انگریزی میں ریولوشن (Revolution) کا لفظ "Revolve” سے نکلا ہے، یعنی کسی چیز کا گردش میں رہنا، جو بھی چیز گردش میں رہتی ہے، اس کا تبدیلی سے کوئی تعلق نہیں ہوتا، لیکن اب یہی لفظ (Revolution) بنیادی تبدیلی کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ اردو میں اس کا ترجمہ ’’انقلاب‘‘ کیا جاتا ہے۔ جس کا مفہوم بھی یہ ہے کہ کسی نظام کو اُلٹ دیا جائے اور پرانی روایات کی جگہ نئی روایات کی تشکیل دی جائے۔
تاریخ میں لوگ بادشاہوں کے جبر اور سماجی پابندیوں کے خلاف آواز بلند کرتے رہے ہیں، جس کو تاریخ میں بغاوت کا نام دیا جاتا ہے۔ یہ بغاوتیں غلام، کسان، مزدور اور محنت کش طبقات کرتے رہے ہیں اور اپنے خلاف ہونے والی ناانصافیوں پر آواز بلند کرتے رہے ہیں، لیکن ان کا مقصد نظام کو تبدیل کرنا نہیں ہوتا تھا بلکہ ان کے مطالبات میں نظام کی اصلاح ہوتی تھی، تاکہ ان پر ہونے والے ظلم و ستم کا خاتمہ ہو۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ یہ بغاوتیں اکثر ناکام رہیں۔ کیوں کہ باغیوں کے مقابلے میں حکمران طبقوں کی فوج، تربیت یافتہ اور مطیع ہوتی تھی اور بغاوتوں کے خاتمے کے بعد باغیوں کو سخت سزائیں دی جاتی تھیں، تاکہ پھر کوئی تبدیلی کا نام نہ لے۔
اسلامی تاریخ میں اس کو فتنہ کہا گیا ہے کہ جو نظام کے خلاف آواز اٹھا کر اس کو امتحان میں مبتلا کرنا چاہتا ہے۔ اس سلسلے میں مصر کے مشہور عالم "Taha Hussain” کی کتاب "Al Fitna al Kubra” قابلِ ذکر ہے۔
"Revolution” کی مقبولیت فرانس کے انقلاب کے بعد ہوئی۔ امریکہ کی جنگِ آزادی کو انقلاب کا نام دینے والا "Thomas Paine” تھا جس کی دو کتابیں "Common Sense” اور "Rights of Man” مشہور ہوئیں۔ اب موجودہ زمانے میں انقلاب کو ان معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے کہ یہ اچانک اور تیزی سے تبدیلی لانے والا عمل ہے۔ اس لیے وہ قومیں جو استعماری نظام اور فرسودہ روایات میں جکڑی ہوتی ہیں، وہ انقلاب کو اپنے مسائل کا حل سمجھتی ہیں۔
(’’تاریخ کی خوشبو‘‘ از ’’ڈاکٹر مبارک علی‘‘، پبلشرز ’’تاریخ پبلی کیشنز‘‘، پہلی اشاعت، 2019ء، صفحہ نمبر 130 سے انتخاب)