پہلی بار عنانِ حکومت سنبھالتے ہی تحریکِ انصاف کی حکومت نے خیبر پختون خوا میں ’’تعلیمی ایمرجنسی‘‘ لگائی۔ نگرانی کا ایک نظام ترتیب دیا اور ’’تعمیرِ سکول‘‘ کے نام سے ایک بے سر و پا منصوبے کا اعلان کیا جس کے تحت 1 ہزار70 سکول بنانا تھے، یا ان میں مزید سہولیات دینا تھیں۔ گذشتہ چھے، سات سالوں میں تحریک انصاف اپنے اس نامی گرامی منصوبے کے لیے صرف 2 کروڑ60 لاکھ روپے مہیا کر سکی ہے۔فی الحال وہ منصوبہ کٹائی میں ہے۔
آرمی پبلک سکول کے دل خراش اور تا حال جواب طلب واقعے کے بعد سکولوں کو سیکورٹی کے نام پر حصار میں بند کرنے اور اربوں روپے دستیاب تھے جب کہ صوبہ بھر میں ہزاروں کی تعداد میں اساتذہ کی خالی آسامیوں کو پُر کرنے کے لیے خزانے میں ابھی تک پیسے نہیں، بلکہ بھرتی کے نام پر تعلیم یافتہ نوجوانوں کو این ٹی ایس کی فیسوں کی شکل میں لوٹا گیا۔ ٹیسٹ منعقد ہوتے نہیں اور کروڑوں پھونک دیے جاتے ہیں۔
اسی حکومت نے اپریل 2015ء میں 21 لاکھ تعلیم سے محروم 16 سال عمر تک کے بچوں کو سکولوں میں لانے کے لیے ’’اقراء فروغِ تعلیم واؤچر سکیم‘‘ کا اجرا کیا، جس کے تحت صوبہ بھر کے 79 ہزار بچوں کو 1 ہزار 36 نجی سکولوں میں ڈال دیا گیا۔ ماہانہ تعلیمی فیس کی مد میں نجی سکولوں کو پرائمری کلاسزکے لیے5 سو، مڈل کے لیے 6 سو اور ہائی کلاسز کے لیے8 سو روپے فی طالب علم کے حساب سے ایلمنٹری ایجوکیشن فاونڈیشن کے ذریعے ادا کرنا تھے، جبکہ ہر ایک بچے کو وردی اور کتابیں خریدنے کے لیے 25 سو روپے دینا بھی اسے ادارے کی ذمہ داری تھی۔مذکورہ پروگرام کا بنیادی مقصد اُن والدین کی مدد کرنا تھا جو اپنے بچوں کو نجی سکولوں میں پڑھانے سے قاصر ہیں۔ اگر چہ ایلمنٹری ایجوکیشن فاونڈیشن کو مزید 1 لاکھ 25 ہزار بچے سکولوں میں داخل کرانا تھے، اس نے نہ صرف سکولوں کو ادائیگی بند کر دی بلکہ گذشتہ 2 مالی سالوں میں 3 سو کروڑ روپے خرچ کرنے سے معذور رہے۔ نیب اور صوبائی معائنہ ٹیم کی اس منصوبہ میں بے قاعدگی سے متعلق تحقیقات میں پتا چلا کہ کثیر رقم یعنی 2 ارب 64 کروڑ روپے میں خطیر رقم یعنی 1 ارب 94 کروڑ روپے کی بدعنوانی ہوئی ہے۔ فرضی اور غیر رجسٹرڈ سکولوں اور فرضی طلبہ کے نام پر کروڑوں لوٹے گئے۔ نزلہ فاؤنڈیشن کے ایم ڈی پر گرا اور تاحال منصوبہ کا مستقبل واضح نہیں۔
تاریخ میں پہلی بار صوبے کی تین مشہور اور پرانی یونیورسٹیوں بشمول پشاور یونیورسٹی، گومل یونیورسٹی اور خیبر پختون خوا زرعی یونیورسٹی دیوالیہ ہو گئیں۔ سن 2ہزار 14سے لے کر 2 ہزار 18 تک صوبائی حکومت 8 سو سکولوں اور پینتیس کالجوں کے منصوبے کو ایک سال سے دوسرے سال میں دھکیلتی رہی، اور بالآخر اس منصوبے کو جون2019ء میں سالانہ ترقیاتی پروگرام سے باہر کردیا گیا۔اس منصوبے پر50 ارب روپے خرچ ہونا تھے۔
اسی طرح کا ایک منصوبہ ’’سمارٹ سکولز‘‘ کے نام سے شروع کیا گیا، جس کے اندر 2 سو کنٹینر سکول بنانا تھے۔ اس منصوبے کے تحت صرف لکی مروت میں ایک کنٹینر سکول تعمیر کرکے 2 ارب روپے کے اس منصوبے کو بھی زنگ لگ گئی۔ آخرِکار اس منصوبے کو بھی ختم کیا گیا۔
صوبائی حکومت کے فرنٹیر ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے ذریعے سکالرشپ دے کر چائینہ بھیجے جانے والے 32 طلبہ کو ستمبر 2019ء سے لے کر اب تک کوئی رقم ادا نہیں کی گئی بلکہ ان کے وظیفہ کی رقوم میں کٹوتی کرکے ان کو بے سہارا چھوڑ دیا گیا ہے۔ جولائی 2010ء اور 2015ء کی آفات اور مکمل یا جزوی طور پر تباہ ہونے والے سکولوں میں درجنوں سکول اب بھی دوبارہ آبادکاری یا بحالی کے منتظر ہیں، جن کے متعلق سوشل میڈیا پر بہت سا مواد دیکھنے کو ملتا ہے۔
اس طرح یونیورسٹیوں اور کالجوں کی ماہانہ فیسوں کے علاوہ دیگر فیسوں میں بے تحاشا اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔ لہٰذا غریب طلبہ کی تعلیم کا خواب ، خواب ہی ہے۔ گذشتہ چار سالوں سے ہزاروں طلبہ سرکاری کالجوں میں داخلہ سے محروم چلے آ رہے ہیں، لیکن چھے سات سالوں میں کوئی نیا کالج نہیں بنا۔ سال 2018ء میں خیبر پختون خوا کے 23 ہزار پرائمری سکولوں میں سے 8 ہزار سکولوں کے طلبہ کے قبل ازپرائمری جائزے میں نصف سے زیادہ طلبہ کامیاب نہیں ہوسکے۔
تعلیم سے متعلق معاملات میں سیاسی عمل دخل یہاں تک بڑھ گیا ہے کہ مرضی کی بھرتی نہ کرنے پر ضلع کوہستان میں تعینات ضلعی ایجوکیشن آفیسر نواب علی کو دن دیہاڑے قتل کیا گیا۔
صوبائی حکومت کے ’’انڈی پینڈینٹ مانیٹرینگ یونٹ‘‘ کی جانب سے جنوری 2018ء میں کی جانے والی جانچ کے مطابق ضلع سوات کے 327 سکولوں میں کوئی بھی بنیادی سہولت وجود نہیں رکھتی۔ 204 سکولوں میں بجلی، 216 میں پانی، 54 میں لیٹرینز جب کہ سینتالیس سکولوں کے ارگرد باؤنڈری وال موجود نہیں۔ ضلع بھر کے 652 سکولوں کے ہزاروں بچوں کو کھیل کا میدان میسر نہیں۔
محمد علی شاہ خان کی نظامت میں سابق ضلعی حکومت سوات نے سکولوں میں بنیادی سہولیات کی فراہمی کے لیے 13کروڑ روپے، ضلع بھر کے سکولوں میں پڑھنے والے ہزاروں طلبہ و طالبات کو بیگ، کپڑوں اور جوتوں کی فراہمی کے 7 کروڑ، بچیوں کو ٹرانسپورٹ کی سہولیات دینے کے لیے 1 کروڑ اور عارضی طور پر اساتذہ کی بھرتی کیے لیے 70 لاکھ روپے کی منظوری دی، لیکن ان تمام منصوبوں کو ’’سیاہ ست‘‘ کی بھینٹ چڑھا دیا گیا، اور ان منصوبوں کو عملی شکل دینے کے لیے ضلعی حکومت کے سامنے مسائل کھڑے کر دیے گئے۔ چناں چہ سوائے ایک کے باقی سب منصوبے تکمیل کی راہ دیکھ رہے ہیں۔ اب سننے میں آیا ہے کہ ان منصوبوں کی لاگت کو دیگر شعبوں میں منتقل کرنے کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ تعلیمی ایمرجنسی ابھی تک نافذ ہے اور تعلیم ’’ایمرجنسی‘‘ میں پڑی ہے ۔ہم سالِ نو میں تعلیمی زوال کے ساتھ داخل ہوچکے ہیں۔ کوئی بتائے کہ گلیوں، سڑکوں اور پائپ کی بجائے انسانوں پر وسائل خرچ کرنے کا وعدہ کب وفا ہوگا؟ اگر اسلحہ خانوں، لنگر خانوں، درباروں، درگاہوں کو آباد کرنے اور زندہ باد رکھنے کے لیے خزانہ میں پیسہ ہے، تو درس گاہوں کے لیے کیوں نہیں؟؟؟
…………………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔