بی آر آئی (بیلٹ اینڈ روڈ انیشٹیو)، سی پیک اور علاقائی اتحاد کے موضوع پریہ دو روزہ کانفرنس ایریا سٹڈی سنٹر نے چینی سفارت خانے، آئی ایم سائنسز حیات آباد، سی پیک سنٹر اسلام آباد اور سی جی ایس ایس کے تعاون سے گیارہ اور بارہ ستمبر 2019ء کو منعقد کرایا ۔ گیارہ ستمبر 2019ء کو کانفرنس کا افتتاح ہوا۔ کانفرنس میں ازبکستان، قازقستان، کرغزستان، تاجکستان، افغانستان، چین، روس اور ایران کے پروفیسرز اور سکالرز نے شرکت کی۔ ان کے علاوہ مذکورہ ممالک کے سفرا نے بھی شرکت کی۔
افتتاحی تقریب کے مہمان خصوصی پاکستان میں چین کے سفیر جناب یاو جین تھے۔ اس موقع پر ڈائریکٹر ایریا سٹڈی سنٹر پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خان نے اپنے استقبالیہ خطبے میں تمام سفیروں، بیرونی ملکوں کے شرکا، طلبہ اور مہمانوں کو خوش آمدید کہتے ہوئے کہا کہ موجودہ دور میں اس خطے میں اتحاد و تعاون کی بہت ضرورت ہے۔ آپ نے علاقائی امن اور ترقی کے لیے اس ریجن کے تمام ممالک کے تجارتی و ثقافتی تعلقات کی اہمیت اور افغانستان میں امن کی بحالی پر مفصل بات کی، اور ساتھ ساتھ اس علاقائی اتحاد اور تعاون میں سی پیک اور بی آر آئی کی اہمیت پر روشنی ڈالی ۔
اسی موقعہ پر چینی سفیر نے اپنے صدارتی خطبہ میں کہا کہ بی آر آئی میں چین کی بنیادی توجہ اقتصادی ترقی اور علاقائی تعاون اور ترقی کے لیے خطے میں بنیادی ڈھانچہ کی ترقی اور ٹیکنالوجی کا انتقال ہے۔ آپ نے سی پیک اور بی آر آئی کی اہمیت پر تفصیلی گفتگو کی ۔ آپ نے سی پیک اور بی آر آئی میں خیبر پختونخوا صوبہ کی علاقائی اہمیت کو بھی واضح کیا۔ آپ نے کہا کہ خیبرپختونخوا، افغانستان کے ساتھ تاریخی اور ثقافتی تعلقات رکھتا ہے اور یہ تعلقات علاقائی تعاون اور ترقی میں اہم کردار ادا کریں گے۔ آپ نے یہ بھی کہا کہ بدھ مت بھی افغانستان اور خیبر پختونخوا سے ہوتے ہوئے چین کو پہنچا ہے۔ آپ نے کابل اور پشاور کے درمیان موٹر وے کا ذکر بھی کیا۔ آپ نے پشاور سے کراچی تک بننے والے موٹر وے کی اہمیت کو بھی بیان کیا۔ آپ نے یہ بھی کہا کہ سی پیک کی طرح چین مرکزی ایشیا کے ساتھ توانائی کے کوریڈور کا ایک معاہدہ بھی ہے۔ آپ نے منطقہ میں امن و ترقی کے حوالے سے حال ہی میں چین، پاکستان اور افغانستان کے خارجہ وزیروں کے درمیان ملاقات کو بھی اہم سمجھا۔ آپ نے کہا کہ اس سے پاکستان اور افغانستان میں باہمی تعاون تیز ہو جائے گا ۔
اس موقعہ پر سی پیک سنٹر کے ڈائریکٹر ڈاکٹر لیاقت علی خان نے سی پیک کے حالیہ منصوبوں پر تفصیل سے روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ یہ ایک ڈائنامک پراجیکٹ ہے۔ آپ نے کہا کہ حکومت پہلے مرحلے میں کُل نو اکنامک زونز میں سے تین پر کام کر رہی ہے، جن میں ایک خیبر پختونخوا کا بھی شامل ہے۔ آپ نے کہا کہ حکومت سی پیک کے تمام منصوبوں کی تکمیل اور نفاذ میں مخلص ہے۔ سی پیک کے منصوبوں میں سست روی کو افواہیں سمجھیں۔
ڈائریکٹر جنرل فار چائینہ مدثر ٹیپو صاحب نے کہا کہ بی آر آئی اور سی پیک اکیسویں صدی کے اہم منصوبوں میں سے ہیں۔ آپ نے کہا کہ پاکستان اور چین باہمی صلاح و مشوروں سے اس پر کام کرتے ہیں۔منصوبوں میں سست روی کے بیانات غلط فہمی پر مبنی ہیں، اور وزیراعظم عمران خان نے بھی ان تمام منصوبوں کی جلدی تکمیل کے بارے میں ہدایات دی ہیں ۔
خیبر پختونخوا کے سرمایہ کاری بورڈ کے چیئرمین حسان داؤد نے کہا کہ سی پیک ایک کوریڈور ہے، مگر اس کے دروازے ڈھیر سارے ہیں۔ بی آر آئی کے تناظر میں سی پیک بیلٹ کے بکل کی طرح ہے۔ اس سے خطے میں نہ صرف اقتصادی ترقی ہوگی، بلکہ اس سے امن اور خوشحالی بھی آئے گی۔ سی پیک واقعی گیم چینجر ہے۔ موجودہ وقت میں پاکستان میں 28 ملین ڈالر کے 22 منصوبوں پر کام جاری ہے جن میں پندرہ توانائی کے شعبہ میں ہیں۔
وائس چانسلر پشاور یونیورسٹی محمد آصف خان نے کہا کہ سی پیک ملٹی پولر دنیا میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ آپ نے اس حوالے سے ایریا سٹڈی سنٹر کی خدمات کو سراہا اور اپنے مکمل تعاون کی یقین دہانی کرائی ۔
افتتاحی نشست کے بعد کرغزستان اور قازقستان کے مختلف تعلیمی اداروں اور ایریا سٹڈی سنٹر کے مابین باہمی تعاون کے معاہدات پر دستخط بھی ہوئے۔
افتتاحی نشست کے بعد دوسری اہم نشست مختلف ممالک کے سفیروں اور نمائندوں پر مشتمل تھی۔ اس نشست کی صدارت وزارتِ خارجہ پاکستان میں ڈائریکٹر جنرل چائینہ نے کی۔ اس نشست میں ازبکستان، کرغزستان، تاجکستان، قازقستان کے سفیروں، پشاور میں مقیم ایران کا کونسل جنرل اور روسی سفارت خانے کے نمائندے نے شرکت کی۔
ازبکستان کے سفیر فرقت صدیقوف نے کہا کہ پاکستان افغانستان اور ازبکستان کے درمیان ٹرانزٹ روٹس کی ضرورت ہے۔ پاکستان اور ازبکستان کے درمیان تجارت بڑھتی جا رہی ہے۔ پاکستان کو مرکزی ایشیائی ممالک اور روس کی مارکیٹ تک پہنچنے کے لیے افغانستان میں امن اور ترقی بہت اہم ہے۔ سمندر تک پہنچنے کے لیے ازبکستان کو مختصر ترین راستے کراچی اور گوادر کی سمندری اڈے کی ضرورت ہے۔ ہمیں دنیا تک پہنچنے کے لیے کراچی اور گوادر کے راستوں کی ضرورت ہے۔ انٹیگریشن (علاقائی روابط) کے بارے میں آپ نے کہا کہ یہ صرف ملٹری تعاون یا تجارت تک محدود نہیں ہے، بلکہ اس میں قریبی ثقافتی تعلقات بھی ہونے چاہئیں۔ اس بارے میں آپ نے ازبکستان اور پاکستان کے قریبی ثقافتی تعلقات پر زور دیا۔ آپ نے مشترکہ ثقافتی ورثہ کی اہمیت پر بھی بات کی۔ اس حوالے سے آپ نے یہ بھی کہا کہ پاکستانی ڈرامہ دونوں ممالک کے ثقافتی تعلقات میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ آپ نے دونوں ممالک کی زبان اور ادبیات کے اشتراکات پر بھی تحقیق کرنے کی تجویز پیش کی۔ دونوں ممالک کے درمیان علاقائی روابط کومضبوط کر نے کے لیے آپ نے ازبکستان میں اسلامی تاریخی مقامات کی زیارت کی سیاحت کو بھی اہم قرار دے دیا۔ ازبکستان میں ایسے مذہبی عالموں کی روضے ہیں جن کا پاکستان میں بڑا احترام کیا جا تا ہے۔ان میں امام بخاریؒ اور امام ترمذیؒ کے روضے ازبکستان میں موجود ہیں۔ آپ نے کہا کہ حال میں ازبکستان کے صوبہ نمنگان اور پاکستان کے صوبہ پنجاب کے درمیان ثقافتی تعاون کے معاہدات ہورہے ہیں ۔
کرغزستان کے سفیر اریک اشیمبایوف نے اس موقعہ پر کہا کہ پاکستان اور ازبکستان دونوں ممالک کے درمیان مذہبی، تاریخی اور ثقافتی تعلقات موجو دہیں، اور یہ روابط دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں مزید قربت پیدا کرسکتے ہیں۔ آپ نے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان یہ روابط سلک روڈ کے ساتھ ایک تاریخی روایت رکھتے ہیں۔ دونوں ممالک مشترکہ تاریخی عناصر اور مشترکہ ثقافتی ورثہ رکھتے ہیں۔ افغانستان امن کے حوالے سے آپ نے کہا کہ اس کا صرف حل سیاسی بات چیت ہے۔ آپ نے کہا کہ چین کے ساتھ ہمارے اچھے تعلقات ہیں، اور ہم چین پاکستان اور مرکزی ایشیا کے درمیان بہترین تعلقات چاہتے ہیں اور ان کو بہتر بنانے کے لیے ہمیں ترسیلات اور آمد و رفت کی مختصر راستوں کی ضرورت ہے۔ آپ نے دونوں ممالک کے درمیان بہتر تعلقات اور تعاون کے حوالے سے حال ہی میں وزیر اعظم عمران خان کے کرغزستان دورے کی بات بھی کی۔ آپ نے کہا کہ عمران خان نے کرغزستان کے صدر کو پاکستان آنے کی دعوت بھی دی ہے۔
پاکستان میں تاجکستان کے سفیر عصمت اللہ نصرالدین نے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان علاقائی امن اور ترقی کے لیے اقتصادی، ثقافتی اور سماجی روابط کی اہم ضرورت ہے۔ پاکستان اور تاجکستان کے درمیان روابط بڑھانے میں سی پیک اور بی آر آئی اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ پاکستان اور تاجکستان دونوں افغانستان کے ساتھ طویل ترین مشترک سرحدیں رکھتے ہیں، اس لیے افغانستان امن کے بارے میں پاکستان اور تاجکستان کا کردار بہت اہم ہوگا۔ آپ نے کراچی اور گوادر کی بندرگاہوں کی اہمیت پر بھی بات کی اور کہا کہ پاکستان اور مرکزی ایشیا اور خصوصی طور پر پاکستان اور تاجکستان کے درمیان روابط بنانے میں کراچی اور گوادر کی بندرگاہوں کا اہم رول ہوگا۔ آپ نے علاقائی امن، ترقی اور روابط کے حوالے سے خدمات پر ایریا سٹڈی سنٹر کی خدمات کو سراہا اور مکمل تعاون کی یقین دہانی بھی کرائی۔
پاکستان میں قازقستان کے سفیر رحمت اللین نے بی آر آئی اور ون روڈ اور ون بیلٹ پر بات کرتے ہوئے کہا کہ سب سے پہلے 2013ء میں چین کی صدر شی جین پین نے اسی منصوبے کا اعلان قازقستان میں کیا تھا۔ آپ نے کہا کہ قازقستان خطہ کے تمام ممالک سے بہترین تعلقات رکھتا ہے۔ افغان امن مذاکرات کے حوالے سے آپ نے کہا کہ خطے میں امن اور ترقی لازم ملزوم ہیں۔ امن کے بغیر ترقی اور ترقی کے بغیر امن ناممکن ہے۔ بی آر آئی اکیسویں صدی کا سب سے بڑا پراجیکٹ ہے۔ آپ نے اس حوالے سے عالمی منڈی سے دوری اور تنہائی جیسے چیلنجوں کا بھی ذکر کیا۔ آپ نے کہا کہ ایران اور پاکستان کی سمندری بندرگاہیں ہمارے لیے بہت اہم ہیں۔ آپ نے پاکستان اور قازقستان کے درمیان ثقافتی اور تعلیمی روابط کی اہمیت پر بھی زور دیا۔ اسی موقعہ پر آپ نے ایریا سٹڈی سنٹر پشاور یونیورسٹی میں قازقستان کلچرل سنٹر کا باقاعدہ افتتاح بھی کیا، اور مستقبل میں دونوں ممالک کے ثقافتی تعلقات بڑھانے کے تعاون کی یقین دہانی بھی کرائی۔ اسی کلچر سنٹر کی افتتاحی تقریب کے موقعہ پر موجود چین، روس، ایران اور وسطی ایشیائی ممالک کے سفیروں نے شرکت کی ۔
پشاور میں ایرانی کونسل جنرل محمد باقر بیگی نے علاقائی امن اور ترقی میں پاکستان اور ایران کے کردار پر تاریخی حوالے سے بات کرتے ہوئے آر سی ڈی کا ذکر بھی کیا، جس میں پاکستان، ایران اور ترکی رکن ہیں۔ آپ نے کہا کہ اس خطے کی خوشحالی اس خطے کے ممالک کے قریبی روابط میں ہے۔ آپ نے کہا کہ پاکستان اور ایران کے درمیان مختلف شعبہ جات میں تعلقات ہیں۔ ان شعبہ جات میں سیاسی، ملٹری، معاشی، ثقافتی اور مذہبی تعلقات کی جہات شامل ہیں۔
روسی سفارت خانے کی نمائندگی ان کے سیکنڈ سیکرٹری الیگزینڈر نے کی۔ اس موقعہ پر آپ نے کہا کہ بی آر آئی ایک بلند نظر اور حوصلہ مند منصوبہ ہے۔ میں یوروشین سٹیٹس کے تعاون اور ہمکاری ہوگی۔ یوروشین یونین میں تنوع موجود ہے اور اس میں مختلف مذاہب اور ثقافتوں کے لوگ رہتے ہیں۔ خطے کے اتصال اور ترقی میں بی آر آئی ایک پہلی مثال ہے۔
پاکستان میں واقع مختلف ممالک کے سفارت خانوں کے سفیروں اور نمائندوں کی اس نشست کے بعد اسی دن سابق وائس چانسلر پشاور یونیورسٹی ڈاکٹر عظمت حیات خان کی صدارت میں علمی نشست شروع ہوئی جس میں ازبکستان کے سادولو رسولوف، کرغزستان کے پروفیسر کانا ایدرکل، ایران کے ڈاکٹر فریسہ شاہ محمدی اور پاکستان کے ڈاکٹر نواز جسپال نے اپنے مقالے پڑھ کر سنائے۔ ڈاکٹر سادولوف نے کہا کہ اس عظیم منصوبے میں ستر ممالک شامل ہیں ،جن کی آبادی ساڑھے چار بلین ہے۔ اس خطے کے ممالک کی بی آر آئی میں شامل ہونے کے عوامل میں اقتصادی بحران سرِ فہرست ہے۔ ازبکستان پہلی ریاست تھی کہ جس نے اس ابتدائی قدم کی حمایت کی ۔
ڈاکٹر فریسہ شاہ محمدی نے کہا کہ بی آر آئی ایک بڑا منصوبہ ہے۔امریکہ اس بارے اچھی سوچ نہیں رکھتا۔
بارہ ستمبر 2019ء کو اس بین الاقوامی کانفرنس کا دوسرا دن شروع ہوا۔ دوسرے دن پہلی نشست کی صدارت آئی ایم سائنسز پشاور کے ڈائریکٹر ڈاکٹر محمد محسن خان نے کی۔ اس نشست میں روسی مندوب لیونیڈ ساوین، افغانستان سے ڈاکٹر عبدالباقی امین اور پاکستان سے شکیل درانی اور سلیمان یوسف نے سی پیک، بی آر آئی اور خطے کی ترقی کے موضوعات پر اپنے مقالے سنائے ۔
دوسرے دن کی دوسری نشست میں قازقستان کے نمائندے ڈاکٹر سید علی، بریگیڈئر اختر نواز جنجوعہ نے، کرغزستان سے ڈاکٹر ادینوف، تاجکستان سے ڈاکٹر بختیار اور سی پیک سنٹر اسلام آباد سے پروفیسر ڈاکٹر عامر خان نے اپنے مقالے سنائے ۔
تاجکستان کے ڈاکٹر بختیار نے اس حوالہ سے کہا کہ جب مَیں نے دوشنبے میں کانفرنس کا دعوت نامہ وصول کیا، اور گھر پر جا کر کہا کہ مَیں پاکستان میں پشاور جا رہا ہوں، تو گھر والوں نے بہت پریشانی ظاہر کی کہ وہاں تو جنگ اور دہشت گردی ہے، اور آپ کو قتل کر دیے جائیں گے، لیکن جب مَیں یہاں آیا اور امن و سکون دیکھ کر اندازا ہوا کہ میڈیا نے بہت منفی طریقے سے پشاور اور پاکستان کو دنیا کے سامنے پیش کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پشاور میں رہ کر بڑا مزا ایا اور اسی طرح منفی پروپیگنڈا بھی عیاں ہوا۔
اس دو روزہ بین الاقوامی کانفرنس کے بیرونی مندوبین نے پشاور شہر کے مختلف بازاروں، تاریخی مقامات بشمول قلعہ بالا حصار اور اسلامیہ کالج پشاور کی سیر بھی کی۔ اس کے علاوہ انہوں نے خیبر پختونخوا اسمبلی کا بھی دورہ کیا، اور اسمبلی کے سپیکر مشتاق غنی نے بھی ان سے باہمی تعلقات کے موضوع پر بات چیت کی۔
دو روزہ بین الاقوامی کانفرنس کی اختتامی تقریر میں ایریا سٹڈی سنٹر کے ڈائریکٹر پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خان نے بیرونی ممالک کے مندوبین، سفارت کاروں، مختلف یونیورسٹیوں کے شرکا، طالب علموں، سیکورٹی اداروں، میڈیا کے نمائندوں، تمام منتظمین اور خصوصی طور پر ایریا سٹڈی سنٹر کے فیکلٹی ممبرز ڈاکٹر شفیع، ڈاکٹر خلیل الرحمان، عبداللہ ، ڈاکٹر احمد فرحان سعید اور راقم (ڈاکٹر محمد علی دیناخیل) کا شکریہ ادا کیا۔ ساتھ مستقبل میں اس طرح کی علمی اور سفارتی کانفرنسوں کو جاری رکھنے کا عہد بھی کیا۔
………………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔