چترال بازار سے مغرب کی جانب گرمہ چشمہ جاتے ہوئے ـ’’روجی‘‘ کے مقام پر سیدھے ہاتھ مڑیں، تو خوشبودار لکڑی کے موٹے تختوں سے بنے پل پر دریائے گرم چشمہ کے اس پار ایک انتہائی تنگ سڑک آتی ہے۔ یہ سڑک سیدھے ہاتھ مڑ کر 75 کلومیٹردور ایک ایسی جگہ ختم ہوتی ہے، جو قدرتی حسن سے مالامال ہے۔ جگہ جگہ چھوٹے پلوں سے گزرتے ہوئے صاف اور شفاف پانی اور دریا کنارے وسیع علاقے میں پھیلے سپیدے اور دیگر درختوں کے پتوں کے رنگوں کا مزہ لینا ہو، توستمبر کے مہینے میں جانا بہتر ہے۔ یہاں کا ستمبر سنہرا جب کہ انواع و اقسام کے درختوں اور پودوں کی خوشبوئیں اور بلند وبالا پہاڑوں کی سحر انگیزی قابلِ دید ہے۔ یہ علاقہ ایک طرف افغانستان کے سرحدسے لگا ہوا ہے، جب کہ دوسری طرف یہ گلگت سے جا ملتا ہے۔ مشہورِ زمانہ بلند چوٹی ’’ترچ میر ‘‘اسی وادی کے ماتھے کا جھومر ہے، جو کہ وادی کی انتہائی بالائی حصے میں ایک پُروقار انداز میں پاؤں جمایا ہوا ہے۔ چوں کہ ترچ میر کی وجہ سے واخان کے علاقوں جو اس چوٹی کے دوسری طرف واقع ہیں، پر بہت بڑا سایا بنتا ہے، اس لیے واخی زبان میں ترچ میر کا مطلب ’’سائے یا اندھیرے کا بادشاہ‘‘ ہے۔ چترالی لوگ سمجھتے ہیں کہ ترچ اس چوٹی کا سب سے قریبی گاؤں ہے، اس لیے اس چوٹی کو ترچ میر یعنی ’’ترچ کا بادشاہ‘‘ کہتے ہیں۔ سفید ارکاری سے سیدھے ہاتھ جا کر اس چوٹی کے دامن میں پہنچا جا سکتا ہے۔
ترچ میر کے علاوہ وادی میں کئی جھیلیں، آبشار، گلیشیئرز اور سرسبز چراہگاہیں جنت کا سماں پیش کرتے ہیں۔ یہاں کے پہاڑوں پر بہترین سلاجیت پایا جاتا ہے جس کا استعمال ادویہ میں بھی کیا جاتا ہے۔ وادی میں مرغِ زریں، مارخور اور جنگلی بھیڑ وں کا شکار کیا جاتا ہے۔ یہاں کے لوگوں کے گھر چھوٹے مگر مضبوط اور دل بہت بڑے ہیں۔ اس علاقے کو مجموعی طور پر ’’وادئی ارکاری‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے، تاہم وادی میں ’’سیاہ ارکاری‘‘ اور ’’سفید ارکاری‘‘ کے علاوہ ڈیڑھ درجن تک چھوٹے بڑے گاؤں دریا کے دونوں اطراف نسبتاً اونچی ڈھلوانوں پر آباد ہیں۔ اس وادی میں تقریباً بارہ ہزار نفوس رہتے ہیں جو مختلف نو بڑے خاندانوں میں تقسیم ہیں۔ علاقے کے سو فیصد بچے بلا کسی ناغہ کے سکول جاتے ہیں۔ یہاں کے لوگ اپنے لیے خود بجلی پیدا کرتے ہیں۔ سماجی طور پر بیدار یہاں کے مکین تقریباً سارے ادارے خود چلاتے ہیں۔ سرکارکی طرف سے سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ بلا ہو ’’آغا خان ڈیولپمنٹ نیٹ ورک‘‘ کا جو یہاں کے لوگوں کی زندگی آسان بنانے میں پیش پیش ہے۔ ہر گاؤں میں سماجی تنظیموں کا جال بچھا ہوا ہے جس میں خواتین کی بھر پور شرکت اس معاشرے میں سماجی انصاف کا مظہر ہے۔ اگرچہ یہ علاقہ قدرتی رعنائیوں سے مالا مال اور جنت نظیر ہے، مگر یہاں تک پہنچنے والی سڑک پر سفر کرتے وقت خون خشک ہوجاتا ہے۔اس سڑک پر جاتے ہوئے نیچے کی طرف یعنی سیدھے ہاتھ گہری کھائیاں اور بل کھاتا ہو ا دریا ہے۔ سڑک تنگ ہونے کی وجہ سے نیچے گرنے کا خطرہ بہرحال موجود رہتا ہے۔ سڑک پر الٹے ہاتھ اونچے پتھریلے پہاڑ ہیں جن سے نہ صرف چھوٹے چھوٹے پتھر گرتے ہیں، بلکہ کبھی کبھار پہاڑ کے بڑے بڑے حصے گر جاتے ہیں، جس کی وجہ سے علاقے کے لوگوں کا ملک سے زمینی رابطہ ختم ہو جاتا ہے۔ چھوٹی ندیوں پر لکڑیوں، پتھروں اور رسیوں سے بنائے گئے پلوں میں بمشکل گاڑ ی گزر پاتی ہے۔
وادئی ارکاری کے تمام حصوں میں سال بھر میں صرف ایک ہی فصل اُگتی ہے۔ کہنے کو لوگوں کی زندگی کا دار و مدار زراعت پر ہے، مگر یہاں کے زیادہ تر مکین چترال شہر یا پھر ملک کے دیگر حصوں میں رہنے اور محنت مزدوری کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ علاقے میں گذشتہ سالوں میں قدرتی آفات کی وجہ سے تباہیاں ہوئی ہیں جس کا ابھی تک کسی نے مداوا نہیں کیا ہے۔
مقامی لوگ علاقے کے بڑھتے ہوئے درجۂ حرارت سے بھی پریشان ہیں۔ علاقے کے پہاڑوں میں بڑے گلیشیرز موجود ہیں جو بڑھتے ہوئے درجۂ حرارت کی وجہ سے تیزی سے پگھل رہے ہیں ۔ گلیشیرز کے نیچے موجود جھیلیں کسی بھی وقت پھٹ سکتی ہیں جس کی وجہ سے جانی اور مالی نقصانات کا خطرہ ہر وقت لوگوں کے سروں پر منڈلا رہا ہے۔ دیر گول، سیاہ ارکاری ، رباط گول ، اویر لشٹ گول، بستی بال گول اور میرجی گرم گول سے نکلنے والی ندیوں میں سیلاب آنے سے ماضی میں لوگ شدید متاثر ہوئے ہیں۔ گرمی بڑھنے کی وجہ سے پہاڑوں پر سالہا سال سے پڑی برف بھی تیزہی سی پگھل رہی ہے جس کی وجہ سے ندیوں اور دریاؤں میں پانی کا عمومی مقدار بڑھ اور جگہ جگہ زمینی کٹاؤ کا عمل شروع ہو گیا ہے۔ 2015 ء میں ایک سیلابی ریلے نے سفید اور سیاہ ارکاری میں تباہی مچائی۔ جب کہ سفید ارکاری کے لوگوں کا پورا گاؤں ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنا پڑا۔ موسمی تبدیلی کے اثرات علاقے کی محدود زراعت پر دیکھے جا سکتے ہیں۔ مسلسل اور خطرناک حد تک تباہ کن قدرتی آفات کی وجہ سے لوگوں نے بالائی چراہگاہوں میں جانا ترک کردیا ہے جس کی وجہ سے علاقے میں مال مویشی رکھنے کا رواج ختم ہوتا جا رہا ہے۔علاقہ میں بے روزگاری زور پکڑتی جا رہی ہے۔
اس جنت نظیر وادی کے لوگ قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے مقامی وسائل اور علم و ہنر پر انحصار کیے ہوئے ہیں، لیکن قدرتی آفات اتنی بڑی اور بھیانک ہوتی ہیں کہ کوئی بھی مقامی طریقۂ تدارک کار آمد ثابت نہیں ہوتا۔
عالمی موسمیاتی تبدیلی کو اگرچہ مقامی لوگ شدت سے محسوس کر رہے ہیں، اور اپنی سمجھ اور بساط کے مطابق اقدامات بھی کر رہے ہیں لیکن صرف ان لوگوں کی کوششوں سے کچھ فرق اس لیے نہیں پڑتا کہ عالمی حدت کی بڑھوتری میں ان علاقوں کے لوگوں کا کوئی کردار نہیں۔ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے ارکاری اور دیگر سیکڑوں مقامات پر ہنگامی بنیادوں پر حفاظتی انتظامات پر کام شروع کرنے کی ضرورت ہے۔
……………………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔