مملکتِ خداداد میں مدتوں سے جو کھیل کھیلا جا رہا ہے، اس سے لوگوں اور عوام کا نظریہ، سیاست، سیاست دان، قانون اور اداروں سے اعتماد اٹھتا جا رہا ہے، بلکہ کافی حد تک اُٹھ چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مارشل لا آئے، تو یہ دکھی عوام اس کا خیر مقدم کرتے ہیں اور پھرجنرل کے خلاف تحریک کامیاب ہو اور الیکشن کے بل بوتے پر کوئی حکومت آئے، تو اس پر شادیانے بجاتے ہیں۔ یہ سب کچھ ڈوبتے کو تنکے کا سہارا کہا جاسکتا ہے کہ ڈوبنے والا بندہ تو خاردار جھاڑی کو بھی پکڑ لیتا ہے اور تنکے اور خس کو بھی پکڑ لیتا ہے کہ شاید ا س سے بچت ہوجائے،لیکن جھاڑی زخمی کردیتی ہے اور تنکا سہارا نہیں بن پاتا۔
ویسے تو آزادی، مساوات اور حقوق کا نعرہ اتنا پرانا ہے جتنا کہ انسان۔ اور یہ اس لیے کہ یہ چیزیں انسانی فطرت میں ہیں، اور کبھی کبھار تو کوئی چیز ایک بندے کا حق نہیں بھی ہوتا، لیکن وہ اس پر بطورِ حق دعویٰ کرلیتا ہے۔ قابیل کا دعوا اس قسم کا تھا جس کی اساس پر تاریخ انسانی کا پہلا قتل سرزد ہوا۔ تو نعرہ تو روز اول سے ہے اور یہ اخلاق، معاشرت، قانون، مذہب اور نظام سب کا تقاضا ہے، لیکن عملاً کم کم نظر آتا ہے یعنی نہ کماحقہ مساوات ملتی ہے اور نہ ہر ایک کوملتی ہے۔ نہ کما حقہ آزادی ملتی ہے اور نہ ہر ایک کو ملتی ہے،حقوق ملتے ہیں اور نہ سب کو ملتے ہیں۔ کیوں کہ انسانوں میں ’’شح ‘‘ہے: ’’واحضرت الانفس الشح۔‘‘ اور ’’شح‘‘ان چیزوں کے دینے دلانے کے لیے رکاوٹ ہے۔ قرآنِ کریم نے اس سے پہلے فرمایا: ’’والصلح خیر!‘‘ اورصلح ہی بہتر ہے۔ یعنی ہر صلح خیر ہے۔ بعد میں فرمایا: ’’وان تحسنوا وتتقوا فان اللہ کان بما تعملون خبیرا!‘‘ اور اگر تم احسان کروگے اور پرہیزگاری کروگے، تو یقینا اللہ اس پر جو تم کرتے ہو، خبردار ہے۔ یعنی صلح میں احسان اور تقوا مدنظر ہے بلکہ یہ کہ صلح ہی احسان اور تقوا ہے ۔ سو انسانوں کے ’’شح‘‘ کی فطرت کی وجہ سے یہ چیزیں کم کم نظر آتی ہیں۔ اور یہ کہ اختیارات رکھنے والے افراد یا طبقات کبھی نہیں چاہیں گے کہ سارے انسانوں کو آزادی ملے، سب برابر سمجھے جائیں اور ساروں کو حقوق بھی ملیں کہ پھر تو ان افراد وطبقات کی خودساختہ خدائی قائم نہیں رہ سکتی۔ یعنی ان کا حرص وہوس اس کے لیے بڑی رکاوٹ ہے۔
کہتے ہیں کہ جمہوریت کے یہ اقانیم ثلاثہ ہیں۔ ہونگیں لیکن جمہوریت کو تو ان افراد و طبقات نے یرغمال بنا رکھا ہے، یا اس کو پالتو پرندے یا جانور کی طرح اپنے تابع کردیا ہے۔ وہ ان کی آواز پر چلتی رہتی ہے۔ یہی تو وجہ ہے کہ نام کی جمہوریت بھی ہوتی ہے، اور وہ جمہوریت ان افراد اور طبقات کا خیال رکھتی ہے، ان کو محفوظ کرتی ہے۔ ان کے مفادات کومحفوظ کرتی ہے، جب کہ جمہور کو تو یہ نام نہاد جمہوریت بھی دھتکارتی رہتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عوام کا نہ مارشل لا میں کبھی بھلا ہوا اور نہ جمہوریت میں۔ وہ ہر دو کا آتے ہوئے خیر مقدم بھی کرتے ہیں اور ان کو رخصت کرنے کے لیے بھی تیار ہوتے ہیں، بلکہ ان کے رخصت ہونے پر جشن مناتے ہیں کہ
جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو وزی
اس کھیت کے ہر خوشۂ گندم کو جلا دو
کے مصداق وہ ہر دو نظاموں کو یکے بعد دیگرے جلانے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں۔ یوں معاشرے میں نفرت کا اظہار بڑھتا رہتا ہے، اور ہر ہر بات میں سے سازش کی بو آتی ہے۔ اس لیے کہ اس بارہا ڈسے جانے نے عوام کے اندر خوف پیدا کیا ہوا ہے۔ انہیں عدم تحفظ کا احساس ہے، تبھی تو ایسے میں کسی کی بھی آواز پر اُٹھ جاتے ہیں کہ لو جی مسیحا آگیا۔
قارئین، عقیدے کے حوالے سے ایک ہوتا ہے کفر اور دوسرا ہوتا ہے شرک۔ کفر، عمل کی آس اور آرزو کو ختم کردیتا ہے۔ سو کافر کوئی عمل کرتاہی نہیں یعنی عبادات اور مذہب قسم کا۔ جب کہ شرک عمل کو تباہ کردیتا ہے، یا تباہی والے عمل پر اکسادیتا ہے ۔ یعنی یا عمل ہی نہیں پیدا ہوتا یا برا عمل پیدا ہوتا ہے، یا پھر عمل میں سلیقہ نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی۔
انہی تصورات کو یہاں پر تطبیق کریں کہ یوں یا تو آرزوئے عمل ختم ہوجاتی ہے، یا عمل تباہی والا ہوتا ہے، یا پھر عمل تباہ ہوجاتا ہے اور یہ کام ایک بار نہیں تسلسل سے ہورہا ہے۔ یوں عوام کا نظریے سے، سیاست سے، سیاست دان سے، قانون سے اور اداروں سے اعتماد اٹھتا جا رہا ہے، اور یوں یکے بعد دیگرے حکومات سے بھی ۔
اب بات رہتی ہے صرف ریاست کی، خدانخواستہ اگر ریاست سے بھی اعتماد اُٹھ گیا، (خدا نہ کرے) تو پھر اللہ اللہ خیر صلا!
تواربابِ اختیار سے مؤدبانہ عرض ہے کہ بس کرو ملک وملت اور عوام سے کھلواڑ ختم کرو کہ یہی ایک چیز رہتی ہے جس نے ابھی تک عوام کو ایک دوسرے سے بندھا ہوا ہے۔ خدا نہ کرے یہ بندھن ٹوٹے، تو مشرقِ وسطیٰ کے کئی ممالک کی حالت کا ہم مشاہدہ کر رہے ہیں کہ وہاں اربابِ اختیار کے ساتھ کیا ہوا اور عوام کے ساتھ کیا ہوا۔ یہ عذر لنگ تو کام نہیں آتا کہ’’ یہ تو مغرب نے کیا!‘‘ تو کچھ وجہ تھی جو مغرب اندر آگھسا۔ حالات ایسے پیدا کیے گئے، ان سے گلہ کرنا تو پھر کام نہیں آتا کہ کسی کو اندر آنے یاان کی مداخلتِ کار صرف مداخلتِ کار ہوتے ہیں۔ وہ تو کسی کے بھی خیرخواہ یا دوست نہیں ہوتے، توہم کیوں احمقوں کے جنت میں رہنا پسند کرتے ہیں۔
اب بھی وقت ہے کہ سوچا جائے اور اولین کام یہی ہو کہ جنہوں نے ملک کو لوٹا ہے اور وہ خود جانتے ہیں۔ بندے کوایک ایک روپیا کا پتا ہوتا ہے کہ یہ میرے پاس کہاں سے آیا؟ اور کیا یہ میرے لیے شرعاً یا قانوناً جائز بھی ہے؟ پھر بڑے ہونے کے دعویدار تو محرمات و مکروہات درکنار وہ تو شبہات سے اپنے آپ کو بچاکے رکھتے ہیں کہ ان کی تو عزت اس وجہ سے ہوتی ہے۔ دولت تو عزت کا ذریعہ نہیں صرف فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ عزت چاہیے یا دولت۔ سو جو دولت کے پجاری ہیں، ان کو عزت راس نہیں آتی اور جلد یا بدیر اللہ ان کو ذلیل ورسوا کر دیتا ہے۔ تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے۔ یہ نہ سوچو کہ ثابت نہیں ہوا، وہ تو دنیوی عدالتوں کامسئلہ ہے جو بڑی عدالت اور بڑا حاکم ہے۔ اس کے ہاں تو ہر واقع شدہ امر ثابت ہے اور وہ واقعات پر حکم صادر فرماتا ہے۔
اگر ہم تنہائی میں بیٹھ کر غور کریں، تو ہمیں پتا لگ جائے گا کہ عراق، لیبیا، افغانستان، یمن، تیونس اور مصر وغیرہ میں اولاً حکمرانوں کے خلاف لوگوں کو پمپ کیا گیا۔ انہیں اس انداز سے سمجھایا گیا کہ ادارے کسی کام کے نہیں رہے اور کافی حد تک تھا بھی ایسے۔ اس طرح عوام میں بھی ’’پولرائزیشن‘‘ بہت ہوگئی۔ کیوں کہ جس بھی حکمران کے خلاف لوگ اُٹھ جاتے ہیں، تو ان حکمرانوں کا بھی کوئی گروپ تو چھوٹا ہو یا بڑا ہو، یا کم از کم فورسز تو اپنے نظام کے تحت ان کے ساتھ ہوتی ہیں اور وہ بھی تو قوم ہی کے لوگ ہوتے ہیں۔ کسی کا بھائی، کسی کا بیٹا وغیرہ۔ اس طرح ادارے بھی باہمدگر مشت و گریبان کیے جاتے ہیں، یعنی نفرتیں پیدا کیے بغیر یہ کام نہیں ہوسکتے۔ اور پھر وہی کچھ ہوتا ہے جو ان ممالک میں ہوا، یا کیا گیا کہ حکومت، نظام،ادارے حتیٰ کہ فوج بھی نہیں رہے۔ ان کے حکمران کسی کو پھانسی دی گئی، کسی کو بلوائیوں نے قتل کیا، کوئی باہر بھاگ گیا، کسی کو جیل میں ڈال کے مروایا گیا۔ لاکھوں عوام مارے گئے۔ اب چوں کہ وہاں کوئی نظریہ تو تھا ہی نہیں۔ صرف نفرتیں تھیں، تو ان کا تو اینٹ سے اینٹ بجایا گیا۔ انفراسٹرکچر ختم ہوا۔ملک کھنڈر بن گئے اور اب افراتفری اور اندھیر نگری مچی ہوئی ہے۔ صرف تیونس کچھ نہ کچھ بچ گیا۔ اس حد تک کہ وہاں کوئی حکومت آئی اور زیادہ تباہی نہ مچی۔ مصر میں تو چوں کہ حکمران نظریاتی تھا، وہ ڈٹا رہا۔ جیل میں رہا۔ وفات پاگیا رحمہ اللہ۔ اس کے خلاف چوں کہ منظم فوج نے قبضہ کیا تھا، تو وہاں بھی حالات کنٹرول میں تورہے، لیکن وہ جو نفرتیں پیدا ہوگئی ہیں، وہ تو اپنی جگہ ہیں اور لاوے کی طرح پک رہی ہیں۔
افغانستان سے بھی بہ جبر نظریاتی لوگوں کی حکومت کو گرادیا گیا، لیکن نظریاتی تو نظریاتی ہوتے ہیں۔ ان کو تبدیل کرنا بہت مشکل ہوتا ہے اور وہ ابھر آتے ہیں اور ابھر آئے ہیں۔ دنیا دیکھ رہی ہے لیکن لاکھوں لوگوں کو مارا گیا۔ انفراسٹرکچر تو مسلسل چالیس سال سے تباہ کیا گیا۔ افغانستان کو ہمیشہ بڑی طاقتوں نے میدانِ جنگ بنا کے رکھا۔ کچھ تو ایک دوسرے کو ذلیل کروانے یا تباہ کرنے کے لیے،کچھ قدرتی وسائل کو ہڑپ کرنے کے لیے اور کچھ تزویراتی جگہ ہونے کی وجہ سے کہ یہاں سے خطہ پر نظر رکھی جاسکتی ہے۔ یہی کھیل ہمیشہ سے مشرقِ وسطیٰ میں کھیلا جا رہا ہے کہ وسائل تھے۔ ایک تزویراتی حیثیت ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وہاں پر مسلکی اختلاف اور تعصبات کو فرو نہیں ہونے دیتا، تاکہ وقتاً فوقتاً کسی پر دباؤ ڈالا جائے ۔ ایک کو دوسرے سے ڈراکے کہ ہم نہیں ہوں گے، تو وہ کھا جائیں گے اور دوسرے کو دھمکی دے دیتے ہیں کہ ہم یہاں بیٹھے ہیں۔ اب مشرق وسطیٰ میں تو حالات ویسے ہیں جیسے تھے۔
افغانستان تو افغانستان ہے، وہ تو وہ ہے جو تھا، اور تاریخ کو خراب نہیں ہونے دیا۔ اب عالمی قوتیں تومختلف خطوں میں اپنی موجودگی کے لیے مختلف طریقے اپناتے ہیں۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ اب نظر یں پاکستان پر ہیں کہ کیوں نہ یہاں اندھیر نگری کرکے کوئی جگہ پیدا کی جائے۔ سو ایک چاہتا ہے کہ یہاں آکے بیٹھ جائے اور دوسرا اس کو نہیں آنے دے گا۔ اب بھینسوں کی لڑائی میں تو شامت مینڈکوں کی آتی ہے کہ کچھ کچلے جاتے ہیں اور کچھ در بدر ہو جاتے ہیں۔ ایسے میں بچتا کوئی بھی نہیں بلکہ جو معزز بنے بیٹھے ہیں، وہ تو زیادہ ذلیل ہوجاتے ہیں۔ توکیا ہر ایک نے اپنی ذلت کی قسم اٹھائی ہے؟ سوال یہ ہے کہ اب کیا کیا جائے؟ سب سے پہلے تو جن جن نے جو کچھ لوٹا ہے، وہ قومی خزانے کو واپس کرے۔ پھر مل بیٹھیں اور فیصلہ کریں کہ ہم نے ملک کو بچانا ہے۔ اس کو آباد کرنا ہے۔ اس ملک کے باسیوں کو اپنے بہن بھائی اور برابر کے سٹیزن سمجھنا ہے، رعایا نہیں۔ دستور جو موجود ہے اور جس نے ہر فرد کے حقوق کی ضمانت دی ہے، ہر ادارے کے حدود متعین کیے ہیں، سو اس دستور کی پاس داری اور پابندی کرنی ہے۔ قانون کی عمل داری لانی ہے۔ بالفاظِ دیگر ہر ایک نے عزم کرنا ہے کہ ہم نے آئندہ کے لیے انسان بننا ہے، مسلمان بننا ہے، معزز شہری بننا ہے اور بعد میں کچھ اور…… کہ بنیاد تو یہی تین چیزیں ہے۔ بنیاد نہ ہو، تو عمارت تو کھڑی نہیں ہوسکتی۔وہ تو ہوامیں محل کھڑی کرنا ہے جس کا مقدر ہے گرنا اور تباہی پھیلانا ہے ۔
خدارا! آئیں انسان بنیں۔اب سے ٹھندے دل ودماغ سے سوچیں کہ جونئی صف بندیاں ہورہی ہیں اور جو ورلڈ آرڈر بن رہا ہے، نئے حلیف اور اتحاد بنتے جارہے ہیں، ہم نے وہاں پر کہاں کھڑا ہونا ہے؟ کیسے کھڑا ہونا ہے؟ اگرچہ معروضی حالات میں غیر جانب دار رہنا تو بہت مشکل ہے، لیکن جہاں تک ہوسکتا ہو کسی سے دشمنی کی حد تک توڑ نہ ہو، نہ غلامی کی حد تک جوڑ ہو۔
یعنی نہ وجود داؤ پر لگے اور نہ خودی۔
……………………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔