میراجیؔ کی سیرت میں بیسیوں خرابیاں آگئی تھیں لیکن طبعاً وہ ایک شریف انسان تھے۔ دوستوں کے لیے دامے، درمے، قدمے، ہر طرح خدمت کرنے کو تیار رہتے تھے۔ دانشوروں کے ایک خاص حلقے میں ایک صاحب نے ایک مضمون پڑھا جو پوری اردو شاعری پر حاوی تھا۔ اس مضمون کی بہت تعریف ہوئی۔ اچنبھے کی بات یہ تھی کہ صاحبِ مضمون یوں تو پڑھے لکھے تھے، لیکن انہیں ادب و شعر کا کوئی خاص ذوق نہیں تھا۔ ہمارا ماتھا وہیں ٹھنکا تھا کہ یہ مضمون ان کا نہیں ہوسکتا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ یہ مضمون میراجیؔ کا لکھا ہوا تھا۔
شروع شروع میں جب ان کی شراب نہیں بڑھی تھی، وہ روپے پیسے سے بھی بعض دوستوں کی مدد کرتے تھے۔ تنخواہ میں سے کچھ پس انداز کرکے اپنے والد اور چھوٹے بھائی کو بھی کچھ بھیجا کرتے تھے، اور یہ چھوٹے بھائی وہی صاحب تھے جنہوں نے میراجیؔ کی تمام نظمیں چند پیسوں میں بیچ ڈالی تھیں۔ ہوا یہ کہ انہوں نے سارے گھر کی ردی کسی پھیرے والے کے ہاتھ دو تین آنے سیر کے حساب سے بیچی اور اس میں میراجی کی وہ دو ضخیم کاپیاں بھی تول دیں جن میں ان کی نظمیں لکھی ہوئی تھیں۔ میراجیؔ نے لاہور کے تمام ردی بیچنے والے چھان ڈالے مگر وہ مجموعے نہ ملنے تھے، نہ ملے۔ اس کا انہیں بے حد رنج پہنچا، اتنا کہ انہوں نے اپنا گھر اور اپنے عزیزوں کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چھوڑ دیا۔ جس گھر میں ان کے ہنر کی یہ توقیر ہو، وہ وہاں کیسے رہ سکتے تھے؟ اور جن کے ہاتھوں ان کے حاصلِ عمر کا یہ حشر ہو، بھلا وہ ان سے ملنا کیسے گوارہ کرسکتے تھے؟
گھر تو گھر انہوں نے لاہور ایسا چھوڑا کہ پھر کبھی اُدھر کا رُخ نہیں کیا۔
(انتخاب از ’’شاہد احمد دہلوی کے شاہکار خاکے ‘‘، مرتبہ ’’حکیم اعجاز حسین چانڈیو‘‘، ناشر گگن شاہد، امر شاہد،بُک کارنر، سنہ اشاعت، 2017ء، صفحہ نمبر 110 سے انتخاب)