سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف گذشتہ چند ہفتوں سے بہت شدت کے ساتھ ہمارے قومی اداروں خصوصاً عدلیہ اور خاص کر پاک فوج پر بہت ہی سنجیدہ الزامات لگا رہے ہیں۔ گذشتہ آل پارٹیز کانفرنس (اے پی سی) میں انہوں نے بہت کھل کر بات کی۔ کل ’’پی ڈی ایم‘‘ کے گجرانوالہ جلسہ میں تو انہوں نے انتہا کی۔ موجودہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور آئی ایس آئی کے موجودہ سربراہ جنرل فیض کا باقاعدہ نام لے کر نہ صرف انہوں نے الزامات لگائے بلکہ دھمکی آمیز لہجے میں ان سے یہ کہا کہ ان کو اس کا حساب دینا ہوگا۔
اس کے بعد پی پی کے سربراہ بلاول بھٹو نے سابقہ آرمی چیف جنرل مشرف کو کھل کر غدار اور قاتل قرار دیا۔ پھر مولانا فضل الرحمان کا لہجہ بھی کافی بھاری رہا۔ اب ہم یہ تو نہیں جانتے کہ مذکورہ الزامات کی حقیقت کیا ہے؟ مگر یہ دیکھا جانا ضروری ہے کہ جسٹس قاضی فیض عیسیٰ اور جسٹس شوکت صدیقی جیسے اہم افراد کے بعد ملک کے ایک دفعہ صوبائی وزیر دو دفعہ بڑے صوبہ کے وزیراعلیٰ اور تین دفعہ بننے والے وزیر اعظم کی جانب سے ان الزامات کو ہلکا لینا شاید ممکن ہی نہیں۔ بہرحال اس کے منطقی طور پر دو ہی نتائج ہیں۔
ایک یہ الزامات بالکل لغو اور غلط ہیں۔
دوم یہ صیح الزامات ہیں۔
اب اگر بالفرض پہلی صورتِ حال ہے، تو پھر یہ انتہائی سنجیدہ معاملہ بن جاتا ہے کہ آخر ایک شخص جس کو اس ملک نے اعلیٰ ترین منصب پر بارہا بٹھایا، وہ ان حالات میں جب ملک میں دہشت گردی اور فرقہ واریت مکمل جوبن پر ہے۔ ہمارے پڑوس میں ذہنی طور پر ایک رجعت پسند ہندو مذہبی سوچ کا حامل ہے کہ جس کا خمیر ہی غیر ہندو اقوام سے نفرت پر اٹھا ہے۔ حکومت پر ایک بڑی اکثریت سے براجمان ہے۔کشمیر کو وہ اپنے غیر اخلاقی، غیر سیاسی اور غیر قانونی طور ہڑپ کر چکا ہے۔ کشمیر میں بالکل قصائی والا رول ادا کر رہا ہے۔ پاکستان سے اس کی نفرت بہت واضح ہے۔ راولاکوٹ ہوا، اور آئے دن کشمیر بارڈر پر کراس فائرنگ روز کا معمول بنا دیا ہے اس نے۔ اس کے علاوہ ملک کے اندر بھارتی را کی سازشیں مکمل جوبن پر ہیں، تو ان حالات میں ایک اہم ترین شخص کی جانب سے اس طرح کا مکمل اعتماد سے دیا گیا بیان اگر غلط ہے، تو اس پر غور تو کرنا ہوگا۔ آخر اس کی وجہ کیا ہے؟ کیا ہم یہ فرض کرلیں کہ سابقہ وزیراعظم جو اب بھی ملک کے اندر ایک بہت بڑی عوامی حمایت رکھتا ہے، جو اپنی بیٹی کو مستقبل کے وزیراعظم کے طور پر لانچ کر رہا ہے۔ جس کا بڑا مطالبہ ہی مڈ ٹرم انتخابات کا انعقاد ہے۔ جو مستقبل میں پاکستان کی سیاست اور انتظامیہ میں ایک بار پھر اہم ذمہ داریوں کے حصول کا مشاق ہے۔ وہ بک چکا ہے۔ وہ غیر ملکی طاقتوں کے ہاتھوں بلیک میل ہو رہا ہے، یا ان کا ایجنٹ بن چکا ہے؟ کیا وہ کسی سازش کے تحت افواجِ پاکستان کو بہت سوچ سمجھ کر بدنام کر رہا ہے؟ کیا وہ شعوری طور پر ہمارے دشمنوں کو مضبوط کر رہا ہے؟ کیا اس کا مقصد عوام اور افواجِ پاکستان کے درمیان نفرت اور دوری پیدا کرنا ہے؟ لیکن کیوں……؟ یہ 100 ملین ڈالر کا سوال ہے۔
اب آئیں دوسری صورت حال میں کہ نواز شریف کے یہ الزامات حقیقت پر مبنی ہیں، تو پھر یہ اور بھی سنجیدہ مسئلہ ہے۔ کیوں کہ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ہماری فوجی قیادت کھلم کھلا کر غیر آئینی اقدامات کر رہی ہے۔ وہ واضح طور پر اپنے حلف سے روگردانی کر رہی ہے۔ وہ اپنی اصل آئینی ذمہ داریوں سے چشم پوشی کر رہی ہے اور ملک کے سیاسی اکھاڑ پچھاڑ میں ملوث ہے، تو پھر یہ سوال بہت معقول بن جاتا ہے کہ کیا کسی مہذب اور آئینی ریاست میں یہ بات برداشت کر لی جائے کہ ہم ایک سرکاری محکمہ کو عملی سیاست میں ملوث کرلیں؟ یا ان کا سیاسی رول باقاعدہ غیر آئینی طور پر تسلیم کر لیں۔
اب میرا خیال یہ ہے کہ نواز شریف نے یہ بات کرکے ملک کے اندر عوامی طور پر باقاعدہ ایک سونامی برپا کر دیا ہے۔ یہ بیان غلط ہو یا صحیح پاک فوج کی قیادت نے اس پر بہر صورت شدید ردعمل دینا ہے۔ شاید قوم ایک دفعہ پھر 1979ء کی سیاسی انارکی کا شکار ہوجائے جو ملک کو بہت نقصان کا باعث بن سکتا ہے۔
سو ان حالات میں ہمارے پاس حل کیا ہے؟ میرے خیال میں اس کا ایک ہی حل ہے جو آئینی بھی ہے اور اخلاقی بھی۔ اور وہ عمران خان کی حکومت پر فرض بھی ہے اور قرض بھی۔ جناب وزیراعظم فوری طور پر دو اطراف کے درمیان پل کا کردار ادا کریں۔ وہ اپوزیشن بالخصوص ن لیگ کی قیادت سے رابطہ کریں۔ اس سلسلے میں جماعت اسلامی اور پی پی خاص کر مراد علی شاہ بہت مؤثر کردار ادا کرسکتے ہیں۔
دوسری طرف فوج کی قیادت کو بھی اعتماد میں لیں۔ طرفین کو صبر کی تلقین کی جائے اور پھر ایک نہایت ہی اعلا درجہ کا عدالتی کمیشن تشکیل دیا جائے، جس میں سول بیورو کریسی خاص کر الیکشن کمیشن کے سابقہ عہدیداران، سابقہ مسلح افواج کے عہدے داران کو شامل کیا جائے۔ جس کے ذمہ یہ کام ہو کہ وہ نواز شریف کے مذکورہ الزامات کی تحقیق ایک کھلی عدالت میں کرے۔ جہاں میڈیا کی کھلی شرکت ہو، بلکہ بذریعہ میڈیا عوام کو اس کے ہر ایک پہلو سے مکمل آگاہ کیا جائے۔ کسی بات کو بالکل پوشیدہ نہ رکھا جائے اور اس کو حتمی سفارشات دینے کا ٹاسک دیا جائے۔ پھر ان سفارشات کی روشنی میں براہِ راست سپریم کورٹ میں کیس بنا کر دائر کیا جائے اور جو بھی مجرم ثابت ہو، اس کو قرار واقعی سزا دی جائے۔ وگرنہ اس کو اگر محض لیپا پوتی کے ذریعے نمٹایا گیا اور حکومت کی طرف سے نواز شریف کے خلاف ایک سیاسی بیانیہ بنایا گیا۔ غدار غدار کا منترہ چلایا گیا، اداروں کی غیر مشروط حمایت کی گئی اور مزید اداروں خصوصاً مسلح افواج نے اس پر روایتی طریقہ سے نمٹنے کا عمل اختیار کیا۔ جیسا کہ انہوں نے بھٹو اور الطاف حسین کے خلاف کیا، تو پھر یقینا دوسری طرف سے بھی ’’ری ایکشن‘‘ ہوگا۔ منطقی طور پر ہر عمل کا ایک رد عمل ہوتا ہے۔ نیٹوٹن کے قوانینِ حرکت کے مطابق اس کی شدت اتنی ہی ہوتی ہے، لیکن سمت مخالف ہوتی ہے۔ سو یقینی طور پر ملک کی ایک بڑی سیاسی قوت یعنی مسلم لیگ ن اس پر ردعمل دے گی۔
اور یہ بھی خیال رہے کہ تب اس کو مولانا فضل الرحمان، محمود خان اچکزی، اختر مینگل اور اسفند یار ولی کی کھلی حمایت حاصل ہوگی۔ جب کہ پی پی، جماعتِ اسلامی اور جمعیت اہل حدیث کی خاموش حمایت ملے گی۔ ن لیگ کا یہ ردعمل اداروں کے خلاف مزید نفرت پیدا کرے گا۔ یہ کسی بھی صورت میں ملکی مفادات میں نہ ہوگا۔ ایک طرف ملک کی اہم ترین دفاعی شخصیات کو بطورِ آئین شکن اور غدار بنا کر پیش کیا جا رہا ہوگا اور دوسری طرف آپ عوام کی اکثریت کو غدار قرار دے رہے ہوں گے۔
ہمارے یو ٹرن ماسٹر وزیراعظم جو ’’یو ٹرن‘‘ کو بڑے لیڈر کی قابلیت کہتے ہیں اور یہ واضح فرماتے ہیں کہ قوموں کو اٹھانے واسطے مشکل فیصلے کرنا ہی ہوتے ہیں۔ وہ مہربانی کریں اور اس پر یو ٹرن لیں اور یہ کمیشن بنانے کا مشکل فیصلہ کریں۔ تاریخ کے اس دورائے میں وزیراعظم کا یہ اقدام تاریخ میں ہمیشہ واسطے امر ہو جائے گا۔ مجھے ایک سابقہ نوجوان فوجی افسر کی بات یاد آرہی ہے کہ جس نے پھانسی کے چبوترے کے قریب ذوالفقار علی بھٹو کے کان میں یہ سرگوشی کی تھی کہ سر تاریخ آپ کی منتظر ہے اور پھر تاریخ نے دیکھا کہ بھٹو تختۂ دار پر جھول کر تاریخ کے اوراق میں چھا گیا۔ مَیں آج ایسی ہی ایک سرگوشی جناب عمران خان کے کان میں کرنا چاہتا ہوں کہ سر تاریخ آپ کی منتظر ہے۔ بے شک یہ فیصلہ بھٹو کی پھانسی سے تو بہت ہلکا ہے۔ آپ تاریخ رقم کریں اور مجھے یقین ہے کہ آپ کا یہ اقدام ہمیشہ واسطے ملک کی آئینی و سیاسی سمت کو درست کر دے گا۔ وگرنہ دوسری صورت میں بے شک حکومت کرنے واسطے آپ کو چند سال مزید مل جائیں گے، لیکن آخرِکار آپ کا کردار تاریخ کی کسی محفوظ الماری کے بجائے تاریخ کے کوڑے دان میں فنا ہو جائے گا۔ ہم پھر شاید مزید کئی سال تک ملک کے اندر کی سیاسی انارکی کو بھگتے رہیں گے۔ سو یہاں تحریکِ انصاف کے کارکنان سے بھی اپیل ہے کہ وہ ایک مؤثر اور مثبت سیاسی کردار ادا کرتے ہوئے حکومتی معمولات محض شہباز گل، شہزاد اکبر یا شیخ رشید جیسے مسخروں تک محدود نہ رکھیں، بلکہ خود آگے آکر حکومت کو اس مسئلہ کو حتمی نتائج تک پہنچانے واسطے دباؤ ڈالیں۔ اسی میں ملک اور ان کی جماعت کی بہتری ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ عمران خان میں ایک لیڈر کی جرأت ہے یا محض وہ ایک بے جان پتلا ہے۔
جناب وزیرِ اعظم! تاریخ و قوم آپ کی منتظر ہے۔
………………………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔