موجودہ علاقائی صورت حال میں پاکستان کو اس وقت تین اہم اور بڑے مسائل کا سامنا ہے۔ ان میں سے اول درجے کاسب سے بڑا مسئلہ کشمیر کا ہے۔ تقسیمِ ہند کے وقت انگریزدونوں ملکوں کے درمیان اس تنازعے کو خوب سوچ سمجھ کر لاینحل چھوڑ کر چلا گیا۔ تقسیمِ ہند کے فارمولے کے تحت یہ اصول طے کیا گیا کہ جہاں مسلمان اکثریت ہوگی، وہ علاقہ پاکستان میں شامل ہوگا، اور جہاں ہندو اکثریت ہوگی، وہ بھارت میں شامل ہوگا۔ اسی فارمولے کے تحت ہندوستان نے ریاستِ حیدر آباد دکن، ریاستِ جونا گڑھ اور بھوپال پر قبضہ کیا۔ حالاں کہ ان تینوں ریاستوں کے حکمران مسلمان تھے، لیکن جب کشمیر کا معاملہ سامنے آیا، تو ہندوستانی قیادت نے اس طے شدہ فارمولے سے انکار کرکے یہ نرالی منطق پیش کی کہ ریاست جموں کشمیر کا حکمران چوں کہ ہندو ہے اس وجہ سے ریاست کا الحاق ہندوستان کے ساتھ ہوگا۔ اس دوران میں باؤنڈری کمیشن نے سازش کرکے گورداسپور ضلع کو ہندوستان میں اس لیے شامل کیا کہ ہندوستان کو کشمیر تک پہنچنے کے لیے راہداری فراہم کی جائے۔ حالاں کہ تقسیم کے وقت ضلع گورداسپور پاکستان کے حصے میں آتا تھا۔ کشمیر میں مسلمانوں کی اکثریت تھی، لیکن جمہوریت اور عدل و انصاف کے علمبردار انگریزوں نے ایک کروڑ چالیس لاکھ انسانوں کو صرف 75 لاکھ روپے سکہ رائج الوقت کے عوض راجہ گلاب سنگھ کے ہاتھ فروخت کیا۔ انگریز قوم کے ماتھے پر ظلم و ستم اور انسانیت دشمنی کے داغوں میں یہ بھی ایک نمایاں داغ ہے۔ کشمیر کی آزادی کا مسئلہ راجہ گلاب سنگھ کے ظلم و جبر اور ناجائز حکمرانی سے شروع ہوتا ہے۔ پھر تقسیمِ ہند کے وقت راجہ گلاب سنگھ کے بیٹے راجہ ہری سنگھ نے سازش کرکے مسلم اکثریتی ریاست کشمیر کا ہندوستان کے ساتھ الحاق کیا۔ 1948ء میں جب کشمیری مسلمانوں نے بغاوت کی اور پاکستان کے قبائلی عوام بھی ان کی مدد کو پہنچے، تو اس وقت اگر حکومتِ پاکستان سیاسی اور عسکری صلاحیت کا مظاہرہ کرکے اپنی فوجیں ریاست میں داخل کرتی، تو جس طرح آزاد کشمیر کا پاکستان کے ساتھ الحاق ہے، اُسی طرح پورا کشمیر پاکستان میں شامل ہوجاتا۔ لیکن انگریز کمانڈر انچیف جنرل گریسی نے قائد اعظم کا حکم ماننے سے انکار کیاا ور ہندوستانی قیادت نے بین الاقوامی فورمز پر دُہائی دی کہ پاکستان نے ہمارے خلاف مذہبی جنگ جہاد چھیڑ دیا ہے۔ پاکستانی حکومت نے آزادیِ کشمیر کے لیے لڑی جانی والی جنگ جہاد میں شمولیت سے انکار کیا اور پھر اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے جنگ بندی کی قرارداد منظور کرکے کشمیر کو پاکستان اور ہندوستان کے درمیان متنازعہ علاقہ تسلیم کرکے کشمیریوں کے حقِ خودارادیت کو تسلیم کیا اور اس بات کا اعلان کیا کہ کشمیری عوام کو موقع فراہم کیا جائے گا کہ وہ اپنی آزادانہ رائے کے ذریعے پاکستان یا ہندوستان کے ساتھ شمولیت اختیار کر سکیں گے۔ وہ دن اور آج کا دن مسئلہ کشمیر دونوں ملکوں کے درمیان ایک متنازعہ علاقہ ہے۔ اب تک ریاست جموں و کشمیر کو بھارتی آئین میں خصوصی حیثیت حاصل تھی، اور ہندوستان نے خود اس کو باہمی گفت و شنید اور مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کا باربار اقرار کیا، لیکن اب مودی حکومت نے ’’اکھنڈ بھارت‘‘ کے اپنے دیرینہ منصوبے کے تحت کشمیر کی وہ خصوصی آئینی حیثیت ختم کرکے اس کو ہندوستان میں ضم کر دیا۔ یہ مسئلہ، پاکستان کے لیے کتنا اہم ہے؟ اس کا اندازہ قائد اعظم ؒ کے اس بیان سے لگایا جا سکتا ہے کہ کشمیر پاکستان کی شہہ رگ ہے اور پاکستان کشمیر کے بغیر نا مکمل ہے۔
آپ کے چار دریاؤں کا مرکز و منبع کشمیر میں واقع ہے۔ اس وقت بھار ت نے ان دریاؤں پر کئی ڈیم بنا رکھے ہیں۔ جب پاکستان کو پانی کی ضرورت ہوتی ہے، تو وہ پانی روک کر پورے پنجاب کی زمینوں کو خشک سالی کی نظر کر دیتے ہیں، لیکن جس وقت پانی کی ضرورت نہیں ہوتی، اس وقت پانی چھوڑ کر پورے پنجاب کو سیلاب کے ذریعے تباہ و برباد کر دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ اگر ہم مسئلے کو انسانی نقطہ نظر سے دیکھیں، تو کیا ایک کروڑ چالیس لاکھ انسانوں کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ اپنی آزاد مرضی سے اپنے حقِ خود ارادیت کا فیصلہ کریں؟ یہ حق اگر آپ انڈونیشیا کے صوبے ٹی مور کے عوام کے لیے تسلیم کرتے ہیں اور یہ حق جب آپ جنوبی سوڈان کے غیر مسلم عوام کے لیے تسلیم کرتے ہیں، اور چند مظاہروں اور قراردادوں کے بعد اقوام متحدہ کے توسط سے ان کو آزادی اور خود مختاری دلاتے ہیں، تو کشمیری عوام کے لیے یہ حق کیوں آپ تسلیم نہیں کرتے؟ صرف اس وجہ سے کہ کشمیری مسلمان ہیں، اور آپ مسلم عوام کے لیے کسی قسم کے حقوق اور انسانی آزادی اور حقوق کے قائل نہیں، لیکن یہ بات تو اقوام متحدہ پر مسلط عالمی طاغوتی طاقتوں سے متعلق ہے۔پاکستانی حکومتی کارپردازوں اور سیاسی و عسکری عناصر پر اس سلسلے میں کیا ذمہ داری عائد ہوتی ہے؟ اس سے متعلق جب ہم پاکستانی قیادت کے 72 سالہ کردار اور کارکردگی کو دیکھتے ہیں، تو اس میں ہمیں صرف عزم کی کمی، جرأت مندانہ اقدامات سے پہلو تہی اور اپنے اقتدار کے لیے خطرے کا خوف نظر آتا ہے۔ ہر پاکستانی حکومت نے اس مسئلے کو صرف سیاسی نعرے کے طور پر استعمال کیاہے۔ کسی بھی دور میں بشمول موجودہ دور کے اس مسئلے کے لیے سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی۔ نہ اس کو بین الاقوامی طور پر اجاگر کیا گیا، نہ ہندوستان کے خلاف ایسے اقدامات کیے گئے کہ وہ اس مسئلے کی اہمیت کو محسوس کرتا۔ اور کیا اس حقیقت سے آنکھیں بند کرنا درست حکمت عملی ہے کہ ہندوستان ہماری شہ رگ پر انگلی رکھ کر ہمارا گلا دبا کر ہمیں موت کے گھاٹ اتار رہا ہے اور ہم بیٹھے اقوام متحدہ کی قراردادوں کا راگ الاپ رہے ہیں؟ کیا ہماری آٹھ لاکھ فوج، نیوکلیر اور میزائل ٹیکنالوجی محض دکھاوے اور نمائش کے لئے ہے کہ کل کلاں پورا پنجاب بنجر ہوجائے۔ ہمارے چاروں دریا خشک ریت میں تبدیل ہو جائے۔ موجودہ حکمرانوں نے تو مسئلہ کشمیر کا ستیا ناس کر دیا۔ غضب خدا کا ایک کروڑ مسلم کشمیری عوام تقریبا چار ماہ سے ایک وسیع جیل میں قید ہیں۔ اور تحریک انصاف کی حکومت چین کی بانسری بجارہی ہے۔ اس کی نظر میں اس مسئلے کی گویا کوئی حیثیت ہی نہیں۔
دوسرا بڑا مسئلہ سی پیک کا ہے۔ چین اور پاکستان کی حکومت اس منصوبے کو ’’گیم چینجر‘‘ بتا رہی ہیں۔ اس کو دونوں ملکوں خصوصاً پاکستان کے لیے وسیع معاشی امکانات پر مشتمل تعمیر و ترقی اور روزگار کے حصول کا بہت بڑا ذریعہ قرار دے رہی ہیں، لیکن اس منصوبے کے بارے میں شکوک و شبہات کے سائے اس وقت منڈلانے لگتے ہیں جب زرداری، نوازشریف اور موجودہ حکومت کے دوران میں یہ منصوبہ ابھی تک پارلیمنٹ میں پیش نہیں کیا گیا، نہ اس کے طے شدہ اصول اور دو طرفہ شرائط سامنے لائی گئیں۔ بلاشبہ چین ہمارا دیرینہ دوست اور پڑوسی ملک ہے۔ چین اور پاکستان کے درمیان بہت سارے معاملات اور منصوبوں میں شراکت جاری ہے۔ ٹیکنالوجی، ترقیاتی سکیموں اور عسکری میدانوں میں یہ شراکت نہایت اہمیت کی حامل ہے، لیکن آج کل دوستی سے زیادہ مفادات کی کارفرمائی ہے اور باہمی تعلقات میں مفادات کو زیادہ اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ اب تک چین اور پاکستان کے درمیان تجارت عدم توازن کا شاکار ہے۔ چین کی درآمدات سے ہماری پوری انڈسٹری تنزل اور جمود کا شکار ہے۔ اس کے علاوہ کسی ایسے ملک کو جو اس وقت عالمی منظر پر دوسری بڑی سیاسی، معاشی اور عسکری قوت ہے، اپنے ملک میں راہداری کی سہولت سے مستقبل میں ہمارے لیے بہت زیادہ مسائل اور پیچیدگیاں پیدا ہونے کا امکان ہے۔ امریکہ تو اس منصوبے کو اپنے عالمی مفادات اور حکمتِ عملی کے تحت دیکھتا ہے۔ امریکہ کی تو یہ خواہش ہے کہ پاکستان چین کے مقابلے میں امریکہ کے علاقائی تھانیدار ’’بھارت‘‘ کا طفیلی ملک بن کر رہے اور چین کے اس عظیم منصوبے جو تقریباً پوری دنیا تک چین کی رسائی اور اس کے عالمی معاشی مفادات پر مشتمل ہے، میں پاکستان شرکت نہ کرے۔ اس کے علاوہ امریکہ کے طفیلی اور زیرِ اثر عرب ممالک خصوصاً یو اے ای اور اومان تو اپنے مفادات کے تحت اس منصوبے کے سراسر خلاف ہیں۔ کیوں کہ گوادر کی وجہ سے اومان اور دبئی بندرگاہ کے لیے خطرات محسوس کیے جا رہے ہیں۔ ہمارا کہنا بس یہ ہے کہ آپ چین کے ساتھ اس بہت بڑے منصوبے میں اپنے قومی مفادات کو بھی پیشِ نظر رکھیں اور قوم کو بھی اس بارے اعتماد میں لیں۔ وہ تمام شرائط و ضوابط اور اصول و طریقِ کار کھل کر قوم کے سامنے رکھیں، اور اس پر قومی اسمبلی، سینٹ اور دیگر تمام فورمز پر ایک قومی مباحثے کا اہتمام کریں۔ اس سے ایک تو آپ کی قومی سودا بازی اور بارگیننگ کی پوزیشن مضبوط ہو جائے گی اور دوسری طرف قوم کے تمام خدشات دور ہو کر ایک قسم کی قومی اعتماد و اطمینان کی فضا پیدا ہوجائے گی۔ اس کے علاوہ آپ ذرا امریکہ اور یورپی یونین سے فاصلہ پیدا کرکے چین، روس، ایران، ترکی، ملائشیا اور چند دیگر آزاد پالیسی رکھنے والے ممالک سے دوطرفہ تعاون کی بنیاد پر تعلقات استوار کریں، تو ہندوستان کے مقابلے میں آپ کی پوزیشن ہزار درجے بہتر اور مضبوط ہو جائے گی۔
اس کے علاوہ تیسرا بڑا مسئلہ پڑوسی برادر مسلمان ملک افغانستان میں امریکی مداخلت اور موجودگی کا ہے۔ یہ مسئلہ پاکستان کے لیے کتنا اہم ہے؟ اس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب سے افغانستان میں بیرونی مداخلت ہوئی ہے، ہمارا مغربی بارڈر جو پہلے محفوظ ہوتا تھا، تب سے غیر محفوظ ہو گیا ہے۔ پاکستان نے افغانستان کے طویل بارڈر پر بھاڑ اور چوکیاں قائم کی ہیں۔ اگرچہ شروع ہی سے افغانستان، انڈیا کے زیرِ اثر اور پاکستان مخالف عناصر کے زیرِ اقتدار رہا ہے، لیکن جب سے پاکستان نے افغان جہاد کے دوران میں افغان عوام کو پاکستان میں پناہ دے کر افغانستان کی آزادی اور تحفظ میں بنیادی کردار ادا کیا اور ملا عمر کے چھے سالہ دورِ اقتدار میں ہمارا مغربی بارڈر بالکل محفوظ و مامون بن گیا، لیکن امریکی فوجی مداخلت کے نتیجے میں اگر ایک طرف افغانستان میں امریکی ایجنٹ بر سر اقتدار آگئے، تو دوسری طرف ہندوستان نے وہاں پر اثر و رسوخ پیدا کرکے بہت سارے قونصل خانے قائم کیے اور افغانستان میں بڑے بڑے تعمیراتی اور ترقیاتی منصوبے شروع کرکے افغانستان کو پاکستان کے خلاف ایک قسم کا مورچہ بنا لیا۔ ایسے میں طالبان 11 سال سے امریکہ اور نیٹو ممالک کے خلاف چھاپا مار جنگ لڑرہے ہیں۔ اب 11 سال کے بعد امریکہ اس بات پر مجبور ہوگیا کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے باعزت پسپائی اختیار کرکے افغانستان سے نکل جائے، تو ان مذاکرات میں پاکستان کا کردار کلیدی اور بنیادی ہے۔ اگر پاکستان تدبر و فراست کے ساتھ بہتر حکمت عملی کے ذریعے طالبان اور دیگر افغان کارفرما گروہوں کا اعتماد حاصل کرکے امریکی انخلا کا راستہ ہموار کرے اور افغان عوام کے ساتھ اپنے تعلقات میں خلوص و اعتماد کے ذریعے اثر و رسوخ حاصل کرے، تو پاکستان افغانستان کے راستے پوری وسطی ایشیائی مسلم ریاستوں کے ساتھ تعلقات استوار کرنے میں کامیاب ہو جائے گا اور اسی طرح ایک علاقائی، سیاسی معاشی اور عسکری قوت بن جائے گا۔
قارئین، یہ تو بہرحال ہماری امیدیں اور تمنائیں ہیں، لیکن حکمرانوں کی نالائقی، خود غرضی اور وقتی سیاست کے تقاضے کچھ اور ہیں۔

……………………………………….

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔