ملک بھر میں چینی آٹا بحران کے محرکات جاننے کے لیے وزیر اعظم عمران خان نے ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے واجد ضیا کی سربراہی میں دو کمیٹیاں تشکیل دیں۔ تحقیقات مکمل کرنے کے بعد ڈائریکٹر جنرل نے اپنی رپورٹ وزیر اعظم کو پیش کر دی۔ چینی انڈسٹری سے وابستہ افراد یا مافیا نے قومی خزانے کو اربوں روپے کا چونا لگانے کے بعد چینی کا مصنوعی بحران پیدا کرتے ہوئے اس کی قیمتوں میں من مرضی سے اضافہ کیا، اور عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا،جب کہ آٹے کا بحران بھی منصوبہ بندی کے تحت پیدا کیا گیا۔
رپورٹ کے مطابق سبسڈی کی مد میں ’’آر وائی گروپ‘‘ نے چار ارب، جہانگیر ترین گروپ نے تین ارب، ہنزہ گروپ نے دو ارب اسی کروڑ، فاطمہ گروپ نے دو ارب تیس کروڑ، شریف گروپ نے ڈیرھ ارب، اُمنی گروپ نے نوے کروڑ، المیزان گروپ نے نوے کروڑ، وفاقی وزیر خسرو بختیار کے بھائی نے 35کروڑ روپے کی سبسڈی وصول کی۔ مونس الٰہی اور مریم نواز کے سمدی ’’ٹو سٹار انڈسٹری گروپ‘‘ اور مسلم لیگ نون کے غلام دستگیر نے بھی اس گنگا میں اشنان فرمایا۔ پنجاب حکومت نے 2019-2014ء کے درمیان چینی برآمد پر 25 ارب روپے کی سبسڈی دی، جب کہ اس عرصہ میں 16 روپے فی کلو اضافہ کر کے دوہرا فائدہ اُٹھایا۔
اقتصادی کمیٹی (ای سی سی) نے بے وقت دس لاکھ ٹن چینی برآمد کرنے کی اجازت دی۔ دسمبر 2018ء سے جون 2019ء تک چینی کی قیمتوں میں 16 روپے فی کلو اضافہ ہوا، اگرچہ اس عرصہ کے دوران کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا گیا۔
سیکرٹری فوڈ سیکورٹی نے چینی برآمد کرنے پر تحفظات کا ا ظہار کیا تھا۔ فوڈ سیکورٹی اور ریسرچ کی جانب سے اقتصادی رابطہ کمیٹی کو گندم کی خریداری کی صورتِ حال سے باخبر رکھا گیا۔ گندم اور آٹے کے بحران میں فلور ملز ایسوی ایشن کی ملکی بھگت ہے۔ مسابقتی کمیٹی کی کارکردگی بہت سست ہے۔ 27 ارب روپے جرمانے میں صرف 3 کروڑ 33 لاکھ روپے جرمانہ وصول کیا گیا۔ رپورٹ کے مطابق سندھ نے گندم نہیں خریدا۔ پنجاب نے خریداری میں تاخیر کی۔ خیبر پختونخوا کے اس وقت کے سیکرٹری اور ڈائریکٹرفوڈ ڈیپارٹمنٹ نے گندم کی خریداری میں تاخیر کی۔ خیبر پختونخوا میں گندم کی خریداری کا ٹارگٹ پورا نہ کرنے کے وزیرِ خوراک قلندر لودھی، سیکرٹری فوڈ اکبر خان اور ڈائریکٹر سادات حسین ذمہ دارہیں جس کی وجہ سے 70 تا 80 روپے فی کلو آٹا مہنگا ہوا، اور اقتصادی رابطہ کمیٹی نے 3 لاکھ ٹن گندم درآمد کرنے کی اجازت دی، تاہم درآمد شدہ گندم کے آتے آتے مقامی سطح پر گندم کی فصل تیار ہوچکی ہوگی۔
قارئین، رپورٹ کے سامنے آتے ہی پنجاب کے وزیر خوراک سمیع اللہ چوہدری نے استعفا دے دیا۔ یہ بھی خیال ظاہر کیا جارہا ہے کہ بحران پیدا کرنے کے ذمہ دار مشیرِ خزانہ عبدالحفیظ شیخ اور وفاقی وزیر عبدالرزاق داؤد ہیں۔ تحریکِ انصاف نے وزیر اعظم عمران خان کے رپورٹ جاری کرنے کے فیصلے کو تاریخ قرار دیا ہے۔ کیوں کہ ماضی میں سیاسی قیادت، ذاتی مفادات اور سمجھوتوں کی رسم کی وجہ سے ایسی اخلاقی جرأت سے محروم رہی ہے۔ دوسری طرف اپوزیشن کا کہنا ہے کہ رپورٹ میں کوئی نئی بات نہیں، اور یہ لیک ہوئی یا لیک کی گئی، تو عمران خان کو مجبوراً جاری کرنا پڑی۔
حزبِ اختلاف کے مطابق جہانگیر ترین، وفاقی وزیرخسرو بختیار اور تحریک انصاف کے دیگر ارکان پریہ الزامات پہلے بھی لگتے رہے ہیں، لیکن وزیر اعظم عمران خان اس کی ترید کرتے ہوئے سب کی صفائیاں پیش کر تے رہے ہیں۔
رپورٹ بارے جہانگیر ترین کا کہنا ہے کہ رپورٹ سیاسی ہے۔ اسے بنانے والوں کو مارکیٹ کا علم نہیں۔ سبسڈی کوئی نئی بات ہے اور نہ کوئی جرم۔ میر ے خلاف سازش کی گئی ہے۔ چھے ماہ سے وزیر اعظم کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان سے اختلافات ہیں۔ملک میں کاروبار کو جرم نہ بنایا جائے۔ پارٹی کے آدھے ارکان میرے خلاف ہیں۔ عمران خان اور واجد ضیا کو کسی نے دھمکی نہیں دی۔ عمران خان کے ساتھ پہلے جیسے تعلقات نہیں رہے۔ اور بھی 74 شوگر ملیں ہیں۔ ان سے بھی سبسڈی کے بارے میں سوال پوچھنا چاہیے۔
اس موقع پر وزیر اعظم عمران خان نے وزرا کے قلم دانوں میں رد و بدل کی ہے، اور جہانگیر ترین کو زرعی ٹاسک فورس کی سربراہی سے برطرف کر دیا ہے، جب کہ جہانگیر ترین نے زرعی ٹاسک فورس کی سربراہی سے انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر کسی کے پاس نوٹیفکیشن ہو، تو سامنے لائے۔
قارئین، اب یہ تو جاننے والے ہی جانتے ہوں گے کہ رپورٹ لیک ہوئی ہے یا لیگ کی گئی ہے، یا پھر وزیر اعظم نے جاری کرنے کی اجازت دی ہے۔ وزیر اعظم نے 25 اپریل کو فرانزک رپورٹ آنے کے بعد قانونی کارروائی کرنے کا عندیہ بھی دیا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ رپورٹ جاری کرنے کا قدم درست اور قانون کے مطابق ہے؟ کیوں کہ رپورٹ آنے کا مطلب یہ تو نہیں ہوتا کہ نام آنے پر کوئی مجرم اور لائقِ سزا ٹھہرایا جائے۔ کیوں کہ سبسڈی دینے کا فیصلہ اقتصادی رابطہ کمیٹی، وفاقی کابینہ کی منظوری اور وزیرِ اعظم کی اجازت کے بعد دیا گیا ہوگا۔ سیکرٹری فوڈ سیکورٹی کے تحفظات کے باوجود سبسڈی اورچینی برآمد کرنے کی اجازت دینے والے بھی، تواتنے ہی ذمہ دار ہیں جتنے سبسڈی حاصل کرنے والے۔ چینی اور آٹے کا کار و بار کرنے والوں پر جرم ثابت کرنا کوئی آسان کام نہیں۔ قانونی ماہرین بھی یہی کہتے ہیں۔ کیوں کہ انہوں نے سبسڈی قانون کے مطابق حاصل کی۔ چینی اور آٹا مافیاکے ہاتھ بہت لمبے ہوتے ہیں اور ہر حکومت میں سبسڈی حاصل کرتے رہے ہیں اورکرتے رہیں گے۔
وزیر اعظم نے وفاقی کابینہ میں رد و بدل کردی، لیکن یہ مسئلے کا حل تو نہیں۔ ہاں، یہ عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ضرور ہے۔ سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیو میں شہزادہ عالم گیر نے بہت بڑا دعویٰ کیا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان شوگر اور آٹا مافیا کے خلاف کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہیں، جس کے لیے عمران خان نے اسمبلی ختم کرنے کی سمری پہلے سے تیار کرکے صدرِ مملکت کو بھیج دی ہے، تاکہ تحریکِ عدم اعتماد آنے سے پہلے قومی اسمبلی کی چھٹی کر دی جائے۔ کیوں کہ تحریکِ عدم اعتماد کے بعد وزیر اعظم، صدر کو ایسا مشورہ نہیں دے سکتے۔ شائد عمران خان وہ مجاہد بننے جا رہے ہیں جس کا ذکرجوش و جذبہ پیدا کرانے کے لیے ایک فوجی ترانے میں کیا گیا ہے کہ
اے مردِ مجاہد جاگ ذرا
اب وقتِ شہادت ہے آیا
خدا کر ے کوئی ایسا مردِ مجاہد بھی پیدا ہو جو اس قوم کو سماج دشمن عناصر سے نجات دلا دے۔
………………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
