صدقہ وخیرات کرنا اتنا قدیم ہے جتنا کہ انسان خود۔ چوں کہ انسان مدنی الطبع ہے اور اللہ نے اس کی فطرت میں دیگر طبعی امور کی طرح ہمدردی، غم گساری اور معاونت کا جذبہ بھی رکھا ہے، لہٰذا وہ بساط بھر دوسروں کی امداد کرتا رہتا ہے۔ اور یہ کام سارے انسانوں میں ہوتا ہے، چاہے مسلمان ہوں یا کہ غیر مسلم۔ الہامی دین تو اللہ ہی کی طرف سے ہے اور اللہ ایک تو انسانوں کو باہمدگر جوڑے رکھنا چاہتا ہے، اس لیے ان کو ایک دوسرے کا محتاج بنا دیا ہے۔ساتھ وہ ان کو اپنے قریب بھی لانا چاہتا ہے، تو ان میں یہ مذکورہ فطرت پیدا کی ہے کہ اوروں کی اعانت کرنے سے وہ میرے قریب آجائیں گے۔
اب اصل فطرت تو سب میں ہے۔ البتہ کسی میں فعال ہوتی ہے، اور کسی میں نہیں۔کسی میں کم فعال ہوتی ہے اور کسی میں زیادہ۔ جب کہ اختراعی ادیان جو کسی انسان نے وضع کیے ہوں، ان میں بھی یہی تصور موجود ہے کہ یہ اختراعی دین دینے والے بھی زیادہ تر فلسفی تھے۔ فلسفی سوچ بچار اور غور وخوض کرکے اپنے تئیں خیر کے کچھ کاموں کا ایک مجموعہ پیش کردیتا ہے کہ یہ خدا تک پہنچنے کا ذریعہ ہے۔اب فلسفی کا مزاج رحم والا ہوتا ہے۔ غور وخوض ومراقبات نے اس کی فطرت کو روشنی دی ہوتی ہے۔ لہٰذا وہ کبھی ظلم کا سوچتا ہی نہیں۔ سو وہ صدقہ وخیرات کا تصور بھی دیتے ہیں ۔
سو صدقہ وخیرات ہر ثقافت کا حصہ ہوتا ہے۔ مشرکینِ مکہ بھی صدقے کرتے تھے۔ ہندو بھی کرتے ہیں۔ سکھ، یہودی، عیسائی، بدھسٹ حتی کہ دہریہ بھی لوگوں کی اعانت کرتے رہتے ہیں۔ یہ کام انفرادی طور پر بھی ہوتا ہے اور اداروں کی شکل میں بھی،یعنی بہت سارے خیراتی اور فلاحی ادارے بھی یہ کام کرتے ہیں اور وسیع پیمانے پر کرتے رہتے ہیں۔ مختلف حکومات بھی مختلف حوالوں سے رعیت کے محتاجوں کے نام پر مالی اعانت کرتے رہتے ہیں، جو اساسی طور پر تو ان کی ذمہ داری بھی ہے۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ تیسری دنیا کے ممالک میں ایسی اعانتیں زیادہ تر خورد برد کا شکار ہوجاتی ہیں، اور دکھ کی بات یہ ہے کہ جن کو اس کا ذمہ دار بنایا جاتا ہے، وہی اسے خورد برد کردیتے ہیں اور عموماً وہ کوئی محتاج لوگ نہیں ہوتے۔ وہ خود بھی اپنی جیب سے سیکڑوں نہیں، تو بیسیوں کی اعانت کرسکتے ہیں، لیکن ’’مالِ مفت، دلِ بے رحم‘‘ کے مصداق موقع آتے ہی وہ اس امتحان میں فیل ہوجاتے ہیں، اور بری طرح فیل ہوجاتے ہیں۔ ان میں سے اکثر موت سے پہلے پہلے ذلت کا بھی شکار ہوجاتے ہیں اور آخرت کا معاملہ تو خدا جانے۔ اللہ ہم سب کو دنیا وآخرت دونوں کی رسوائی سے بچا کے رکھے، آمین!
لیکن کیا حکومتوں کا کام اس قسم کی خیرات کرنا ہے، یا ان کاکام لوگوں کو کسب حلال کے مواقع فراہم کرنا ہے؟ کسی بھی ذی عقل سے پوچھیں، تو اس کا جواب ہوگا کہ لوگوں کو کسبِ حلال کے مواقع فراہم کرنا ہی حکومتوں کا اصل کا م ہے، نہ کہ لوگوں کو خیرات کی عادت ڈال کر بے ہمت اور بے کار ومفت خور بنانا۔ ایسے میں تو اقوام مفلوج ہوجاتی ہیں۔ ان کی صلاحیتیں ایسے ہی مخفی رہ جاتی ہیں، جب کہ اکتساب کے مواقع فراہم کرنے سے ایک تو وہ بے ہمت اور بے کار نہیں رہتے۔ دوسرا ان کی صلاحیتیں اجاگر ہوجاتی ہیں اور تیسرا یہ کہ ان میں مقابلہ کا جذبہ پیدا ہوجاتا ہے، جو اقوام کی ترقی کازینہ ہے۔
ہاں، بعض مواقع آتے ہیں جیسا کہ آفت، وبا وغیرہ جہاں کچھ دیر کے لیے پہیہ رک جاتا ہے اور بہت سارے لوگ بے کار ہوجاتے ہیں، تو اس وقت یہ اربابِ استطاعت اور اربابِ حکومت کا فریضہ بن جاتا ہے کہ وہ ضرورت مندوں کی اعانت کریں۔ اس طرح کچھ لوگ کچھ کرنے کے قابل ہی نہیں ہوتے، تو ان کی کفالت بھی معاشرہ اور حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ ایک تو حکومات کو طریقہ ہی نہیں آتا کہ اکتساب کے لیے کیا کریں ؟ کیسے مواقع پیدا کریں ؟ اور بعض کو آتا بھی ہوگا لیکن وہ چاہتے نہیں کہ ایسا کریں، بلکہ وہ سیاسی مفادات کے لیے اپنے ووٹرز اور سپورٹرز کو نوازنا چاہتے ہیں، لیکن ایسے میں ان کو یہ فکر نہیں ہوتی کہ اللہ کے ہاں ایک ایک پائی کا حساب دینا ہوگااور پائی پائی کا حساب تو ایک طرف باصلاحیت انسانوں کو اس طرح مفلوج اور بے ہمت بنانا، تو گناہِ کبیرہ اور قومی جرم ہے ۔
فطرت افراد سے اغماض تو کر لیتی ہے
ولے کرتی نہیں ملت کے گناہوں کو معاف
انسان کو تو اللہ تعالیٰ نے شاہکار بنادیا ہے۔ کوئی مینوفیکچرر بھی کوئی شاہکار بنادے اور کوئی دوسرا اس شاہکار کو مفلوج اور بیکار کردے، تو مینو فیکچرر کااگر بس چلے، تو اس بندے کے ساتھ کیا کرے گا؟ اور یہ تو خالق و مالک اور احکم الحاکمین کا معاملہ ہے کہ اس انسان کو جس کے آگے میں نے فرشتوں کو سجدہ ریز کروایا، تم لوگوں نے اس کو اس ذلت میں ڈال دیا کہ وہ ذلیل وخوار ہوکر خیرات خور بن جائے ۔’’وعلم آدم الاسماء کلہا‘‘ کا تو حاصل یہ ہے کہ اللہ نے آدم علیہ السلام کی فطرت میں اشیا کے نام اور استعمال ڈال دیا اور وہ یہ امتحان پاس بھی کرگیا۔ اب ایک بندہ جس کی فطرت میں استعدادات ہیں اور حکومات اپنی ذمہ داریوں سے پہلو تہی کرکے اس کو اس قسم کی مفلوجیت میں پھینک دے، تو خود سوچیں کہ ہم کیا کررہے ہیں؟ یعنی ہم حکمتِ خداوندی کے بالکل ضد کررہے ہیں اور اس کا تو خمیازہ بھگتنا ہی ہوگا۔ یہاں اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔
اب ایک بار پھر نوجوانوں کو کام کے لیے قرضے دینا، بظاہر تو اچھا ہے لیکن پہلے والے منصوبوں کا کبھی کسی نے جائزہ لیا کہ ’’یلو کیپ‘‘ کا کیا حشر ہوا؟ ’’گرین ٹریکٹر‘‘کا کیا حشر ہوا؟ کیا کوئی حساب کتاب ہے؟ کوئی اسے قوم کے سامنے پیش کرسکتا ہے کہ اس سے اتنی ترقی ہوئی؟ اتنے لوگ روزگار پرلگ گئے؟ہم نے تو دیکھا کہ ’’یلو کیپ‘‘ تو لوگوں نے لیے اور زیادہ تر افغانستان بھگا کر لے جائے گئے، یعنی وہی صنعت لگانے والا معاملہ کہ قرضہ لیا، پرانی مشینری لگائی، ایک دوسال بعد دیوالیہ ظاہر کردیا ، قرضہ معاف کروایا اور اللہ اللہ خیر صلا۔
یوں آج ملک کی جو حالت ہے، قرضوں میں جکڑا ہوا، یہی ہے کہ چوکیداروں نے لوٹا، باڑ نے کھایا۔ اب چوکیدار پر تو بھروسا کیا جاتا ہے، باڑ کی صورت میں تو کسان لمبی تان کر سوجاتا ہے کہ فصل محفوظ ہے، لیکن صبح آکے دیکھا کہ باڑ فصل کھاچکا ہے، تو پھر وہ کیا کرے۔ اور یہ کام تب سے ہورہا ہے جب سے ملک بنا ہے ۔
عجیب بات تویہ ہے کہ سب کہتے ہیں کہ لوٹا گیا ہے، تو کس نے لوٹا؟
جواب اوپن سیکرٹ ہے ۔ سب نے لوٹا۔
لوٹنے والے کو کس نے بچایا؟
سب نے ایک دوسرے کو بچایا۔
نیب کا بیان آجاتا ہے کہ ’’میگا کرپشن کیسز کو منطقی انجام تک پہنچائیں گے۔‘‘
اب تک کا مشاہدہ اور تجربہ تو یہی کہہ رہا ہے کہ کئی ایک کیس منطقی انجام تک پہنچ گئے ہیں، یعنی عدم ثبوت کی بنا پر کیس بند کردیے گئے ہیں، اگر اس کو ’’منطقی انجام‘‘ کہتے ہیں۔ بظاہر تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ سارے ادارے جو کرپشن ختم کرنے اور کرپٹ لوگوں کو سزا دینے اور لوٹے ہوئے مال کو واپس لینے کے لیے بنائے گئے ہیں، تاحال تو وہ زیادہ تر ’’لانڈری‘‘ اور ’’ڈرائی کلین‘‘ کا کام کررہے ہیں کہ زیادہ تر پاک وصاف ہوکر نکل جاتے ہیں، اور دھڑلے سے کہتے رہتے ہیں کہ ’’ہمارے اوپر الزامات لگائے گئے،انتقام لیا گیا‘‘ وغیرہ وغیرہ ۔
اب ملک زرعی بھی ہے۔ کچھ صنعتیں بھی ہیں۔ باہر بھی لوگ مزدوری کرکے پیسے بھجوا رہے ہیں۔ بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے بھی ہزاروں ارب ڈالرز قرضے لیا گیا او ر قوم کی حالت ناگفتہ بہ ہے، تو پتا لگ گیا کہ لوٹا تو گیا ہے، لیکن 70 سال کے لوٹ مار کا ’’فاعل‘‘ معلوم نہیں ہورہا کہ کس نے لوٹا؟
باہر سے کوئی صاحبِ صلاحیت بندہ قومی جذبے سے جاکر کچھ کرنا چاہے، تو پہلے تو سرخ فیتے کا چکر اس کے جذبے کا خون کرتا ہے۔ اگر حوصلہ بلند ہو ا، اورکچھ شروع کرگیا، تو ایک تو ہوتے ہیں وہ ’’بھتا خور‘‘ جو کلاشنکوف کے زور پر بھتا لیتے ہیں، لیکن ان سے زیادہ وہ جو سیاست میں ہوتے ہیں، اور اقتدار تک پہنچ جاتے ہیں، تو کام شروع کرنے سے پہلے افسر شاہی اور کام کے بعد لیڈر شاہی اس بندے کو بھگانے پر مجبور کردیتا ہے، اور کہنے کو ہم مسلمان بھی ہیں، نمازیں بھی پڑھتے ہیں، روزے بھی رکھتے ہیں، حج وعمرہ بھی کرتے ہیں، لیکن مجھے تو معاذ اللہ یہ سب کچھ ’’ٹک ٹاک‘‘ اور ’’پپ جی‘‘ گیم معلوم ہوتا ہے۔
تو آئیں خدا کے لیے اس ’’ٹک ٹاک‘‘ سے نکل کر ’’ٹھیک ٹھاک‘‘ ہوں، تاکہ انسان بن سکیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں خیر کی توفیق دے، آمین!
قارئین، تواربابِ اختیار خیرات مانگنے اور خیرات دینے کی دنیا سے نکل کر اپنے کام کی دنیا میں آئیں، اور عوام کے لیے کسب اور کام کے مواقع پیدا کریں۔ معیشتیں خیرات مانگنے، اور دینے سے نہیں بلکہ کام کرنے سے پنپتی ہیں، اور پروان چڑھتی ہیں اور یہی حکومتوں کی ذمہ داری ہے، یعنی ایک اچھی حکومت کی موجودگی اور فعالیت کی دلیل یہ ہے کہ اس میں کام کے مواقع ہوتے ہیں، اور لوگ کماتے رہتے ہیں۔
……………………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔