یہ سمجھنا ضروری ہے کہ جب خان عبدالغفار خان (باچا خان) نے عدم تشدد کی پالیسی کا پرچار کیا، تو ان کا گاندھی جی سے کوئی واسطہ نہ تھا۔ یہ ان کا اپنا آزادانہ فیصلہ تھا۔ کیوں کہ وہ تشدد کو پٹھان قبیلوں کے لیے زہرِ قاتل سمجھتے تھے۔ ہندوستان کی سیاست اور کانگرس سے ان کے روابط بعد میں ہوئے۔ کیوں کہ ایک مرحلے پر آکر وہ اس کے قائل ہوئے کہ خدائی خدمت گار کی تحریک اکیلے رہ کر انگریزی حکومت کے خلاف کامیابی حاصل نہیں کرسکتی ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ اسے ہندوستان کی سیاست سے جوڑ کر جد و جہد کرنی چاہیے۔ اس لیے غفار خان نے پہلے مسلم لیگ کی لیڈر شپ سے رابطے کیے کہ وہ ان کی مدد کریں، مگر مسلم لیگ نے ان کے ساتھ تعاون کرنے میں دلچسپی نہیں لی۔ اس لیے بعد میں انہوں نے کانگرس کے لیڈروں سے بات چیت کی، تو وہ ان کی مدد کے لیے تیار ہوگئے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ خدائی خدمت گاروں کی حمایت صرف ایک علاقے تک محدود نہیں رہی بلکہ کانگرس اور اس کے لیڈر گاندھی جی اور نہرو کے ساتھ مل کر خان عبدالغفار خان کی شخصیت علاقائی سے کُل ہندوستانی ہوگئی۔
چوں کہ ان کے اور گاندھی جی کے عدم تشدد میں ہم آہنگی تھی۔ اس لیے عرفِ عام میں انہیں ’’سرحدی گاندھی‘‘ کہا جانے لگا۔
لیکن یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ انہوں نے اپنی تحریک کی آزادی کو برقرار رکھا اور کانگرس نے جب بھی مالی تعاون کی پیشکش کی، تو اسے قبول نہیں کیا۔
وہ کانگرس سے اس وقت ناامید ہوئے جب تقسیم کے وقت کانگرس نے مسلم لیگ کے اس فیصلے کو مان لیا کہ صوبے میں مجلسِ قانون ساز کی بجائے ریفرنڈم کے ذریعے لوگوں سے رائے لی جائے۔ دوسرے صوبوں میں یہ حق صوبوں کی مجلسِ قانون ساز کا تھا کہ وہ تقسیم کے حق میں یا مخالفت میں فیصلہ کریں۔ پختونخوا کی اسمبلی میں چوں کہ خدائی خدمت گاروں کی اکثریت تھی اور صوبے کے وزیر اعلیٰ ڈاکٹر خان صاحب تھے۔ اس لیے مسلم لیگ کو اندازہ تھا کہ اگر فیصلہ اسمبلی کے ایوان میں کرایا جائے گا، تو اکثریت پاکستان کی حمایت پیش کرے گی۔ اس لیے ریفرنڈم کے طریقۂ کار کو منتخب کیا گیا۔ خان غفار خان نے اس کا بائیکاٹ کیا اور اکثریت نے پاکستان کی حمایت کی۔
پاکستان کے بننے کے بعد پختونخوا کی وہ واحد اسمبلی تھی، جو تقسیم کے خلاف تھی۔ اس لیے جب قائد اعظم محمد علی جناح گورنر جنرل بنے، تو انہوں نے یہ اعلان کیا کہ وہ کوئی ربڑ سٹمپ گورنر جنرل نہیں ہوں گے۔ اس لیے 1935 ء کے دستور میں ترامیم کے ذریعے انہیں یہ اختیار دیا گیا کہ وہ کسی بھی صوبے کی اسمبلی توڑ سکتے ہیں۔ لہٰذا انہوں نے ڈاکٹر خان صاحب کی حکومت کو معزول کیا اور اسمبلی میں ان کی اکثریت کی کوئی پروا نہ کی۔
خان عبدالغفار خان کا المیہ یہ تھا کہ پاکستان بننے کے بعد انہیں شروع ہی سے ملک کا مخالف قرار دے کر ان پر الزامات لگائے گئے۔ ان کو ہندوستان کا ایجنٹ قرار دے کر ان کے سیاسی کردار کو مسخ کیا گیا اور تقسیم سے پہلے انہوں نے پختونخوا میں جو سیاسی، سماجی اور فلاحی کام کیے تھے، ان کو تاریخ سے نکال دیا گیا اور پاکستان کی تاریخ میں ان کو شامل نہیں کیا گیا۔ لیکن خاص بات یہ ہے کہ خان غفار خان نے پاکستان بننے کے بعد بھی زندگی کا بڑا حصہ پاکستان کی جیلوں میں گزارا۔
یہ ایک المیہ ہے کہ انہیں انگریزی حکومت نے بھی اپنا مخالف سمجھا اور پاکستانی حکومت نے بھی، لیکن پختونخوا میں عوام میں ان کی عزت و احترام آخر تک قائم رہا۔ ان کی خواہش کے مطابق مرنے کے بعد انہیں جلال آباد میں دفن کیا گیا۔ اس موقع پر افغانستان میں جنگ ہو رہی تھی، مگر جب ان کا جنازہ جلال آباد لے جایا گیا، تو اس موقع پر جنگ بندی کا اعلان ہوا، تاکہ امن کے ا س حامی کو جنگی ماحول سے نہ گزارا جائے۔ میرا خیال ہے کہ پختونخوا عوام کی گہری عقیدت اس سے ظاہر ہوتی ہے۔
(’’تاریخ کی چھاؤں‘‘ از ڈاکٹر مبارک علی‘‘، پبلشرز ’’تاریخ پبلی کیشنز‘‘، اشاعتِ دوم 2019ء، صفحہ 62, 63, 64 سے انتخاب)