"سوات تاریخ کے دوراہے پر” (اک تأثر)

کہتے ہیں کہ ایک دانا کے بقول کتابوں کی 3 اقسام ہیں: پہلی، وہ جنہیں صرف سونگھا جاتا ہے۔ دوسری، وہ جنہیں چکھا جاتا ہے اور تیسری وہ جنہیں چبایا جاتا ہے۔
میرے خیال میں ایک چوتھی قسم بھی ہے، جسے گھول کے پیا اور ہضم کیا جاتا ہے۔ آج کی نشست میں جس کتاب پر قلم اٹھانے جا رہا ہوں، وہ گھول کے پینے والی ہے۔ اس کے بعد آپ کے ہاضمہ پر منحصر ہے کہ آپ اسے ہضم کرپاتے ہیں یا نہیں! کیوں کہ اس پر سوات کے ایک ایسے ثقہ مؤرخ کا نام درج ہے جس کا حلقۂ احباب نہ ہونے کے برابر ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ جواباً ذیل میں دیے جانے والے دو شعرکافی و شافی ہیں جو بجا طور پر ان کی شخصیت پر صادق اترتے ہیں:
اپنے بھی خفا مجھ سے ہیں، بیگانے بھی ناخوش
مَیں زہرِ ہَلاہَل کو کبھی کہہ نہ سکا قند
مشکل ہے کہ اک بندۂ حق بین و حق اندیش
خاشاک کے تودے کو کہے کوہِ دماوند
قبلہ ڈاکٹر سلطانِ روم کی تصنیف ’’سوات تاریخ کے دوراہے پر‘‘ کو ادارہ شعیب سنز پبلشرز اینڈ بک سیلرز نے حالیہ زیورِ طبع سے آراستہ کیا ہے۔ یہ شعیب سنز(سوات مارکیٹ) کے علاوہ سوات کے تقریباً ہر اچھے بک سٹال پر دستیاب ہے۔ یوں تو یہ کتاب 24 متفرق مضامین، ریسرچ بیسڈ آرٹیکلز اور ایک عدد ذاتی انٹرویو پر مشتمل ہے، مگر ایک بار اسے اٹھانے والا کتاب شناس جب فہرست پر نظر ڈالتا ہے، تودوسرے ہی لمحہ اسے اپنی ذاتی لائبریری کا حصہ بنانے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا۔
’’سوات تاریخ کے دوراہے پر‘‘ کا بیشتر حصہ اُن تحقیقی مضامین پر مشتمل ہے جو پچھلے دس بارہ سالوں میں مختلف علاقائی اخبارات اور ویب سائٹس کی زینت بن چکے ہیں۔ مجھ جیسوں کے لیے تو اخبار، حالاتِ حاضرہ سے واقف رہنے کی خاطر بس ایک دن کی زندگی رکھتا ہے، لیکن ڈاکٹر صاحب جیسے محققین اخبار کا ایک ایک صفحہ سنبھال کے رکھتے ہیں اور بوقتِ ضرورت سند کے طور پر مجھ جیسوں کو عنایت بھی فرماتے ہیں۔ مذکورہ کتاب تاریخ سے شغف رکھنے والوں کے ساتھ ساتھ مجھ جیسا سطحی علم رکھنے والوں کے لیے یکساں موزوں ہے۔ یوں تو کتاب میں شامل تمام مضامین پڑھنے اور ’’کوٹ‘‘ کرنے کے لائق ہیں، مگر کچھ ایسے بھی ہیں جن کی وجہ سے اہلِ سوات کی تصحیح ہوجایا کرتی ہے۔ جیسے صفحہ نمبر 246 پر شامل ایک تحریر ’’گرَین یا گرِین چوک؟‘‘ یادش بخیر، یہ سنہ 2000ء یا اِک آدھ سال آگے پیچھے کی بات ہے جب میں اپنے پھپیرے سے اس بات پر بگڑ بیٹھا کہ یہ گرِین نہیں بلکہ گرَین چوک ہے۔ دلیل کے طور پر میں وہاں قائم غلے کی دکانوں کا حوالہ دیتا اور کہتا: ’’بھئی، غلّہ کو انگریزی میں "Grain” ہی تو کہتے ہیں، اسی بنا پر اس کا نام گرَین چوک پڑا ہے۔‘‘ وہ بھی نچلا بیٹھنے والوں میں سے نہیں تھے، دلیل کے طور پر گرِین اڈّے کا ذکر چھیڑ دیتے، جہاں آج کل اقبال پلازہ کھڑا ہے۔ اس گتھی کو قبلہ ڈاکٹر سلطانِ روم صاحب زیرِ تبصرہ کتاب میں محض دس صفحات میں سلجھا چکے ہیں۔

شعیب سنز پبلشرز اینڈ بک سیلرز کا حالیہ شائع شدہ "سوات تاریخ کے دوراہے پر” کا ٹائٹل۔ (فوٹو: فضل ربی راہیؔ)

ایک مضمون ’’سوات میں خان و مَلَک سسٹم‘‘ بھی قابلِ ذکر ہے۔ جتنا مجھے یاد پڑتا ہے مذکورہ تحریر ڈاکٹر صاحب نے محترم فضل رازق شہابؔ کی تحریری درخواست پر رقم کی تھی۔ شہابؔ صاحب نے کچھ اپنی یادداشت اور کچھ بزرگوں سے سنی ہوئی باتوں کی بنیاد پر ایک کالم لکھا تھا، جس کے آخر میں ڈاکٹر صاحب سے ’’خان و مَلَک سسٹم‘‘ پر کچھ رقم کرنے کی استدعا کی تھی۔ مضمون میں ’’پختو دور‘‘ کے حوالہ سے سیر حاصل تبصرہ شامل ہے۔صفحہ 125 تا 136 ملاحظہ ہو۔
سوات میں سٹیج کیے گئے ڈرامے کو جب کچھ ’’دانشوروں ‘‘نے ’’کلاس وار‘‘ کا رنگ دینے کی کوشش کی، تو اُن کے منھ پر دے مارنے کے لیے ڈاکٹر صاحب نے ایک تحریر ’’سوات کی شورش میں طبقاتی جنگ کا پہلو‘‘ کے عنوان سے رقم کی۔ اسی سلسلے کی کڑی کے طور پر ’’ناطقہ سربگریباں ہے اسے کیا کہیے‘‘ ایک اور تحریر تھی، جو مذکورہ ’’دانشوروں‘‘ کے لیے اضافی خوراک (Extra Dose) ثابت ہوئی۔ تب کہیں جاکر ’’کلاس وار‘‘ کی تشہیر کا باب بند ہوا۔ مذکورہ دونوں تحاریر کا فائدہ یہ بھی ہوا کہ آج یہ ایک سطحی علم رکھنے والے کے لیے بھی شورشِ سوات کو سمجھنے میں معاون ثابت ہوتی ہیں۔
کتاب کے صفحہ نمبر 281 پر موجود مضمون ’’چرچل کی رودادِ سوات‘‘ بلاشبہ ایک تاریخی دستاویز ہے۔ تحریر پڑھتے وقت پتا چلتا ہے کہ سوات اور پختونخوا کے کتنے بڑے بڑے لکھاریوں نے چرچل کو مردِ میدان ثابت کرنے کے لیے کیا کیا قصے جوڑے ہیں، جب کہ حقیقت یہ تھی کہ چرچل موصوف جنگ کے وقت سرے سے سوات میں تھے ہی نہیں۔ وہ جس وقت ملاکنڈ پہنچے، اُس وقت تک ملاکنڈ فیلڈ فورس سوات کی مہم ختم کرکے ملاکنڈ واپس جا بھی چکی تھی۔ یہ تحریر بھی کئیوں کا منھ چڑاتی ہے۔
دیگر مضامین میں ’’سوات: ایک تنقیدی جائزہ‘‘، ’’پاٹا کی آئینی حیثیت‘‘، شریعہ نظامِ عدل ریگولیشن، 2009ء اور ادارتی خلا‘‘، ’’ایکشنز (اِن ایڈ آف سول پاور) ریگولیشن، 2011 ء کا تنقیدی جائزہ‘‘، ’’ریاستِ سوات میں نظامِ عدل‘‘، ’’ریاستِ سوات: کچھ مزید حقائق‘‘، ’’پختون معاشرے میں حجرے اور مسجد کا کردار‘‘، ’’سوات میں ملکیتِ جنگلات کا تنازعہ‘‘، ’’جہان زیب کالج‘‘ اور ’’تحریکِ نفاذِ شریعتِ محمدی اور جمہوریت‘‘ کو بھی تاریخی دستاویز کی حیثیت حاصل ہے۔
کتاب کے آخر میں ڈاکٹر صاحب سے لیے گئے ایک انٹرویو بارے درج ہے: ’’یہ انٹرویو لاہور سے شائع ہونے ولے جریدے عوامی جمہوریہ فورم کے ایڈیٹر عامر ریاض کو 14 دسمبر 2011ء کو اسلام آباد میں اتفاقاً دیا گیا تھا۔ جسے انہوں نے اس رسالے کے شمارہ 53 میں 2012ء میں شائع کیا تھا۔‘‘
……………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔