جنرل پرویز مشرف نے آئین توڑا اور کئی مرتبہ توڑا۔ منتخب وزیر اعظم کو گرفتار کرکے اٹک قلعے میں محصور رکھا۔ پھر سعودی حکومت کی مداخلت سے جلاوطن کیا۔ اس 8 سالہ فوجی دورِ حکومت میں پرویز مشرف نے کیا کچھ نہیں کیا۔ نائن الیون کے واقعے کے بعد افغانستان میں قائم طالبان حکومت کے خلاف امریکی جارحیت کا ساتھ دیا۔ اپنی زمینی، فضائی اور سمندری راستے امریکی اور نیٹو افواج کے لیے کھول دیے۔ اپنے کئی فضائی عسکری اڈے امریکہ کے حوالے کیے۔ امریکی مخالف طالبان اور پاکستان کے کئی معزز و محترم شخصیات کو امریکہ کے حوالے کیا۔ ان میں سب سے زیادہ افسوس ناک ڈاکٹر عافیہ صدیقی ایک خاتون کی حوالگی ہے۔ جو اَب تک امریکی جیل میں امریکی درندوں کے ظلم و ستم کا شکار ہے۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی حوالگی کی حقیقی داستان اور تفصیل جب سامنے آئے گی، تو ہر پاکستانی مسلمان کی پیشانی عرقِ ندامت سے نم آلود ہو جائے گی۔
’’جینوا کنونشن‘‘ کے تحت ہر ملک میں سفارت کاروں کو خصوصی تحفظ حاصل ہوتا ہے، لیکن جنرل مشرف نے اس بین الاقوامی قانون کی مٹی پلید کرکے پاکستان میں طالبان سفیر ملا عبد السلام ضعیف کو امریکی غنڈوں کے حوالے کیا، جنہوں نے پاکستانی افسروں کے سامنے ان پر لاتوں اور گھونسوں کی بارش کردی۔ ان کی داڑھی نوچی اور ان کو نہایت ذلت آمیز تشدد کے بعد بگرام جیل منتقل کیا۔ پھر وہاں سے گوانتا ناموبے منتقل کیا۔ ان کی کتاب میں اگر یہ ذلت آمیز داستان اور واقعات آپ پڑھ لیں، تو شرم و حیا اور زندہ ضمیر رکھنے والا ہر شخص اپنی ذاتی تذلیل محسوس کرے گا۔ اسلام آباد کے جامعۂ حفصہ بچیوں کی تعلیم و تربیت کا ایک چھوٹا سا ادارہ ہے۔ ان دینی اور حفظِ قرآن کی طالبات کی چند سرگرمیوں کو جواز بنا کر جو شور مچایا گیا، اور سیکولر میڈیا کے دین دشمن اینکرز نے جس طرح ان طالبات اور مدرسے کے خلاف حکومتی رٹ قائم کرنے کا واویلا مچایا ،وہ حد درجہ شرمناک اس وجہ سے ہے کہ امریکہ اور عالمی طاغوتی قوتوں کے ہماری قومی خود مختاری کے خلاف آئے روز کے اقدامات کے خلاف تو آپ نے کبھی آواز نہیں اٹھائی۔ امریکہ نے ہمارے 17 فوجی جوان بغیر کسی جواز کے قتل کیے۔ آپ خاموش رہے۔ امریکہ نے اندھیری رات میں بن لادن کو قتل کرنے کے لیے ایبٹ آباد آپریشن کیا۔ آپ مہر بہ لب رہے، لیکن جامعہ حفصہ کی چند طالبات کے خلاف آپ کو ملکی سالمیت خطرے میں نظر آئی۔ پرویز مشرف نے ان نہتی، بے بس اور محصور طالبات کے خلاف فوجی ایکشن کیا۔ ایک روایت کے مطابق آتشیں ہتھیار استعمال کیا اور جامعہ حفصہ اور اس میں محصور طالبات کو بھسم کرکے رکھ دیا۔ ڈمہ ڈولہ میں دینی مدرسے پر میزائل پھینکا گیا اور بہت سارے بچے ٹکڑے ٹکڑے ہو کر خاک و خون میں مل گئے اور آپ نے نہایت بے شرمی سے اپنے شہریوں پر اس حملے کی ذمہ داری قبول کی۔
کون سا جرم ہے جو اس شخص نے نہیں کیا؟ ججز کو محصور کیا۔ عدالتوں کا مذاق اُڑایا۔ یوں تو ملک میں شروع سے فحاشی و عریانی کے لیے ماحول سازگار بنایا گیا، لیکن پرویز مشر ف نے تو حد کر دی۔ بے تحاشا نجی ٹی وی چینلز کو لائسنس جاری کرکے ان کے ذریعے عریانی و فحاشی کا ایک سیلاب اور طوفان برپا کیا۔ کیٹ واکس کو متعارف کرایا گیا۔ دلہنوں کے لباس میں مقابلے کرائے گئے۔ نوجوان لڑکیوں کو کرکٹ اور ہاکی کھیلنے کے لیے میدان میں اتارا گیا۔ لڑکیوں کے سائیکل ریس منعقد کرائے گئے۔ اس 8 سالہ دور کی اگر تمام تفصیلات سامنے لانا ہو، تو اس کے لیے ایک ضخیم کتاب کی ضرورت ہے۔ اس شخص کے ساتھ ان تمام غیر اخلاقی، غیر قانونی اور انسانی شرف و عزت کے خلاف تمام اقدامات میں کون کون لوگ اور افراد شریک تھے؟ یہ سب لوگوں کو معلوم ہے۔ اب جب یہ ڈکٹیٹر خدائی گرفت میں آیا۔ اس پر اللہ تبارک و تعالیٰ کے عذاب کا کوڑا برسنا شروع ہوا۔ پہلے فوجی وردی اتارنے پر مجبور ہوا۔ پھر اقتدار ہاتھ سے نکل گیا اور جب قانون کا لمبا (اگرچہ کمزور) ہاتھ اس کے گریبان تک پہنچا، تو یہ کمانڈو صدر اور بات بات پر مکے لہرانے والا شخص اتنا ڈرپوک اور بزدل ثابت ہوا کہ قانون کا سامنا نہ کرسکا اور اپنی ملکی عدالتوں سے سزا پاکر پاکستانی سرزمین میں دفن ہونے کے بجائے بیرو ن ملک فرار ہوا۔ غضب خدا کا اس شخص کے خلاف چیف جسٹس کی گرفتاری، وکلا کو جلانے اور بوری بند لاشوں کے مؤجدوں کی سرپرستی پر کوئی مقدمہ قائم نہیں ہوا۔ آئین توڑنے پر اور آئینی دفعہ چھے کے خلاف ورزی پر مقدمہ چلا۔ پانچ سال تک مقدمے کو طول دیا گیا۔ حاضر ہونے سے معذوری کے بہانے تراشے گئے۔ بیماری کا عذر کیا گیا۔ ایک طرف کمر میں درد کا بہانہ اور دوسری طرف ہوٹلوں میں ڈانس کا مظاہرہ، لیکن جب خصوصی عدالت نے تنگ آکر اور تمام آپشنز ختم ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کیا، تو پھر دباؤ ڈالا جانے لگا کہ فیصلہ نہ سنایا جائے، لیکن تمام تر دباؤ اور حربوں کے استعمال کے باوجود جب فیصلہ سنایا گیا اور جسٹس وقار سیٹھ نے فیصلے کے ایک پیراگراف میں لکھا کہ اس کو اسلام آباد کے ڈی چوک میں عوام کے جم غفیر کے سامنے اسے پھانسی پر چڑھایا جائے اور لاش کو تین دن تک لٹکا کر رکھا جائے، تو پھر پرویز مشرف کے چھے سالہ شرمناک جرائم اور مظالم پر خاموش رہنے والے تمام سیکولر، دین بیزار اور شرم و حیا سے عاری عناصر چیخ اٹھے کہ یہ انسانیت کی توہین ہے۔ لاش کی بے حرمتی کسی قانون میں جائز نہیں، وغیرہ وغیرہ۔ کیا ان عالم، فاضل اور آئین و قانون کے ماہرین کو قرآن کا یہ حکم معلوم نہیں کہ قاتل سے قصاص بھرے پرے مجمع میں لیا جائے، اور جب تم زانی کو حد کے کوڑے لگاؤ تو مومنو کا ایک گروہ اس موقع پر موجود ہونا چاہیے۔
کیا جامعہ حفصہ کی بے گناہ، نہتی، حفظ قرآن کی طالبات پر فاسفورس بم استعمال کرنے والے شخص کے لیے صر ف اتنی سزا کہ بس اس کو پھانسی دی جائے! اور اس پر اتنا واویلا اور شور، اس کا مطلب کیا ہے؟ اگر ہمارا معاشرہ جیتا جاگتا اور قومی و ملی شعور سے آگاہ ہوتا اور ہمارا عدالتی نظام نظریۂ ضرورت سے آزاد ہوتا، تو پہلی بار مارشل لا لگانے والے ڈکٹیٹر کو سزائے موت نہیں سناتا، لیکن اس وقت تو جسٹس منیر نے ڈکٹیٹر کی حوصلہ افزائی اور اس کو قانونی جواز مہیا کرنے کے لیے نظریۂ ضرورت ایجاد کیا۔ اسی طرح طالع آزماؤں کے لیے بار بار مارشل لا لگانے کا دروازہ کھول دیا۔ پھر پے درپے مارشل لا لگنے لگے اور اسی طرح ہماری قومی سفر کے 30 سال مارشل لا کی نذر ہوگئے۔ 72سال سے یہ قومی قافلہ ویران صحراؤں اور جنگلوں میں بھٹکتا رہا، لیکن سب سے افسوسناک حقیقت اس وقت آشکار ہوئی۔ جب اسٹیبلشمنٹ کی بیساکھیوں کے سہارے قائم عمران خان کی حکومت بھی سابق فوجی ڈکٹیٹر کی پشت پناہ بن گئی ۔ وہ عمران خان جو اقتدار میں آنے سے پہلے تمام مسائل و مشکلات کا ذمہ دار پرویز مشرف کو ٹھہراتے تھے۔ وہ عمران خان جو طالبان کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے قوی دائرے میں لانے کی وکالت کرتے تھے۔ وہ عمران خان جو عوام کے ذریعے منتخب نمائندوں کی حکومتی امور میں بالادستی کی بات کرتے تھے۔ وہ عمران خان جو بیرونی قرضوں کے خلاف اور آئی ایم ایف کے پاس جانے سے شدت کے ساتھ انکار کرتے تھے۔ لیکن اب کیا ہے؟ وہی شخص وہ سب کچھ کر رہا ہے، جو دوسرے کرتے تھے۔ اس انداز میں کر رہا ہے کہ گویا پاکستان کو آئی ایم ایف کے پاس بعوض چھے ارب ڈالر گروی رکھ دیا ہے۔ پوری وزارتِ خزانہ آئی ایم ایف کے حوالے کر دی گئی ہے۔ وزیرِ خزانہ ان کا ،سٹیٹ بینک کا گورنر ان کا، تنخواہ دار اور ایف بی آر کا چیئرمین ان کا نمائندہ۔ پہلے سے ان کی تمام شرائط مان لی گئی ہیں کہ بجلی ، گیس اور دیگر یوٹیلٹی بلز میں ان کی ہدایات کے مطابق اضافہ کیا جائے گا۔ ہر ماہ ڈیزل اور پیٹرول کی قیمتوں میں اضافہ بھی ان کی صواب دید پر ہوگا۔ پھر جب ہر قسط کی وصولی سے پہلے ان کا جائزہ وفد آتا ہے، تو مطالبات کا ایک نیا پلندا تھما دیتا ہے۔ اس مرتبہ انہوں نے پچاس مطالبات کی فہرست تھمائی ہے۔ اوپر سے ٹی اے ایف ٹی کے مطالبات ہیں کہ اپنے دین پسند اور اسلام و پاکستان کے ساتھ جذباتی اور ایمانی تعلق رکھنے والے انتہا پسندوں کو عدالت کے کٹہرے میں کھڑے کرکے سزائیں سناو۔ ایسے عناصر کو قومی زندگی کے ہر شعبے سے نکال دو، جو قومی خود مختاری اور ملکی آزادی کی بات کرتے ہیں اور بیرونی مداخلت کے خلاف ہیں۔ اگر ان ہدایات سے انحراف کروگے، تو پھر اقتصادی پابندیوں کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہو جاؤ۔ عمران خان کی حکومت ان ہدایات و احکامات کے مطابق حکمرانی کے مزے لوٹ رہی ہے۔ ان کو نہ عوام کی حالتِ زار کا کوئی احساس ہے، نہ گرانی، مہنگائی کی روز افزوں اضافے کا جس نے عوام کا جینا مشکل کردیا ہے۔ ایک طرف وزیروں مشیروں اور خوشامدیوں کا ٹولہ ہے کہ جسٹس وقار سیٹھ کے فیصلے کا مذاق اڑاتا ہے، اور جن کے خلاف توہینِ عدالت کے کیس داخل کیے گئے ہیں۔ دوسری طرف صوبہ خیبر پختونخوا کی صوبائی اسمبلی کا اجلاس جو 30 دسمبر کو پیر کے دن منعقد ہوا ہے۔ اس میں پی ٹی آئی ممبران نے بچوں کے ساتھ جنسی تشدد کے مجرموں کو سرِ عام پھانسی دینے اور چوک چوراہوں میں لٹکانے کا مطالبہ کیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ آئین شکن ڈکٹیٹر پرویز مشرف جو مہا مجرم ہے، اس کے لیے تو سرِ عام پھانسی اور لٹکانا نامناسب، توہینِ انسانیت اور لاش کی بے حرمتی کے مترادف ہے، لیکن جنسی تشدد کے مجرم کو سرِ عام لٹکانا جائز و مطلوب ہے۔
اے اللہ پر ایمان کے دعویدار و قرآ ن و سنت کو اللہ و رسول کا ضابطۂ حیات تسلیم کرنے کا دعویٰ کرنے والو، کیا تمہیں معلوم نہیں کہ جس مدنی ریاست کے قیام کا تم دعویٰ کرتے ہو، اس میں زنا کے مجرموں کو کیا سزا دی جاتی تھی؟ قتل کے مجرموں سے قصاص کس طرح لیا جاتا تھا؟ کیا تم کو معلوم نہیں کہ فحاشی و عریانی اور بے پردگی اور مرد و زن کے مخلو ط مجالس بند کرکے عصمت و عفت اور شرم و حیا کے لیے ماحول سازگار بناؤ۔ کیا تم کو معلوم نہیں کہ تعلیمی اداروں میں یکساں اسلامی نصاب اور دینی تعلیمی تربیتی پروگرام کے ذریعے نئی نسل کے ذہن و فکر کو دین اسلام کے سانچے میں ڈھالنے سے معاشرے کو پاک، صاف، دیانت و امانت کے پیکر اور حلال و حرام میں تمیز کرنے والے افراد ملیں گے۔ ریاستِ مدینہ کا نعرہ سیاسی کامیابی اور عوام کو دھوکا اور فریب دینے کے لیے لگانے کا نتیجہ انتہائی خطر ناک ہوگا۔ اس فریب دہی اور دروغ گوئی پر اللہ بھی ناراض ہوگا اور اس کے عذاب کا کوڑا برسے گا۔ عوام میں بھی ساکھ متاثر ہوگی۔ سکندر مرزا سے لے کر ایوب خان اور ذولفقار علی بھٹو تک اور ضیاء الحق سے لے کر نواز، زرداری اور پرویز مشرف کا انجام تمہارے سامنے ہے۔ اقتدار و اختیار دے کر اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے بندوں کو آزماتا ہے۔ اقتدار و اختیار کے یہ چند روز خوشامدی وزیروں مشیروں کی خوشامدانہ چمچہ گیریوں میں ضائع مت کرو۔ وزیروں کا کام اپنے اپنے محکموں کی دیکھ بھال، تعمیر و ترقی کے پروگراموں کی نگرانی کا ہے۔ عدالتی فیصلوں کا مذاق اڑانا، مخالفین کے لتے لینا اور پارلیمنٹ کو جنگ جھگڑے اور شور شرابے کا اکھاڑا بنانا ان کی ذمہ داری نہیں۔ 17 ماہ کا عرصہ حکمرانی تو انتہائی نااہلی، غلط اور قومی مفاد کے خلاف اقدامات اور بیڈ گورننس کا انتہائی بد نما نمونہ پیش کرنے میں گزارا۔ اب اگر اللہ توفیق دے، تو ’’یوٹرن‘‘ لو۔ یو ٹرن کو تو ویسے بھی تم قیادت کی اہلیت و صلاحیت کی خوبی سمجھتے ہو۔ یو ٹرن لے کر سول حکمرانی اور قومی خود مختاری قائم کرو۔ مدنی ریاست کے قیام کے لیے قرآن و سنت کے مطابق عملی اقدامات کا آغاز کرو۔ امید ہے اللہ پاک تمہیں اپنی تائید و حمایت سے نوازے گا، ان شاء اللہ!
……………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔