90 کی دہائی میں جب انتخابات ہورہے تھے، تو نواز شریف نے بے نظیر بھٹو پر تین بڑے الزامات لگائے۔ پہلا، یہ گستاخِ رسول ہے۔
دوسرا ،یہ بھارت کے مفاد کے لیے کام کرتی ہے۔
تیسرا، ان کی وجہ سے ملک میں بے تحاشا کرپشن شروع ہوئی ہے اور ادارے تباہی کے دہانے پر کھڑے ہیں۔
حل یہ پیش کیا گیا کہ جب تک اس ملک دشمن پارٹی کو نیست و نابود نہیں کیا جاتا، تب تک پاکستان ترقی کی راہ پر گامزن نہیں ہوسکتا۔
الیکشن مہم زوروں پر چلی ’’آئی جے آئی‘‘ کی چھتری تلے عوام نے نواز شریف کو کامیاب کرایا۔ مختلف الزامات لگے کہ نواز شریف کو ڈنڈے کے زور پر اقتدار تک پہنچایا گیا ہے، لیکن موصوف کا تخت پر بیٹھنا تھا، شان سے بیٹھ گئے۔ اب ضروری یہ تھا کہ بے نظیر پر جتنے الزمات لگائے گئے تھے، ان سے خود کو یا تودور رکھتے، یا ہمت کرکے اداروں سے تحقیقات کرواتے، لیکن ایسی کوئی کوشش نہیں کی گئی۔ کیوں کہ اصل مقصد پاکستان کی سالمیت اور بقا نہیں بلکہ کسی بھی طرح خود کو اقتدار تک پہنچانا تھا ۔
نواز شریف جب تخت پر براجمان ہوئے، تو استحکام لانے کی بجائے اپنوں کو نوازنے اور بادشاہی کرنے میں لگ گئے۔ ان پربھی الزامات لگنا شروع ہوئے۔ خاص طور پر دائیں بازو کی قوتوں نے ان کو نشانے پر رکھا اور اسی طرح ملک اور ادارے ڈوبتے رہے، لیکن اقتدار کو سب کچھ سمجھنے والے چین کی نیند سوتے رہے ۔
نواز شریف کوکھلی چوٹ نہیں دی گئی، بلکہ اس پردباؤ بڑھ گیا۔ اپوزیشن لیڈر بے نظیر بھٹو کے لیے یہ ایک بہترین موقع تھا حساب برابر کرنے کا، تبھی تو اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کا اعلان کیا۔ لانگ مارچ تو کامیاب نہیں ہوا، لیکن محلاتی سازشوں نے اپنا جادو خوب دکھایا، جو الزمات لگا رہے تھے وہ چند سال پہلے حکومت میں تھے، لیکن بقولِ شہباز شریف ’’ہمیں اگر موقع دیا جاتا، تو ہم ملک کی کھایا ہی پلٹ دیتے!‘‘
یہاں سے باریاں لینے کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ ایک حکومت میں آتا، تو دوسرا دردِ سر بن جاتا اور اس اختلاف کی ایک لمبی تاریخ ہے۔ ان دو پارٹیوں نے ہمیشہ ایک دوسرے کو ٹف ٹائم دیا۔ دائیں بازو کی قوتوں نے اپنے مفاد کا خیال کیا، جہاں انہیں لگا ان کا مفاد ہے، وہاں لنگر انداز ہوئے۔ آج تک تاریخ کے بہت کم صفحوں پر پاکستان کا مفاد دیکھنے کو ملتا ہے۔ آپ حیران ہوجائیں گے جب بے نظیر اور نواز شریف کے سیاسی اختلافات کو ذاتی دشمنی تک پہنچتا ہوا دیکھیں گے جس کا نقصان آج تک ہم اٹھا رہے ہیں۔ یہ کبھی ایک نہیں ہوئے، لیکن جہاں ان کو ذاتی فائدے نظر آئے، یہ یک جاں و دو قالب بن گئے۔
سوال یہ ہے کہ یہ دو پارٹیاں تو کبھی ملک کو استحکام کی طرف لے کر نہیں گئیں، لیکن اب تو پاکستان تحریک انصاف کی باقاعدہ حکومت ہے جس کے بارے میں یہی سننے میں آیا ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جن کے دامن پر کوئی داغ ہے ہی نہیں۔ کامیاب تو یہ بھی نظر نہیں آرہے۔ ملک میں غربت عام ہے۔ بے روزگاری عروج پر ہے، اور قرضوں کا بوجھ پہلے کی طرح اب بھی غریب عوام کے کندھوں پر موجود ہے۔ اس کی دو وجوہات ہوسکتی ہیں۔
٭ یا تو اس بار بھی اپوزیشن میں موجود لوگ حکومت کو ناکام کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔
٭یا یہ مکمل نااہل لوگ ہیں۔
وزرا کے مابین اختلافات، عوام کے ساتھ رابطوں کا فقدان اور ہوم ورک کی عدم دستیابی یہ وہ عوامل ہیں جن کی وجہ سے حکومت کچھ بھی ڈیلیور کرنے میں ناکام ہے ۔
یہ سوال اپنی جگہ موجود رہے گا کہ اگر پچھلے ادوار میں ملک کی دو بڑی پارٹیوں نے ملک کو بے تحاشا نقصان پہنچایا، تو کیا ’’کرپشن سے پاک‘‘ پی ٹی آئی نے فائدہ دیا؟ اگر کوئی جواب میں ’’ہاں‘‘ کہہ دے، تو وہ کیا فوائد ہیں جو عام آدمی کو گھر کی دہلیز پر میسر ہیں؟
پورے منظرنامے اور پوری تاریخ کا تو گویا یہی ایک سبق ہے کہ لوگ اور چہرے تبدیل ہو رہے ہیں، لیکن عادتیں وہی پرانی ہیں ۔ اقتدار کا حصول بس ایک کھیل ہی ہے جسے برسوں سے زندہ رکھنے کے لیے عوام کا استعمال کیا جارہا ہے۔ عوام کا اجتماعی شعور کس لیول کا ہے یہ خود ایک لمبی کہانی ہے۔
نشست کا لب لباب یہ ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی نے ہمیشہ مسلم لیگ کی راہ میں روڑے اٹکائے، اور اسی طرح مسلم لیگ نے پیپلز پارٹی کے لیے مشکلات پیدا کیں۔ اب پاکستان تحریک انصاف والے برسر اقتدار ہیں، تو یہ لوگ بھی بس اس پرانی تاریخ ہی کو دہرا رہے ہیں اور کچھ نہیں ۔حکومت میں بھی بہت کم ایسے لوگ ہیں جو چاہتے ہیں کہ حقیقت میں ملک کا بھلا ہو۔ منظرنامہ سے صاف لگ رہا ہے کہ دونوں طرف سے ذاتیات کی بُو اب بھی آرہی ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ ’’رِنگ‘‘ کے اندر موجود سب پہلوان صرف اپنی بقا اور مفاد کا سوچ رہے ہیں، ورنہ کوئی اتنی مشکل تو نہیں کہ سب مل بیٹھ کر مسائل پر بات کریں۔ حکومت کے پاس یقینا کوئی لائحہ عمل موجود نہیں اور نہ ان لوگوں نے آنے سے پہلے کوئی مربوط پلاننگ کی تھی ۔حکومت کے سامنے مسائل کا انبار ہے اور یہ کوئی سرپرائز نہیں۔ کیوں کہ یہی لوگ سالوں سے چیخ رہے تھے کہ ملک تباہی کے دہانے پر ہے۔ اب حرکت ضروری ہے۔ اس بار حرکت نہیں کی گئی، تو اجتماعی طور پر مایوسی ہی مقدر بنے گی ۔
پہلے والے سب غلط تھے، تو ایسا کیا ہے جس کو دیکھ کر یہ فیصلہ کیا جاسکے کہ اب سب کچھ ٹھیک ہے؟ کیا معیشت ترقی کی طرف گامزن ہے؟ کیا نوجوانوں کو روزگار ملنا شروع ہوچکا ہے؟ کیا ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا ہنر سیاست دانوں میں آچکا ہے؟ کیا ملک کے غریبوں کے چولہے جلنا شروع ہوچکے ہیں؟ نواز شریف پیپلز پارٹی کے دور میں تباہی کا رونا روتے، لیکن جب اقتدار تک پہنچ جاتے، تو حالات اور بھی بگڑ جاتے، اسی طرح بے نظیر بھٹو مسلم لیگ کے دور میں ساری خرابیوں کا ذمہ دار نواز شریف کو ٹھہراتی اور جب خود تختِ اسلام آباد پر براجمان ہوجاتی، تو حالات اور بھی خراب ہوجاتے ۔ کیا آج بھی وہی تاریخ نہیں دہرائی جا رہی ؟
سوال خود سے پوچھیے اور خود ہی جواب ڈھونڈیے۔ اس بار جواب ضروری ہے۔ کیوں کہ پاکستان کو حقیقت میں جواب کی ضرورت ہے۔
…………………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔