خلیجی ممالک اور ملایشیا میں کام کرنے والے 50 لاکھ سے زائد پاکستانیوں میں سے لاکھوں کی تعداد میں چھٹی پر آنے والے افراد کے ویزوں کی میعاد ختم ہوگئی۔ ان ممالک کی حکومتوں کی جانب سے محنت کشوں کے ویزوں کی توسیع کے حوالے سے پالیسی وضع نہ کرنے کی وجہ سے لاکھوں محنت کش شش و پنج کا شکار ہیں۔
24 مارچ سے پہلے ان ممالک سے لاکھوں کی تعداد میں محنت کش چھٹی پر پاکستان آئے تھے۔ معمول کے مطابق موسمِ گرما اور عید کے دنوں میں زیادہ پاکستانی محنت کش چھٹی پر آتے ہیں۔ امسال چھٹی پر آنے والے افراد کورونا وائرس، لاک ڈاؤن اور پروازوں کے معطل ہونے کی وجہ سے پھنس کر رہ گئے۔ یوں ان کے ویزے ایکسپائر ہوگئے۔ چھٹی پر آنے والے افراد کے علاوہ ایک لاکھ سے زائد افراد پہلی دفعہ بیرونِ ملک جانے والے تھے جن کے ویزے لگ چکے تھے۔ مےڈیکل، پروٹیکٹر (بیمہ)، ٹکٹ سب کچھ کلیئر ہوگیا تھا، مگر اب لاک ڈاؤن کی وجہ سے ان کے ویزے اور ٹکٹ زائد المیعاد ہوگئے ہیں۔ ان ممالک میں جانے والے محنت کش کم از کم8 ہزار ریال (3 لاکھ 60 ہزار پاکستانی روپے) کے عوض ویزہ خریدتے ہیں۔ 20 ہزار روپے مےڈیکل، 7 ہزار روپے پروٹیکٹر اور تقریباً اُس وقت 80 ہزار روپے کا ٹکٹ خریدتے تھے۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ایسے افراد جو پہلی بار جارہے تھے، کی تعداد ایک لاکھ سے زائد ہے۔ ان سب کے ویزے ختم ہوگئے ہیں۔ زیادہ تر افراد ان ممالک میں جانے کے لیے قرض لیتے ہیں۔ وہاں جاکر محنت مزدوری کرکے قرض واپس کرتے ہیں۔ پروموٹرز کے مطابق ان ممالک میں موجود زیادہ لوگ لیبر ہیں اور وہاں لاک ڈاؤن کی وجہ سے سے موجود 50 فیصد سے زائد پاکستانی بے روزگار ہوچکے ہیں۔ وہ بھی واپس آنا چاہتے ہیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ان ممالک میں جو لوگ ورک ویزے پر جاتے ہیں، ان کی سب سے بڑی تعداد سعودی عرب میں ہے، جہاں پر پاکستانیوں کی تعداد 26 لاکھ سے زائد ہے۔
متحدہ عرب امارات میں 15 لاکھ سے زائد، اومان میں 2 لاکھ 30 ہزار سے زائد، قطر میں 1 لاکھ 25 ہزار سے زائد، بحرین میں 1 لاکھ 17 ہزار سے زائد، کویت میں 1 لاکھ سے زائد اور ملیشیا میں بھی پاکستانی محنت کشوں کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ ان محنت کشوں میں خواتین بھی شامل ہیں۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق خلیجی ممالک میں کام کرنے والے پاکستانی محنت کش ہر سال 24 ارب ڈالرز قانونی طریقے (بنک) سے اور 8 ارب ڈالر (ہنڈی) غیر قانونی طریقے سے پاکستان ارسال کرتے ہیں۔ موجودہ صورتحا ل میں یہ زرِ مبادلہ آدھے سے بھی کم ہوگیا ہے، جس کی وجہ سے ملکی خزانے کو بھی نقصان پہنچ رہا ہے۔
سعودی عرب سے آکر پھنسنے والے ایک شخص نے بیوی بچوں کو قتل کرکے خودکشی کی تھی۔ سعید اللہ ساکن مٹہ جو چھٹی پر آیا تھا، اس کا ویزہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے ختم ہوگیا تھا۔ مبینہ طور پر والد کی جانب سے بے روزگاری کے طعنوں کے بعد26 جون کو اس نے بیوی بچوں کو کمرے میں بلایا۔ پہلے اپنی 27 سالہ بیوی، پھر سات سالہ بیٹے عبدالسلام، پھر پانچ سالہ بیٹی گلالئی کو فائرنگ کرکے قتل کیا، اور بعد میں فائرنگ کرکے اپنی زندگی کا چراغ بھی گل کر دیا۔
’’پروموٹرز ایسوسی ایشن‘‘ نے موجودہ صورتحال سے وزیر اعظم عمران خان اور معاونِ خصوصی زلفی بخاری سے بار بار ملاقات کے لیے وقت مانگا، تاکہ وہ لاکھوں پاکستانی محنت کشوں کی حالت سے باخبر ہو جائیں، لیکن انہوں نے پروموٹرز سے ملاقات نہیں کی۔ پروموٹرز کے مطابق پاکستان میں حکومت نے ان کو 4 ہزار 2سو لائسنس جاری کیے ہیں جن میں 2 ہزار 3 سو پروموٹرز زیادہ فعال ہیں۔ تمام پروموٹرز کا کاروبارختم ہوگیا ہے۔ ان دفاتر میں براہِ راست کام کرنے والے 25 ہزار سے زائد افراد بے روزگار ہوچکے ہیں، اور پروموٹرز کے دفاتر کو تالے لگ گئے ہیں۔ان ممالک میں محنت مزدوری کرنے والے بیشتر محنت کشوں نے دو سال قبل اپنے خرچ پر آکر انتخابات میں ووٹ دیا تھا، ’’ریاستِ مدینہ‘‘ کے قیام میں اپنا حصہ ڈالا تھا اوراپنے ہی خرچہ پر واپس گئے تھے!
(تحریر میں شامل اعداد و شمار پاکستان اوورسیز ایمپلائمنٹ ایسوسی ایشن یونائٹےڈ کے صوبائی صدر سید افضل شاہ اور متعلقہ سرکاری ویب سائٹوں سے حاصل کیے گئے ہیں)
…………………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔