مکافاتِ عمل

کرونا جرثومہ نے جہاں تمام عقائد، مسالک، نظریات اور ہر قسم کے موجودہ تہاذیب، رسومات اور تاریخی، سماجی، سیاسی اور مذہبی خوش فہمیوں اور غلط فہمیوں کو آشکارہ کیا، وہاں اس نے نوعِ انسانی کا کرۂ ارض پر مزید زندہ رہنے کی صلاحیت اور گنجائش پر سوالات کو بھی جنم دیا ہے۔ ان سوالات کے جوابات ضرور ہوں گے، تاہم غور و خوص کی ضرورت ہے۔
ہمارے ہاں تو آغاز ہی سے اس وائرس کو غیر مسلموں کے لیے ’’عذابِ الٰہی‘‘ قرار دے کر اپنے مذہبی عقیدوں، مراسم اور سرگرمیوں کوان جراثیم کا علاج قرار دے دیا گیا۔ ساتھ چائینہ کے عوام کے تاریخی عقائد، طرزِ زندگی اور طرزِ معاشرت کو لعن طعن کانشانہ بنایا گیا۔ بغیر تحقیق کے چائینہ کے خلاف دورغ گوئی سے کام لے کر کہا گیاکہ یہ وائرس خود چائینہ نے تخلیق کیا ہے۔ ساتھ یہ بھی کہا گیا کہ وائرس سے چائینہ میں اموات کی تعداد لاکھوں میں ہے، لیکن چینی حکومت حقائق چھپا رہی ہے۔ اس موقع پر ہر تیسرا چوتھا انسان مفتی، حکیم یاڈاکٹر بن گیا۔دنیا میں کوئی شے شائد ہی باقی بچی ہو جس کو بطورِ علاج تجویز نہ کیا گیا ہو۔ لوگوں کو خواب اور خواب میں علاج، وظیفے، نسخے اور تدابیر مرحمت فرمائی گئیں۔ یہ صرف ہمارے ملک کا حال نہیں بلکہ ہم جیسے بیشتر ممالک میں اس سے ملے جلے جذبات، احساسات اور ردِ عمل ملاحظہ کیا گیا۔
اس صورتِ حال میں چین کے عوام، ادارے اور حکومتی مشینری کن حالات سے گزر رہی تھی ، اس کا اندازہ شائد ہم سب کو ابھی تک نہیں ہے، مگر ہم نے دیکھا کہ چائینہ کے عوام اور حکومت نے مل کر موجودہ دنیا کی تاریخ کی سب سے خطرناک آفت کو شکست دی۔ لیکن جرثومہ پھیل گیا اور اُن گلیوں تک پہنچ گیا جہاں سے بے سرو پا تنقید ہو رہی تھی، اور اپنے عقیدے کی تقلید کو اس موذی جرثومہ کا واحد حل پیش کیا گیا۔
جرثومہ کا چائینہ سے نکلنا تھا کہ دنیا میں کہرام مچ گیا۔ مذاہبِ عالم نے اپنے مقدس مقامات کو مذہبی سرگرمیوں کے لیے بند کردیا اور لوگوں کو سماجی طور پر ایک دوسرے سے دور رہنے کی تلقین شروع ہوئی۔ اطبا، حکما، ’’مذہبی نسخہ دان‘‘ اور خواب دیکھنے دکھلانے والے سب اپنے اپنے گھروں تک محدود ہوگئے۔ کلیسا ہو، یا مندر، مسجد ہو یا معبد، جہاں شفا اور حفاظت کا وعدہ تھا، وہاں جانے پر پابندی لگی، تاکہ مصیبت میں اضافہ نہ ہو۔
مذہبی رسومات ادا کرنے والے پیغامات میں شائد پہلی مرتبہ تبدیلی کی گئی، اور بجائے لوگوں کو جائے فلاح بلانے کے، گھروں میں رہنے کا کہا گیا۔ بازار سنسان اور گلیاں ویران ہیں۔ زندگی کی رمق ماند پڑی ہوئی ہے۔ عملی طور پر کسی کو اپنی مذہبی رسومات اور عقیدوں پر بھروسا رہا، نہ ماہرین کو اپنے نظام پر یقین۔
دوسری طرف آزاد خیال اور روشن فکر طبقے کے ایک حصے نے اطبا،حکما اور مذہبی نسخہ دانوں کے بے جا اور بے مقصد مشوروں اور نسخوں کو دیکھ کر اپنے اعتقادات، نظریات اورفلسفوں کے مقدم اور سچے ہونے کی تبلیغ میں لگ گئے۔ ’’غیر لبرل طبقات‘‘ کو لعن و طعن کا سامنا کرنا پڑا اور یہ صورتِ حال بدستور جاری ہے۔
اس طرح غریب عوام کا خون چوسنے والے عطائیوں کو اپنی مہارت پر بھروسا نہ رہا، لیکن ایسے میں انسانوں کا ایک بہت بڑا حصہ بلاتفریقِ رنگ ونسل اور مذہب و ملک ایسا بھی ہے جنہوں نے موقع کو غنیمت جانا ہے، اور مال بنانے کے چکر میں کیا کیاکر رہے ہیں، سب جانتے ہیں۔
اس وبا سے نمٹنے کے لیے اس دنیا کا ہر بندہ اپنے مزاج اور فکر کے مطابق افکار تخلیق کر رہا ہے۔ اس دور میں جس کو دورِ جدید کہا جاتا ہے، انسانی ترقی، دینی او دنیاوی تعلیمی مراکز، صحت کی سہولتوں، شان دار شاہراہوں اور عالی شان عماراتوں کی تعمیر اور آسائشوں کی فراہمی کے نام پر سرمایہ بڑھایا جا رہا ہے۔ آج کے انسان نے لامحدود خواہشات کو اپنا لازمی حق سمجھتے ہوئے وسائل کے بے دریغ استعمال کو ضرورت تصور کیا ہے، تاکہ عزت، شہرت، طاقت، قبضہ، مذہب و سیاست برقرار ہو، اور سرمایہ بڑھتا رہے۔
ہم نے تقریباً ہر طبقہ اور نظریہ کے اکابرین و معتقدین کو ـ’’مکافاتِ عمل‘‘ کا لفظ بولتے ہوئے سنا ہوگا، مگر شائد بہت کم لوگوں نے اسے بحیثیتِ بنی نوعِ انسان سمجھا ہو۔ چاہے ہمارا کوئی بھی عقیدہ ہو، اس کرۂ ارض کو ماں دھرتی مانتے ہیں، لیکن عملاً ہم اپنی ہی ماں کے دشمن ہیں۔ جس طرح انسان اپنے آپ کو اس کرۂ ارض کا بچہ مانتا ہے، ٹھیک اسی طرح اس کرہ کے 87 لاکھ اقسام کے دیگر بچے بھی ہیں، جن میں سے انسان صرف 13 لاکھ کے مختلف اقسام کے بچو ں سے ابھی تک متعارف ہو چکا ہے۔
ہندوستان سے تعلق رکھنے والی فلسفے اور روحانیات کی ماہر ’’پریتا کرشنا‘‘ کہتی ہیں کہ دنیا پر بسنے والے جس بھی نوع نے تجاوز کیا، قدرت نے اسے فنا کردیا۔ کیوں کہ وہ سب کے لیے مفید نہیں تھا، جن میں کرۂ ارض پر 20 لاکھ سال رہنے والی نوع بھی شامل ہے۔
پریتا کرشنا کا کہنا ہے کہ ایک نوع دوسری کو کھا جاتی ہے کہ وہ خود زندہ رہ سکے، لیکن انسان اپنا قبضہ اور برتری قائم رکھنے اور بعض اوقات صرف اپنی خوشی کے لیے دیگر انواع کو ختم اور قتل کر رہا ہے۔ اس لیے انسان کرۂ ارض کی خاطر ’’کرونا‘‘ یا ان دیگر جرثوموں سے زیادہ خطرناک ہے، جو آج وجود نہیں رکھتے۔
ایک اندازے کے مطابق اگر کرۂ ارض پر دیگر زندہ انواع1 ملین ہیں، تو ان میں 10 ہزار سے لے کر 1 لاکھ تک کی اقسام ہر سال دنیا سے ختم ہوتی جا رہی ہیں، اور انسان پھیلتا جا رہا ہے۔ یہ کیوں؟ کیا آج کا انسان اس عمل میں ملوث ہونے کا اقرار کرنے، ’’کیوں‘‘ کا جواب تلاش کرنے اور جواب کو عملی شکل دینے کے لیے راضی ہے؟
کیا موجودہ انسان مذہبی، سیاسی، مسلکی، ملکی، نسلی، معاشی، سماجی اور دیگر امتیازات کو ختم کرسکے گا؟
کیا بنی نوعِ انسان دنیا پر مزید زندہ رہنے کی خاطر قناعت سے جینا شروع کرسکے گا؟
کیا انسان ’’تمام‘‘ یعنی ’’سب‘‘ کے لیے مفید بنے گا؟
اگر ان سوالات کا جواب نفی میں ہے، تو دیگر لاکھوں انواع مع دھرتی ماں اپنی زندگی کے تحفظ کے لیے انسان کو نیست و نابود کرنے پر تل جائیں گے، اور ان کو روکنا ناممکن ہوگا اور یہی ’’مکافاتِ عمل‘‘ ہوگا۔
…………………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔