تجاہلِ عارفانہ کے لُغوی معنی ہیں جانتے ہوئے انجان بن جانا، عارف کے معنی ہیں جاننے والا، اور تجاہل کے معنی ہیں انجان بن جانا، لیکن یہ تجاہل کسی نہ کسی لطیف نکتے پر مشتمل ہونا چاہیے، جیسے اس شعر میں
صنم! کہتے ہیں تیرے بھی کمر ہے
کہاں ہے؟ کس طرف ہے؟ اور کدھر ہے؟
اس شعر میں کمر کو نہایت نازک اور پتلی دکھانے کے لیے مبالغہ مقصود ہے، پوچھنا مقصود نہیں۔ کیوں کہ کمر تو سامنے نظر آ رہی تھی۔
(پروفیسر ڈاکٹر فاروق چودھری کی تالیف ’’اُردو آموز‘‘ کے صفحہ نمبر 141 سے انتخاب)
