یہ کہنا صحیح نہیں ہے کہ انگریزوں نے ہندوستان پر بغیر کسی مزاحمت کے قبضہ کرلیا۔ انہیں ہر علاقے پر قبضے کے لیے جنگ لڑنا پڑی۔ یہ مزاحمت افراد نے بھی کی اور علاقے کے لوگوں نے بھی کی۔ اس لیے جب برطانوی سامراج کے خلاف جد و جہد ہوئی، تو مزاحمت کرنے والے یہ افراد ہندوستان کی تاریخ میں ہیرو بن کر آئے۔ خاص طور سے 1857ء کی جنگِ آزادی میں جنہوں نے برطانوی اقتدار کی مزاحمت کی۔ مزاحمت کی اس تاریخ میں اس مفروضہ کو غلط ثابت کیا گیا کہ اہلِ ہندوستان نے انگریزی اقتدار کو خوش آمدید کہا اور اسے خوشی سے تسلیم کرلیا۔
وانینا (Vanina) نے اپنی کتاب ’’سولہویں صدی سے اٹھارویں صدی تک ہندوستانی معاشرہ اور نظریات‘‘ میں اس پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا ہے کہ مغل زوال کے بعد ایک تو وہ ریاستیں تھیں کہ جو مغلوں کی وارث تھیں۔ ان میں حیدر آباد، اودھ اور بنگال قابلِ ذکر ہیں۔ ان ریاستوں نے سوائے بنگال کے انگریزوں کی معمولی سی مزاحمت کی، ورنہ ان کی بالادستی کو تسلیم کرکے حکمران طبقوں نے اپنی مراعات بحال کرلیں۔
دوسری قسم میں مرہٹوں اور سکھوں کی ریاستیں تھیں کہ جنہوں نے انگریزوں سے سخت مقابلہ کیا اور خوں ریز جنگوں کے بعد ہتھیار ڈالے اور پھر ان کے اقتدار کو تسلیم کیا۔
تیسری قسم میں میسور کی ریاست آتی ہے کہ جہاں حیدر علی اور ٹیپو سلطان نے جدید اصلاحات کیں اور میسور کو ایک جدید ملک بنا دیا۔ اسی وجہ سے انگریز سب سے زیادہ اس سے خوف زدہ تھے۔
ٹیپو سلطان اس قابل تھا کہ وہ انگریزوں سے کامیابی کے ساتھ مقابلہ کرسکے۔ اس کی طاقت سے نہ صرف انگریز خوف زدہ تھے بلکہ مرہٹہ اور نظام حیدر آباد بھی، اس لیے ان تینوں کے ملاپ نے اسے شکست دی۔ مگر اس کی مزاحمت تاریخ کا ایک اہم حصہ ہے، جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہندوستان آسانی سے فتح نہیں ہوا۔
(ڈاکٹر مبارک علی کی تصنیف ’’برطانوی راج‘‘، مطبوعہ ’’تاریخ پبلی کیشنز‘‘، ساتواں ایڈیشن 2016ء، صفحہ 27، 28 سے انتخاب)