پچھلے مہینے اسلام آباد کے ایک چائے خانے پر کچھ دوستوں کے ساتھ بات ہو رہی تھی، کہ اچانک موضوع نے بچوں کی پرورش کا رنگ لے لیا۔ دورانِ گفتگو ایک دوست نے ایک بات کی جسے مَیں نظر انداز نہ کرسکا۔ دوست نہ کہا کہ میں جب دو تین ہفتے بعد گھر چلا جاتا ہوں، تو اپنے بھتیجے کے ساتھ پیار کرنے اور گپ شپ لگانے کی کوشش کرتا ہوں۔ مَیں اکثر اوقات اس کوشش میں ناکام رہتا ہوں۔ کیوں کہ وہ مجھ سے دور بھاگتا ہے۔ شروع میں مجھے اندازہ نہیں تھا کہ ایسا کیوں ہورہا ہے کہ بچے مجھ سے دور بھاگتے ہیں۔ بعد میں گھر اور محلے کا ماحول اور گھر اور آس پاس میں موجود لوگوں کا بچے کے ساتھ رویہ دیکھ کر مجھے اندازہ ہوگیا کہ معاملہ کیا ہے! معاملہ اصل یہ ہے کہ گھر اور آس پاس کے گھروں میں بچے کے ماں باپ کے علاوہ اُس کے چچا، ماموں، دادا، نانا،چچی، مامی، دادی، نانی اور دوسرے بڑوں کو مِلا کر پورے تیس لوگ ہیں جو ہر وقت بچے پر نظر رکھے ہوئے ہوتے ہیں۔ چاہے وہ گھر میں ہو یا گھر سے باہر۔ مجھے لگا جیسے مطلوبہ بچے کا ایک نہیں بلکہ تیس تیس باپ ہیں۔ بات صرف نظر رکھنے تک محدود نہیں بلکہ بچے کو مسلسل نصیحتیں، سرزنش اور ڈانٹ ڈپٹ بھی ملتی رہتی ہے۔ اتنے زیادہ تعداد میں لوگوں سے یہ سب سُن کر اور دیکھ کر بچہ تنگ آجاتا ہے اور پھر بڑوں سے دور بھاگتا ہے اور یہی وجہ تھی کہ میرا بھتیجا بھی میری کوشش کے باوجود میرے پاس وقت گزارنے سے کتراتا تھا۔
قارئین، یہاں یہ بات کرنے کا مقصد پشتونوں کی پرانی روایتی طرزِ زندگی یعنی ’’مشترکہ خاندانی نظام‘‘ پر اعتراض نہیں، بلکہ بات کا مقصد اُس میں موجود کچھ عناصر اور اُس کے نقصانات کا سامنے لانا ہے۔ یہاں یہ بات قابلِ غور ہے کہ ضروری نہیں کہ ایسی صورتحال میں بچے سارے بڑوں سے دور بھاگنا شروع کریں۔ ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ بچہ نہ جانتے ہوئے سب بڑوں سے دور رہے، اور جب پتا چلے کہ فلاں بندہ اچھا ہے، تو وہ سارے خاندان میں صرف اُس کے پاس جانے میں خوشی محسوس کرے۔ یہاں یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ چوں کہ انسانی نفسیات ایک پیچیدہ چیز ہے، اس لیے ضروری نہیں کہ مشترکہ خاندانوں میں ایسے رویے کی وجہ سے ہمیشہ ایسا ہو۔ اور یہ بھی ضروری نہیں کہ بچے کے بڑوں سے دوری کی وجہ ہمیشہ یہی ہو۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ مشترکہ خاندانی نظام کے بہت سارے فائدے ہیں، اور خاص کر بچوں کی پرورش میں اس کا بڑا اچھا کردار ہے، لیکن اُن فائدوں کے ساتھ کچھ نقصانات بھی ہیں۔
جیسے ایک افریقی کہاوت کے مطابق ’’ایک بچے کی پرورش کے لیے پورے گاؤں کی ضرورت ہوتی ہے۔‘‘ یہ کہاوت اِس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ بچے کی صحیح اور غلط دونوں طرح کی پرورش میں آس پاس رہنے والے تمام لوگوں کا کسی نہ کسی طریقے سے کردار ہوتا ہے۔ مشترکہ خاندانی نظام میں ایک طرف اگر لوگوں کی زیادہ تعداد کی وجہ سے کوئی بھی شخص تنہائی کا شکار نہیں ہوتا، رہنمائی کے لیے مختلف عمر اور ذہن رکھنے والے لوگ موجود ہوتے ہیں، خوشیاں بانٹی جاتی ہیں، دکھ درد شریک کر کے کم کیے جاتے ہیں اور بچوں کو ماں باپ کی غیر موجودگی میں پرورش یا عارضی دیکھ بھال کے لیے اور بھی لوگ مل جاتے ہیں، لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس نظام میں معمولی چیزیں بڑے نقصان کا باعث بھی بن سکتی ہیں۔ جیسے کہ اوپر مثال میں واضح ہے کہ زیادہ لوگوں کے غلط رویے کی وجہ سے بچہ بڑوں سے دور رہتا ہے، اور اُس کی پرورش پر خطرناک اثر ہوتا ہے۔ مشترکہ خاندانی نظام میں بچوں کی پرورش کے متعلق ماہرین نے کچھ تجاویز دی ہیں جن کو مدِنظر رکھ کر بڑے خاندان میں بچے کی اچھی پرورش کی جاسکتی ہے۔
بڑے خاندانوں میں اکثر یہ ہوجاتا ہے کہ بچے کو ایک چیز کے بارے میں مختلف لوگوں کی جانب سے مختلف معلومات اور رہنمائی ملتی ہے۔ بچہ تذبذب کا شکار ہوجاتا ہے کہ کون سی بات ٹھیک سمجھی جائے؟ اس لیے خاندان کے افراد کو ایسی صورتحال کے بارے میں بیٹھ کر بات کرنی چاہیے تاکہ بچے کو درست بندے سے ٹھیک رہنمائی ملے۔
والدین اور گھر کے دوسرے افراد کو چاہیے کہ بچے کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہوئے اُس کی قابلیت کو نظر انداز نہ کریں۔ کیوں کہ بچہ اکثر اچھی طرح جانتا ہے کہ کس چیز اور کام کے لیے اُسے گھر کے کس شخص کے پاس جانا چاہیے۔ گھر والوں کے ساتھ تھوڑا وقت گزرنے کے بعد بچہ اپنی ضرورتوں اور اُس کے پورا کرنے والوں کو سمجھ جاتا ہے۔ اور ضرورت کے وقت وہاں پہنچ جاتا ہے۔ اس لیے بچے پر اعتماد کرنا چاہیے۔
گھر کے افراد کو چاہیے کہ بچے کے لیے بنائے گئے ’’ٹائم ٹیبل‘‘ اور متعین کی گئیں سرحدوں کا احترام کریں، اور کسی کو بھی مطلوبہ وقت یا سرحدوں کو توڑنے کوشش نہیں کرنی چاہیے۔ کیوں کہ ایسا کرنے کی صورت میں معمول خراب ہوجائے گا، اور نتیجتاً بچے پر اس عمل کا خراب اثر پڑے گا۔
چوں کہ گھر میں مختلف عمروں اور ذہنوں کے افراد موجود ہوتے ہیں، اس لیے بچے کی پرورش سمیت ساری چیزوں پر رائے کا اختلاف ہوسکتا ہے۔ ایسی صورتِ حال میں بڑوں کو چاہیے کہ بچوں کو دکھائے اور بتائے بغیر اپنے اختلافات حل کریں، اور جب بھی بچے کے سامنے آئیں، تو ایک اکائی بن کر آئیں، تاکہ بچہ بڑوں کے اختلاف رائے سے تذبذب کا شکار ہونے کے بجائے آرام سے اچھی تربیت حاصل کرے۔
بڑوں کو چاہیے کہ اگر ایک شخص کسی چیز کے بارے میں بچے کو سمجھا رہا ہے، تو دوسرے خاموش رہنے کی کوشش کریں۔ کیوں کہ بڑوں کے آپس کے اختلافِ رائے سے بچہ خود مسائل کا شکار ہوسکتا ہے۔
بچے کے والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچے کی پرورش کے دوران میں اپنے والدین کے تجربے کا استعمال کریں، اور اُن کی رائے کو ہلکا نہ لیں۔ کیوں کہ وہ بھی ایک وقت میں والدین رہ چکے ہیں اور اِسی میدان میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔
اکثر سننے میں آتا ہے کہ لوگوں کو اپنی والاد سے زیادہ اُن کی اولاد پسند ہوتی ہے۔ اور یہ اکثر ہمارے معاشرے میں دیکھنے کو بھی ملتا ہے کہ اکثر بڑے افراد اپنے نواسے نواسیوں کو اپنے ساتھ لیے پھرتے ہیں۔ اس لیے بچوں کے والدین کو چاہیے کہ اپنے والدین کی خواہش اور تجربے کا بھرپور فائدہ اُٹھا کر اُن کو بچوں کی پرورش میں زیادہ موقعہ دیں ۔
بچے کی پرورش میں شامل تمام افراد کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ بچے کی زندگی میں مالک کا کردار صرف ایک شخص ادا کرے، اور وہ بچے کے ماں باپ میں سے کوئی ہو۔ مالک سے مراد وہ شخص ہے جو بچے کو اُس کی ہر خطا یا شیطانی پر اُسے نفع نقصان بتانے سمیت باقی چیزوں کے بارے میں آرام سے سمجھائے کہ فلاں کام ایسے نہیں بلکہ ایسے ہونا چاہیے۔ اگر ایسا نہیں ہوگا، تو اوپر مثال میں بیان کیے گئے بچے کی طرز کا معاملہ ہوگا۔ اور بچے کی پرورش، نفسیات، شخصیت اور مستقبل پر خطرناک اثر مرتب ہوگا۔
قارئین، ویسے تو بچوں کی تربیت میں بہت احتیاط کرنی چاہیے۔ کیوں کہ اِس کا اثر بچوں کے نفسیات، شخصیت اور مستقبل سمیت اُس کی آنے والی نسلوں پر ہوتا ہے، لیکن مشترکہ خاندانی نظام میں رہنے والے بچوں کی تربیت پر اوپر بیان کیے گئے طریقوں کو مدنظر رکھتے ہوئے خصوصی توجہ دینی چاہیے۔ کیوں کہ اچھی تربیت کے ذریعے ہی ایک بچہ اچھی شخصیت کا مالک ہو کر اپنے خاندان اور قوم و ملک کی ترقی اور خوشحالی میں مثبت کردار ادا کرسکتا ہے۔

…………………………………………..

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔