیا دنیا کے باقی ممالک میں اس حوالے سے کچھ بھی غلط نہیں؟ ہمارے پڑوس میں واقع ایک ملک جس کا کیا نام لینا، لیکن اس کا ذکر اس رپورٹ میں نہیں۔ حالاں کہ پوری دنیا جانتی ہے کہ وہاں اقلیتوں کے ساتھ کیا سلوک ہو رہا ہے۔ مسلمان تو رہے ہیں، لیکن نچلی ذات کے ہندوؤں کے ساتھ بھی ناروا سلوک کیا جا رہا ہے۔ مذکورہ امریکی رپورٹ میں اِس ملک کاذکر تک نہیں، تو کیا یہ امریکی منافقت کا واضح ثبوت نہیں؟
اسی طرح فرانس میں آج کل مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے، اس بارے بھی امریکہ بہادر خاموش ہے۔ الغرض، امریکہ حسبِ سابق واضح طور پر مسلمان مخالف راستے پر گامزن ہے اور اگر ایسا نہیں، تو اس رپورٹ میں کم ازکم پاکستان کا نام نہیں ہونا چاہیے تھا۔ بہرحال اب باری پاکستان اور سعودی عرب کی ہے کہ مذکورہ امریکی رپورٹ پر کیا جواب دیا جاتا ہے؟
دیکھیے، اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے؟
…………………………………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔