امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پاکستان مخالف تقریر پر ارکانِ قومی اسمبلی نے خوب دل کا غبار نکالا۔وزیرخارجہ خواجہ محمد آصف نے بھی قومی جذبات کی ترجمانی کی۔ اگرچہ ان کا لب ولہجہ سفارتی پیچیدگیوں سے ہم آہنگ نہیں لیکن انہوں نے اپنی تقریر پر عوامی دادوتحسین خوب سمیٹی۔ حزبِ اختلاف کے رہنماؤں نے بھی امریکہ کے جم کر لتے لیے۔ صدر ٹرمپ اور افغانستان میں تعینات امریکی کمانڈر جنرل جان نکلسن کے بیانات کے نتیجے میں پاک امریکہ تعلقات اپنی تاریخ کی نچلی ترین سطح کو چھو رہے ہیں۔ غالباً پاکستان کی تاریخ میں قومی اسمبلی نے امریکہ کے طرزِ عمل کے خلاف اس قدر سخت اور متفقہ مذمتی قرارداد پاس نہیں کی۔ طے پایا کہ عید کے بعد پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں خارجہ امور پر بھرپور بحث ہوگی اور امریکہ کے ساتھ از سرِ نو تعلقات کار کے خطوط وضع کیے جائیں گے۔ شنید ہے کہ مشترکہ اجلاس میں بھی عوامی جذبات کے پیشِ نظر سیاستدان ایک دوسرے سے بازی لے جانے کے چکر میں خوب گرجیں برسیں گے۔ عام الیکشن سر پرہیں۔ لہٰذا یہ بھی امکان ہے کہ حکمران نون لیگ بھی معقول کے بجائے مقبول فیصلہ کرنے ہی کو ترجیح دے گی۔
پارلیمنٹ اہم قومی امور پر بحث مباحثہ اور پالیسی خطوط طے کرنے کا سب سے بڑا فورم ہے، لیکن دقت یہ ہے کہ پارلیمنٹ میں حکومت اور حزبِ اختلاف کے لیڈروں کے درمیان اپنے آپ کو زیادہ محب وطن، قوم پرست اور سخت گیر سودا باز ثابت کرنے کا ایک مقابلہ شروع ہو جاتا ہے۔ اسمبلی کی گیلری میں موجودٹی وی کیمرے لمحہ بہ لمحہ ناظرین کو بتارہے ہوتے ہیں کہ کون سا لیڈر زیادہ بہادر اور ڈٹ جانے والا ہے۔ زیادہ تر خطابات کا مقصد عوام کے جذبات سے کھیلنا ہوتا ہے۔ چنانچہ حساس قومی معاملات پر کوئی معتدل رائے سامنے نہیں آتی۔ مثال کے طور پر سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے یمن کی جنگ میں پاکستانی فوج کی شرکت کی درخواست کی۔ حکومت اس درخواست کو پارلیمنٹ میں لے آئی۔ بحث ہوئی اور جم کر ہوئی۔ حکومت نے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو جواب دیا کہ پارلیمنٹ نہیں مانتی۔ دونوں ممالک ناراض ہوگئے۔ متحدہ عرب امارات کی ناراضی تو اخبارت کی شہ سرخیوں کی زینت بنی۔ سعودی عرب نے شکوہ کیا کہ آپ فوج نہیں دینا چاہتے تھے، تو خاموشی سے معذرت کر لیتے۔ دہائیوں پر محیط دو طرفہ تعلقات کا پارلیمنٹ میں تمسخر کیوں اڑایا؟
امریکہ کے ساتھ تعلقات میں اونچ نیچ ہوتی رہتی ہے لیکن ان تعلقات کی بنیاد قائداعظم محمد علی جناح اور لیاقت علی خان نے رکھی ہے۔ ان کی جڑیں ہماری سیاسی اور سماجی زندگی میں بہت گہری ہیں۔ اب یک دم تعلقات کو کشیدگی اور محاذ آرائی کی راہ پر ڈالنا دانشمندی نہیں۔ پاکستان کی موجودہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کا خیال ہے کہ چین کی طرف سے ملنے والی امداد اور پاک چین اقتصادی راہداری پر تعمیراتی سرگرمیاں شروع ہونے کے بعد اسے امریکہ کو آنکھیں دکھانے کا نادر موقعہ ملا ہے۔ اس کے برعکس حقیقت یہ ہے کہ ’’سی پیک‘‘ پر کامیابی سے عمل درآمد کے لیے پاکستان کو امریکہ کے ساتھ خوشگوارتعلقات رکھنے ہوں گے ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکہ اور بھارت نہیں چاہتے کہ سی پیک کے منصوبوں پر تیزی سے عمل درآمد ہو۔ امریکہ نے بظاہر کھلے عام کسی ناپسندیدگی کا اظہار نہیں کیا لیکن بھارت نے سی پیک کی سرعام مخالفت کی بلکہ اسے ناکام بنانے کے لیے سیاسی، سفارتی اور عسکری سطح پر مسلسل سرگرم رہتا ہے۔ انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل افیئرز کے ڈائریکٹر سردار امجد یوسف خان گزشتہ پندرہ برس سے ہر سال تین بار جنیوا میں قائم اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے اجلاس میں شرکت کرتے ہیں، بتاتے ہیں کہ اس سال مارچ میں بھارت نے بھاری سرمایہ کاری کرکے دنیا بھر سے ڈیڑھ سو کے قریب پاکستان مخالف بلوچیوں، سندھیوں، مہاجروں ، گلگتیوں اور کشمیریوں کو جینوا میں جمع کیا۔ وہ ہر روز سیمینارز کرتے۔ سفارت کاروں سے ملاقاتیں کرتے اور یادداشتیں تقسیم کرتے رہے۔ چار ہفتے تک جاری رہنے والی ان کی سرگرمیوں کا محور پاک چین اقتصادی راہداری کی مخالفت کرنا تھا۔ بات یہاں پر رکتی نہیں۔ بھارتی آرمی چیف جنرل بیپن روات نے کوئی ڈھکی چھپے رکھے بغیر تین دن قبل ایک سیمینار میں کہا: ’’ہمارے پڑوس میں چین اپنے اثر و رسوخ میں مسلسل اضافہ کر رہاہے۔ خاص طور پر پاکستان، مالدیب، سری لنکا اور برما کے ساتھ اس کے تعلقات پر بھارت کو تشویش ہے۔ سی پیک کا پاکستان کے زیرانتظام کشمیر سے گزرنا بھارت کی خودمختاری کے لیے ایک چیلنج ہے۔‘‘
پیش نظر رہے کہ جب بھی کسی ملک کا سربراہ یا آرمی چیف کوئی پالیسی بیان جاری کرتاہے، تو اسٹیٹ مشینری اس پر عمل درآمد کے لیے خودبخود متحرک ہوجاتی ہے۔
قومی اسمبلی میں ہونے والی بحث نے مجھے 1965ء کی پاک بھارت جنگ کی یاد دلا دی۔ اس زمانے میں پاکستان عالمی افق پر تیزی سے ابھرتی ہوئی ایک معاشی قوت تھا۔ ترقی کے پہیہ کو الٹا گھمانے کی خاطر اسے جنگ میں الجھا دیا گیا۔ پاک بھارت جنگ کے بعد ملک زبردست سیاسی عدم استحکام شکار ہوگیا۔ مارشل لا نافذ کرکے الیکشن کرائے گئے، تو ملک ہی دولخت ہوگیا۔ آج تک پاکستان دوبارہ معاشی طور پر اپنے پاؤں پر کھڑا نہ ہوسکا۔ اگر اس وقت جنگ نہ ہوئی ہوتی، تو شایدآج پاکستان ایک عالمی معاشی اور عسکری قوت ہوتا۔
عالمی طاقتیں جس ملک کو تباہ کرنا چاہتی ہیں، وہ اسے علاقائی محاذ آرائی یا پھر خانہ جنگی کا شکار کردیتی ہیں۔ چین کو جنگ وجدل میں الجھانے کے لیے استعمار نے کیا کیا پاپڑ نہیں بیلے، لیکن بیجنگ نے تحمل کا مظاہرہ کیا اور کسی بھی مسئلہ پر کشیدگی کو ایک حد سے تجاوز نہ کرنے دیا۔
سوال یہ ہے کہ آخر ایسا کیا ہوا کہ پاکستان اپنے جذبات پر قابو نہ پاسکا؟ حقیقت یہ ہے کہ صدر ٹرمپ کے بھارت کو افغانستان میں اہم کردار ادا کرنے کے اعلان نے پاکستان کو بہت افسردہ کیا۔ گذشتہ سولہ برس سے بھارت افغانستان میں ایک اہم کھلاڑی کے طور پر موجود ہے۔ سابق صدر حامد کرزئی ہوں یا موجودہ اشرف غنی، دونوں بھارت کے قریبی حلیف اور شراکت دار ہیں۔ ماضی میں امریکہ کی کوشش ہوتی تھی کہ وہ بھارت کو ایک حد میں رکھے، تاکہ پاکستان ردعمل میں کھیل ہی بگاڑ نہ دے، لیکن اب امریکی چاہتے ہیں کہ پاکستان اور بھارت میں دھائیوں سے جاری محاذ آرائی میں اضافہ ہو، تاکہ سی پیک کے منصوبوں پر کام کی رفتار سست پڑ جائے۔ چین کو بھی باور کرایا جائے کہ پاکستان کے ساتھ تعلقات کو گہرا کرنے کے نتائج اس کی سلامتی کے لیے بھی خطرناک ہوسکتے ہیں۔ اسی پس منظر میں واشنگٹن نے نریندر مودی کو افغانستان کی تعمیر نو اور سکیورٹی میں کلیدی کردار ادا کرنے کے لیے پیٹھ ٹھونکی ہے۔
توقع کے عین مطابق پاکستان کے طول و عرض میں اشتعال پھیل چکا ہے۔ روایتی امریکہ مخالف لابیاں سرگرم ہیں اور وہ حکومت کو شہ دے رہی ہیں کہ ’’ٹرمپ کوللکارو۔‘‘ ہمارے پڑوسی ایران کی امریکہ کے ساتھ محاذآرائی قریب اڑتیس سال پر محیط ہے۔ اس دوران میں ایران نے امریکہ کے ساتھ سلسلہ جنبانی منقطع نہ ہونے دیا۔ اسلام آباد کو بھی قطع تعلق کی آرا پر کان دھرنے کی ہرگزضرورت نہیں ۔
پاکستان کو امریکی انتظامیہ اور رائے عامہ کو باور کرانا ہوگا کہ وہ افغانستان کے استحکام کے لیے نہ صرف مخلص ہے بلکہ ایک مستحکم افغانستان ہی مستحکم پاکستان کی ضمانت فراہم کرتا ہے۔ وہ بھارت کے جھانسے میں آکر پاکستان کے خلاف ایسے اقدامات سے گریز کرے جو دونوں ممالک کے مفادات کے خلاف ہوں۔
مکرر عرض ہے کہ امریکہ اور بھارت کو کسی بھی صورت میں ایک صفحے پر جمع نہیں ہونے دینا چاہیے۔ خواہ انا کی قربانی ہی کیوں نہ دینا پڑے……!