اکثر اوقات سوچ میں پڑ جاتا ہوں کہ کس طرح فردِ واحد نے ایک ترقی یافتہ ریاست کی بنیاد رکھی۔ ایک ایسی ریاست جو سوات، شانگلہ، بونیر بشمول کوہستان کے علاقوں پر مشتمل تھی جس کو آج کی نسبت بہت کم وسائل میسر تھے، مگر پھر بھی ان میں سکولوں، کالجوں اور ہسپتالوں کی بھرمار تھی۔ دور درازکے علاقوں کو سڑکیں بچھائی گئی تھیں۔ یہ سوات کے عوام کی بدقسمتی ہے کہ ادغام کے بعد ریاست کو سیاسی دلدل میں دھکیل دیا گیا۔ اب تو ریاست ختم ہوچکی ہے اور مختلف اوقات میں ان علاقوں کو ضلعوں میں تقسیم کیا گیا ہے جو آج ضلع سوات، بونیر، شانگلہ اور کوہستان کی شکل میں موجود ہیں اور ہر ضلع کو حلقوں میں تقسیم کیا گیا ہے جس میں صرف سوات میں سات صوبائی اسمبلی اور دو قومی اسمبلی کے ممبران مسائل کے حل کیلئے منتخب کئے جاتے ہیں، مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ممبرانِ اسمبلی کی فوج ظفر موج کئی برسوں میں ریاستی دور کے ایک شخص کے مقابلے میں ایک چوتھائی کام بھی نہیں کر سکے ہیں۔
جس طرح سب کو معلوم ہے کہ ریاستی دور کے بعد سوات کے معاملات سیاسی لوگوں کے ہاتھوں میں آئے۔ یہاں کی ترقی سیاسی جماعتوں کے منتخب ممبران کے ہاتھوں لکھی گئی۔ اس لئے عوام کو اب لازمی طور پر سیاسی نمائندوں کو ووٹوں کے ذریعے منتخب کرنا ہوتا ہے۔ کیوں کہ اسمبلیوں سے یہ ممبران صاحبان اپنے اپنے حلقوں کے مسائل ختم کرنے کیلئے فنڈز وصول کرتے ہیں، مگر افسوس کے مسائل بڑھتے گئے اور اب اس حدتک بڑھ گئے ہیں کہ آج سوات کی سڑکیں کھنڈرات کی شکل پیش کر رہی ہیں۔ یہاں کا واحد ائیرپورٹ بند پڑا ہے۔ کالجوں کی کمی کی وجہ سے ہر سال ہزاروں طلبہ داخلوں سے محروم رہ جاتے ہیں۔ گیس اور بجلی کی لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے لوگ سڑکوں پر آکر احتجاج کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ قدرت کی عطا کردہ نعمت پانی سے بھی کئی علاقے محروم ہیں۔

سوات کی سڑکیں کھنڈرات کی شکل پیش کر رہی ہیں۔ یہاں کا واحد ائیرپورٹ بند پڑا ہے۔ کالجوں کی کمی کی وجہ سے ہر سال ہزاروں طلبہ داخلوں سے محروم رہ جاتے ہیں۔ گیس اور بجلی کی لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے لوگ سڑکوں پر آکر احتجاج کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ قدرت کی عطا کردہ نعمت پانی سے بھی کئی علاقے محروم ہیں۔

ضلع میں بڑھتے ہوئے مسائل اور دیگر سیاسی جماعتوں سے تنگ آکر سوات کے عوام نے گذشتہ عام انتخابات میں ایک نئی پارٹی کو ’’آزمانے‘‘ کا فیصلہ کیا۔ اس پارٹی کا منشور میرٹ، انصاف اور تبدیلی پر مشتمل تھا۔ عوام بھی یہی چاہتے تھے۔ اسی بنیاد پر سوات کے لاکھوں عوام نے اس پارٹی پر اعتماد کا اظہار کرکے چھے صوبائی اور قومی سیٹیں تحفے میں پی ٹی آئی کو دیں۔ اب لوگوں کو امید تھی کہ سوات کے ساتھ ہونی والی زیادتیوں کا اِزالہ ہوجائے گا، مگر کس کو پتا تھا کہ جن لوگوں کو ہم نے منتخب کیا ہے، انہیں صوبائی اسمبلی میں چار سال گزار کر بھی علاقے کے بارے میں بات کرنے کی توقیق نصیب نہیں ہوگی۔
خیر، یہ تو ایک حقیقت ہے، اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ گذشتہ الیکشن میں پارٹی چیئرمین نے بغیر کسی جانچ پڑتال کے ایسے لوگوں کو ٹکٹیں دیں جن کی وجہ سے آج یہ نوبت آئی ہے کہ عوام کے ساتھ ساتھ پارٹی کے کارکن بھی دلبرداشتہ ہیں۔ کارکنوں کو امید تھی کہ پارٹی میں دوبارہ ایسے فیصلے نہیں ہوں گے، جو ماضی میں ہوئے تھے، مگر افسوس اب بھی وہی پرانی صورتحال ہے جس کو آج کی تحریر میں آگے واضح کرنے کی کوشش کروں گا۔
سوات کی تمام سیاسی جماعتوں میں پاکستان تحریک انصاف واحد پارٹی ہے جس کو بلدیاتی انتخابات میں بغیر کسی اتحاد کے اتنی سیٹیں ملیں کہ سوات کی دیگر ساری جماعتوں کو ضلع نظامت کے الیکشن میں متحد ہونا پڑا۔ چھے جماعتوں کے اتحاد سے مخلوط ضلعی حکومت کا قیام ممکن ہوا۔ یہ سب کچھ تحریک انصاف کی ضلعی قیادت کی ناتجربہ کاری کی وجہ سے ہوا۔ پارٹی کی تنظیم و ممبران اسمبلی(ماسوائے ایک ممبر کے جس نے بھرپور کوشش کی) میں کسی نے کوشش نہیں کی کہ جوڑتوڑ کے ذریعے آزاد ممبران یا کسی سیاسی جماعت کو ساتھ ملا کر حکومت بناسکیں۔ یہ موقع پارٹی کی ضلعی قیادت اور ممبران اسمبلی کا امتحان تھا، جس میں ان کو ناکامی ہوئی۔ وقت گزرتا گیا۔ ممبرانِ اسمبلی گلی کوچوں کی تعمیر اور ان کے افتتاح کے بیانات میں یہ سب بھول گئے کہ سوات میں بھی پارٹی کا وجود موجود ہے اور جن میں سیکڑوں کارکن موجود ہیں، ان کو کیسے متحد رکھنا ہے؟ ہر ممبر نے اپنے اپنے حلقے میں منظورِ نظر افراد اکٹھا کرکے نظریاتی کارکنوں کو مکمل طور پر نظر انداز کرکے رکھ دیا۔

گذشتہ الیکشن میں پارٹی چیئرمین نے بغیر کسی جانچ پڑتال کے ایسے لوگوں کو ٹکٹیں دیں جن کی وجہ سے آج یہ نوبت آئی ہے کہ عوام کے ساتھ ساتھ پارٹی کے کارکن بھی دلبرداشتہ ہیں۔

اگر ہم حالیہ دنوں پر نظر دوڑائیں، تو یہ واضح ہوجائے گا کہ کارکن اپنے ممبرانِ اسمبلی سے کس حد تک غیر مطمئن ہیں۔ ان کارکنوں کا تو براہِ راست عمران خان سے رابطہ نہیں۔ البتہ اکثر سوشل میڈیا کے ذریعے ممبرانِ اسمبلی کے خلاف دلوں کی بھڑاس نکالتے رہتے ہیں، مگر نتیجہ الٹ ہی نکل آتا ہے۔ ممبرانِ اسمبلی اپنے خلاف اٹھنے والی آواز کو خاموش کرنے کیلئے نظریاتی کارکنوں کو پارٹی سے ہی نکال دیتے ہیں جس کی واضح مثال انجینئر شرافت علی آزاد اور طاہر خان جیسے کارکن ہے۔ حالاں کہ ان جیسے کارکنوں نے عمران خان کے کہنے پر غیر معروف لوگوں کی الیکشن مہم چلا کر یہ ثابت کر دیا تھا کہ ہاں واقعی ہم تبدیلی چاہتے ہیں۔ مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ممبرانِ اسمبلی نے چیئرمین عمران خان کے ساتھ ساتھ کارکنوں اور عوام کی امیدوں پر بھی پانی پھیر دیا۔
میں پہلے بھی یہ بات لکھ چکا ہوں کہ پی ٹی آئی سوات میں ایک مضبوط سیاسی قوت ہے، جن میں اکثریت نوجوانوں کی ہے، مگر افسوس ان کو منتشر کردیا گیا ہے۔ اکثریت کے باوجود دن بدن پارٹی کی پوزیشن میں کمی واقع ہو رہی ہے اورعوام کے ساتھ ساتھ اپنے ہی کارکن مایوسی کا شکار ہیں۔ اس وجہ سے ہر حلقے کے اندرکئی گروپس نے جنم لے لیا ہے۔
سوات میں پی ٹی آئی کی تباہی کی کچھ اہم وجوہات ہیں جن کے بارے میں پارٹی کی مرکزی قیادت کو سوچنا ہوگا۔ ان وجوہات میں ایک یہ ہے کہ پارٹی قیادت نے منشور کے برعکس میرٹ کو بالائے طاق رکھتے ہوئے صوبائی اسمبلی کے ممبر کو ڈویژنل صدر مقرر کیا۔ ڈویژنل صدر نے بھی میرٹ کو پامال کرتے ہوئے کارکنوں کی رائے لئے بغیر ضلع سوات کیلئے ایک ایسے شخص کو صدر منتخب کیا جس کا سیاست میں کوئی تجربہ نہیں ہے۔ حیران کن اور افسوسناک بات یہ بھی ہے کہ ابھی تک پی ٹی آئی کی ڈویژنل اور ضلعی اجلاس تک منعقد نہیں ہوئی جس کی بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ تنظیمی امور چلانے والے لوگ ممبران اسمبلی ہیں جو صرف اپنے حلقوں میں آنے والے الیکشن کیلئے مہم چلا رہے ہیں۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اس پارٹی کے ممبرانِ اسمبلی صرف ٹکٹ کی حد تک پارٹی میں موجود ہیں۔ حالاں کہ اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ تنظیم کے بغیر پارٹی کی کوئی حیثیت ہی نہیں۔ سوات سے منتخب شدہ صوبائی اسمبلی کے ممبران میں صرف ڈاکٹر حیدرعلی واحد شخص ہے جو سیاست کا وسیع تجربہ رکھتا ہے اور جوڑ توڑ کا ماہر بھی مانا جاتا ہے، مگراس کوبھی صرف اسی بنیاد پر سائیڈ لائن کر دیا گیا ہے کہ پارٹی چیئرمین عمران خان کی نظر اس کی اہلیت اور وفاداری پر پڑ چکی تھی۔ روز بروز بڑھتی ہوئی قربت کی وجہ سے ایک طاقتور ایم این اے نے دیگر ممبران اسمبلی سے مل کر لابنگ کے ذریعے اس ممبر کو اب اپنے حلقے تک محدود کر دیا ہے، جس کی تصدیق پارٹی کے اندورنی ذرائع بھی کر رہے ہیں۔

حیران کن اور افسوسناک بات یہ بھی ہے کہ ابھی تک پی ٹی آئی کی ڈویژنل اور ضلعی اجلاس تک منعقد نہیں ہوئی جس کی بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ تنظیمی امور چلانے والے لوگ ممبران اسمبلی ہیں جو صرف اپنے حلقوں میں آنے والے الیکشن کیلئے مہم چلا رہے ہیں۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اس پارٹی کے ممبرانِ اسمبلی صرف ٹکٹ کی حد تک پارٹی میں موجود ہیں۔

یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ عمران خان موصوف صوبائی وزیر بنانے کے حق میں تھے، مگر ممبرانِ اسمبلی کی مخالفت کی وجہ سے بات آگے نہ بڑھ سکی۔ حالاں کہ سب جانتے ہیں کہ ہر مسئلے میں موصوف نے پارٹی کی بہتر ترجمانی کی۔ یہاں تک کہ اس نے شانگلہ سے تعلق رکھنے والے امیر مقام جیسے شخص (جو سوات میں ہر صورت کامیابی چاہتا ہے) کے ساتھ بھی سیاسی زورآزمائی کی اور کسی حد تک کامیاب بھی ہوا۔
میری کارکنوں سے اس سلسلے میں کئی بار بات چیت بھی ہوئی اور ان کے اصرار پر کالم لکھا۔ کارکنوں کی اکثریت ضلعی قیادت کو ناتجربہ کار قرار دے رہی ہے اور پارٹی چیئرمین سے اس معاملے پر نظرِ ثانی کی اپیل بھی کی ہے جبکہ سیاسی ماہرین کا بھی کہنا ہے کہ ضلع سوات میں اے این پی، پی پی پی، جماعت اسلامی اور پاکستان مسلم لیگ جیسی پارٹیوں کے سامنے نہایت ہی ناتجربہ کار تنظیم کو سامنے لایا گیا ہے، جس سے آنے والے الیکشن میں تحریک انصاف کی پوزیشن پر کافی اثر پڑ سکتا ہے۔
لہٰذا اب ضرورت اس امر کی ہے کہ پارٹی چیئرمین حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے ملاکنڈ ڈویژن خصوصاً سوات میں ایسی تنظیم کو سامنے لائیں جو کارکنوں کو متحد کرسکے اور ہر علاقے کی تنظیم کو فعال بناسکے۔ ایسا نہ ہو کہ آنے والے الیکشن میں ماضی کی غلطیاں دہرا کر دیگر جماعتوں کے مقابلے میں پی ٹی آئی کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑے۔