لفظ ’’براعت‘‘ کے لغوی معنی ہیں روشنی، دانش، فضیلت اور ہنر میں کامل ہونا۔ علمِ بدیع کی اصطلاح میں یہ لفظ ’’استہلال‘‘ کے ساتھ مل کر ایک صنعت (براعتِ استہلال) کا عنوان بنتا ہے۔ براعتِ استہلال کے مطابق کلام منثور یا منظوم کے شروع میں ایسے الفاظ لائے جائیں جو آئندہ مضمون کے مناسب ہوں۔ اس صنعت کے متعلق نجم الغنی رامپوری اپنی کتاب ’’بحر الفصاحت‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’اُس صنعت کا نام ہے کہ جو قصہ بیان کرنا منظور ہو، خواہ نثر ہو خواہ نظم، اس کا دیباچے یا اول داستان میں اشارہ کریں بہت مثنویاں اور قصیدے اور اکثر قصے نثر کے اس صنعت میں ہوتے ہیں۔ نسیم ’’مثنوی گلزارِ نسیم‘‘ میں ’’فرخ‘‘ یعنی ’’بکاؤلی‘‘ کے غائب ہوجانے اور حملہ کے طلب ہونے کے موقع پر لکھتے ہیں:
کھلنے پہ جو ہے طلسم تقدیر
اب خامہ نے یہ کیا ہے تحریر
ترابؔ نے ’’عاشق و صنم‘‘ کی مثنوی کے دیباچے میں کہا ہے :
خدا اگر عشق کو پیدا نہ کرتا
تو بندہ حسن پہ کاہے کو مرتا
کوئی عاشق نہ دیتا جی صنم پر
نہ سر دھرتا کوئی اس کے قدم پر
…………………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔