فلوریڈا ملبورن میں ہمارے دن گزرتے گئے اور فلوریڈا ٹوڈے میں صحافتی سرگرمیوں میں اپنا حصہ ڈالتے رہے۔ ساتھ وہاں کے ماحول میں بہت کچھ سیکھتے بھی گئے۔ امریکہ کی صحافت ہماری ملکی صحافت سے بالکل مختلف ہے۔ وہاں کی زیادہ ترریاستوں میں لوکل اور سٹیزن جرنلزم کو زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ سٹیٹ میں رہنے والے لوگ صرف اپنے ہی علاقہ کی خبروں میں دلچسپی لیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں دنیا کے دوسرے ممالک میں ہونے والے واقعات میں زیادہ دلچسپی نہیں۔ تاہم ایک بات جو مَیں نے وہاں سیکھی، وہ یہ تھی کہ وہاں جرنلزم کے تمام شعبوں میں ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کا استعمال قدرے زیادہ ہے۔ وہاں آن لائن نیوز سٹوری میں ویڈیو، ٹیکسٹ، فوٹو اور آڈیو سب کچھ شامل ہوتا ہے، یعنی قاری کو نہ صرف لکھی ہوئی نیوز سٹوری پڑھنے کو ملتی ہے بلکہ دیکھنے کو ویڈیو اور تصویر بھی ملتی ہے۔ ہم اکثر نیوز رپورٹنگ کے لیے جاتے اور مقامی رپورٹرز کے ساتھ سٹوری کرتے جن میں ایک روڈ ایکسیڈنٹ کی سٹوری، سگ گزیدہ پولیس اور ایک مگرمچھ کے گوشت کی فروخت والی سٹور ی شامل تھی۔ ڈولفن مچھلیوں کی سیر کی سٹوری مَیں نے خود کی تھی۔ ا س کے علاوہ ہم سے ’’فلوریڈا ٹوڈے‘‘ کے ٹی وی چینل کے ایک پروگرام میں انٹرویو بھی لیا گیا۔ اس کے علاوہ فلوریڈا میں ریڈیو کے ایک گھنٹا پروگرام میں بھی مہمان کے طور پر مجھے مدعو کیا گیا۔ بوب ہمیں آفس ٹائمنگ میں مختلف محکموں کی سیر بھی کراتا۔ ہم وہاں کے آفیسرز سے ملتے اور ان کا انٹرویو بھی لیتے۔ جب کہ آفس کے وقت کے بعد بوب اور ڈانا ہمیں فلوریڈا کے مختلف مقامات کی سیر کرواتے، یوں سیکھنے سکھانے کا عمل جاری رہتا۔
مَیں جب جاپان میں تھا، تو وہاں میری ملاقات ایک امریکی خاتون ’’نینسی‘‘ سے ہوئی تھی، جو اپنے بھائی سے ملنے کچھ دنوں کے لیے جاپان گئی تھی۔ نینسی کے ساتھ میں نے ہیروشیما کا سفر کیا تھا۔ ان سی میری ڈھیر ساری خوشگوار یادیں وابستہ تھیں۔ کیوں کہ وہ ثقافتی ورثوں اور تاریخ سے لگاؤ رکھتی تھی۔ وہ اکثر مجھے امریکہ آنے کی دعوت دیتی تھی۔ اس لیے جب مَیں امریکہ آیا، تو پہلے ہی دن سے وہ مجھے اٹلانٹا آنے کی دعوت دیتی رہی۔ کیوں کہ وہ اٹلانٹا میں کاروبار کرتی تھی، اور وہی رہتی تھی۔ اس لیے ایک ’’ویک اینڈ‘‘ کو فیصلہ کیا، کہ دو دن کے لیے اٹلانٹا جاؤں۔ اس لیے بوب سے پیشگی اجازت لی اور ساتھ ہی کسی اچھی ائیر لائن کا ٹکٹ بک کروانے کی درخواست بھی کی۔ بوب نے اجازت دی اور ساتھ ہوائی جہاز کا ٹکٹ بھی بک کرایا۔ جمعہ کے دن میں نے تیاری کی اور نینسی کو اپنے سفر کے بارے میں آگاہ کیا، جس کی وجہ سے وہ بہت خوش ہوئی اور فوراً ہی میرے لیے ایک بزنس میٹنگ منسوخ کی۔ چوں کہ مجھے اورلینڈو ائرپورٹ سے اٹلانٹا جانا تھا، اس لیے بوب مجھے اپنی گاڑی میں لے گیا اور میرے ساتھ اندر جا کر خودکار (آٹومیٹک) مشین سے بورڈنگ پاس بھی بنوایا۔ اس موقع پر بوب میری کچھ ایسی مدد کر رہا تھا جیسے مَیں چھوٹا بچہ ہوں۔ جب وہ میرے لیے سب کچھ کر رہا تھا، تو مجھے محسوس ہوا کہ ان لوگوں میں ذمہ داری اور احساس کا مادہ ہم سے کئی گنا زیادہ ہے۔ خیر، مَیں نے بوب سے رخصت لی اور ایک لمبی قطار میں لگ گیا۔ یہاں مسافروں کی بہت زیادہ بھیڑ لگی ہوئی تھی۔ امریکہ میں ہوائی جہاز سے سفر سب سے زیادہ استعمال ہونے والا ذریعہ ہے۔ جب کہ دوسرے ممالک میں ٹرین اور بسوں سے سفر عام ہے۔ یہاں لوگ جہاز سے سفر کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس لیے یہاں ائرلائن کمپنیاں بھی بے شمار ہیں اور ہوائی سفر قدرے سستا بھی پڑتا ہے۔ ائرپورٹس میں اتنی بھیڑ ہوتی ہے کہ بعض جگہوں پر تِل دھرنے کی جگہ بھی نہیں ملتی۔ میں نے ٹکٹ فرنٹیر ائیر لائن سے خریدا تھا، جس کا مشورہ مجھے نینسی نے دیا تھا۔ تقریباً دو گھنٹے کے سفر کے بعد میں اٹلانٹا ائرپورٹ پر اتر گیا، جہاں نینسی میرا انتظار کر رہی تھی۔ انہوں نے مجھے کہا تھا کہ وہ ’’جی گیٹ‘‘ کے باہر میرا انتظار کرے گی۔ جونہی میں گیٹ سے باہر نکلا، تو نینسی اپنی سیاہ رنگ کی بغیر چھت والی موٹر کار کے ساتھ کھڑی تھی۔ مَیں سیدھا اس کی طرف گیا اور علیک سلیک کے بعد گاڑی میں بیٹھ کر ان کے گھر کی طرف چلنے لگے۔ نینسی کے چہرے سے لگ رہا تھا کہ وہ بہت خوش تھی۔ وہ ڈرائیو کرتے ہوئی میری طرف دیکھ کر مسکرائی اور کہا کہ ’’آخر میرے وطن آ ہی گئے۔‘‘ مسکراتے ہوئے سر کے اشارے سے ہاں کہہ دیا۔ نینسی امریکی مڈل کلاس خاتون ہے، جو اپنا بزنس کرتی ہے اور تنہا رہتی ہے۔ اس نے راستے ہی میں مجھ سے دو دن کا پلان شیئر کیا کہ وہ اٹلانٹا میں مجھے کون کون سی جگہیں دکھانے جا رہی ہے۔ جاپان میں کچھ دن اکٹھا گزارنے کی وجہ سے اس کو میری پسند اور ناپسند کا پتا لگ چکا تھا۔ اس لیے اس نے زیادہ تر تاریخی و ثقافتی مقامات کو چنا تھا۔ آدھا گھنٹا بعد ہم درختوں کے جھنڈ میں ہوتے ہوئے ایک پوش علاقہ میں داخل ہوئے، جو ایک چھوٹی سی پہاڑی پر قائم تھا۔ سڑک کی دونوں جانب خوبصورت بنگلہ نما گھر تھے، جب کہ چند درختوں کے درمیان چھوٹے چھوٹے پارکس رہی سہی کسر پورا کر رہے تھے۔ نینسی نے گاڑی بائیں جانب ایک چڑھائی پر موڑ دی اور ایک چھوٹے سے ٹھیلے پر گاڑی روک دی، جہاں صرف ایک ہی بنگلہ تھا۔ ہم گاڑی سے اترے، تو نینسی نے ریموٹ سے دروازہ کھولا اور ہم اندر داخل ہوئے۔ یہ ایک پُرتعیش گھر تھا، جہاں فرنیچر سے لے کر کارپٹ تک اور دیواروں پر لٹکتے پینٹنگز تک ہر چیز قیمتی نظر آرہی تھی۔ گھر کے عقب میں سوئمنگ پول تھا جس کے ساتھ بار بی کیو اور پکنک کے سامان کے لیے بڑی بڑی جگہیں بنائی گئی تھیں، بیٹھنے کے لیے کرسیاں اور گول میزیں بھی لگائی گئی تھیں۔ نینسی نے مسکراتے ہوئے کہا کہ سوئمنگ پول ہمارا انتظار کر رہا ہے۔ سوئمنگ کے بعد پول کے کنارے ہم نے دوپہر کا کھانا کھا یا۔ اس کے بعد گھر کے اندر گئے، تیار ہوئے اور اٹلانٹا شہر کی سیر کے لیے نکل گئے۔

یہ ہے کوکاکولا اور ڈسپلے سنٹر کا باہری منظر۔ (فوٹو: لکھاری)

اٹلانٹا جورجیا سٹیٹ کا دارالخلافہ ہے۔ ویسے تو اٹلانٹا میں دیکھنے کے لیے بہت کچھ ہے، لیکن یہ تاریخی شہر امریکی سیاہ فام تحریک کے روح رواں اور سیا ہ فاموں کو غلامی کی اذیت سے نجات دلانے والے مارٹن لودر جونیئر کی پیدائش اور تحریک کا شہر ہے۔ اس کے علاوہ یہاں ’’سی این این‘‘ کا ہیڈکوارٹر، کوکا کولا میوزیم اور ڈسپلے سنٹر، سول رائٹس موومنٹ کا عجائب گھر اور اولمپک پارک بھی ہے۔

سول رائٹس موومنٹ کے عجائب گھر کی تصویر۔ (فوٹو: فضل خالق)

نینسی مجھے سب سے پہلے مارٹن لودر کنگ جونیئر کے محلہ لے گئی اور وہ گھر دکھایا جہاں وہ پیدا ہوا اور اپنی زندگی گزاری۔ یہ ایک چھوٹا سا گھر تھا جو لکڑی سے بنا ہوا تھا۔ نینسی نے مجھے ہاتھ سے پکڑا اور گھر کے اندر لے گئی، جہاں ایک بنچ پر ہم بیٹھ گئے۔ نینسی نے کہا کہ اس بنچ پر مارٹن بیٹھ کر سیاہ فام لوگوں کو غلامی سے آزاد کرانے کے لیے منصوبے بناتا تھا۔ مَیں نے بنچ پر تصویر بنائی۔

مارٹن لودر کنگ جونیئر کے گھر کے ساتھ لکھاری کی ایک یادگار تصویر۔ (تصویر: نینسی)

کچھ دیر رُکنے کے بعد ہم آگے چلے گئے اور مشہور اولمپک پارک میں داخل ہوئے جو ڈاؤن ٹاؤن اٹلانٹا کے وسط میں بنایا گیا ہے۔ یہ پارک 1996ء میں منعقدہ اٹلانٹا اولمپک کی یاد دلاتا ہے۔ ہم پارک میں پیدل چلتے ہوئے دوسری جانب نکل گئے، جہاں کوکا کولا میوزیم جسے ورلڈ آف کوکا کولا کہتے ہیں، گئے۔ میوزیم کے اندر کوکا کولا کی مکمل تاریخ اور اس سے جڑی تاریخی تصاویر، سٹال وغیر ہ لگے ہیں۔ کوکا کولا میوزیم کے سامنے سنٹر فار سول اینڈ ہیومن رائٹس کی عمارت ہے، جہاں امریکی سول رائٹس تحریک کے بارے میں تاریخی واقعات اور تصاویر لگی ہیں۔یہاں سے ہم سیدھا ’’سی این این‘‘ کے ہیڈکوارٹر گئے، جو ایک بڑی عمارت میں واقع ہے۔ عمارت کے وسط میں شاپنگ مال اور ریسورنٹ ہیں۔ یہاں آنے والے لوگوں کے لیے ٹور گائیڈ کا بھی انتظام ہے جس میں دنیا کی سب سے لمبی لفٹ میں لوگوں کو نیوز سٹوڈیوز اور دوسرے پروگراموں کی ’’لائیو کوریج‘‘ دکھائی جاتی ہے۔ ہم نے یہاں چائے نوشِ جاں فرمائی اور پھر جیسے باہر نکلے، تو دیکھا کہ شام کے سائے گہرے ہوچکے تھے۔ اس لیے کار میں بیٹھ کر اٹلانٹا شہر کی سڑکو ں پر گاڑی دوڑانے لگے۔ وہ مجھے مختلف عمارتوں کے بار ے میں بتاتی اور آخر میں ایک آرٹ میوزیم لے گئی، جہاں ہم گاڑی سے اترے اور آرٹ کے مختلف فن پاروں سے لطف اندوز ہوتے گئے۔ نینسی یہاں اتنی خوش تھی کہ کبھی کبھی تو جھومتی اور مجھے دیکھ کر مسکراتی۔ اس کی اس خوشی کو دیکھ کر مَیں نے نینسی کی کچھ تصاویر بھی لیں۔

مقبول و معروف نشریاتی ادارے سی این این میں لکھاری کی تصویر۔ (فوٹو: نینسی)

یہاں سے فارغ ہوئے تو فیصلہ کیا کہ گھر واپس جائیں۔ گھر جاتے ہوئے نینسی نے اپنی پسند کے ایک میکسیکن ریسٹورنٹ کے سامنے گاڑی روکی اور کہنے لگی کہ آپ لوگ مصالحہ دار کھانے پسند کرتے ہیں اور یہاں آپ کی مرضی کے کھانے ملتے ہیں۔ ہم اندر گئے، تو چاول اور چکن کا آرڈر دے کر انتظار کرنے لگے۔ تھوڑی دیر میں ہمارا آرڈر تیا رتھا، جو ہم نے پیک کیا اور گھر کا راستہ ناپنے لگے۔ جب ہم گھر پہنچے، تو رات ہوچکی تھی۔ اس لیے ہم نے شاور لیا اور فریش ہوکر ڈنر کے لیے تیار ہوئے۔ نینسی نے ڈنر بھی باہر سوئمنگ پول کے قریب گول میز پر لگایا، جہاں ہلکی ہلکی ہوا چل رہی تھی۔ نینسی کا گلابی مائل چہرہ اور بدن سیاہ لباس میں دلکش لگ رہا تھا۔ ہلکی ہوا ہی اس کے ماتھے پر زلف کو لہرانے کے لیے کافی تھی۔ چاروں اُور اندھیرا تھا اور سوئمنگ پول کے اردگرد برقی قمقموں کی ہلکی سی روشنی میں اِک عجیب سا سماں بندھ گیا تھا۔ کھانا شروع ہوا، تو نینسی نے مجھ سے پوچھا کہ اٹلانٹاکیسا لگا؟ مَیں نے اسے اپنے دل کی بات کہی کہ میں اٹلانٹا کو مارٹن لودر کنگ جونیئر کی وجہ سے جانتا تھا۔ اس شہر کا دیکھنا میرا خواب تھا جو آپ کی وجہ سے پورا ہوا۔ اس نے ہلکی سی مسکراہٹ سے میری بات کا جواب دیا اور کہنے لگی کہ وہ جاپان میں میری صحبت سے لطف اندوز ہوئی تھی۔ اس کے بعد سے یہ اس کی خواہش تھی کہ وہ مجھے اٹلانٹا اور نیویارک ضرور دکھائے۔ کھانے کی میز پر ہم دیر تک بیٹھے رہے۔ کافی گپ شپ کے بعد ہم نے کل کے پروگرام پر بات کی اور سونے کا فیصلہ کیا۔ اس لیے نینسی نے مجھے میرا بیڈروم دکھایا اور خود جا کر گھر کے بچھے کچھے کاموں میں مصروف ہوگئی۔ (جاری ہے)

…………………………………………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔