رحیم شاہ رحیمؔ پشتو ادب میں اپنے فن اورفکر کے حوالہ سے ایک جانا پہچانا نام ہیں۔ پشتو زبان و ادب میں تاریخی ناول، تحقیقی کتب اور علمی مقالے ان کی وجۂ شہرت ہیں۔ اس کے علاوہ صنفِ شاعری میں بھی وہ اپنا لوہا منوا چکے ہیں۔
رحیم شاہ رحیمؔ نے 4 اپریل 1954ء کو عقل مند کے ہاں جنم لیا۔ انہیں بچپن ہی سے لکھنے پڑھنے کا شوق تھا۔ زمانۂ طالب علمی سے وہ بزمِ ادب کی محفلوں میں بھر پور حصہ لیتے تھے۔ ابھی طفل مکتب تھے کہ ریاستِ سوات کے معروف شاعرفضل الرحمان فیضانؔ کی شاگردی اختیار کی، اور ان سے شاعری کی اصلاح لیتے رہے۔ ساتھ ساتھ فنِ خطاطی میں بھی ان کے زیرِ سایہ مہارت حاصل کی۔ بعد میں وہ اس فن میں اتنے ماہر ہوئے کہ ان کی عام تحریربھی خطاطی کے اُصولوں پرپورااُترتی۔
رحیم شاہ رحیمؔ نے میٹرک تک کی تعلیم مینگورہ میں گورنمنٹ ہائی سکول نمبر 1 سے 1973ء میں پورا کی۔ ایف ایس سی 1975ء اور بی اے 1978ء میں گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج جہانزیب سیدو شریف سے کیا۔ اس طرح 1980ء میں پشاور یونی ورسٹی سے پشتو ادبیات میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کی، جب کہ بعد میں اُردو اور اسلامیات میں بھی ماسٹر کیا۔
انہوں نے عملی زندگی کی ابتدا 1980 ء میں مسلم کمرشل بینک میں ایک کیشئر کے عہدہ سے کی۔ بعدمیں اپنی ایمان داری اورفرض شناسی کی بدولت بینک آفیسرکے عہدے تک پہنچے۔ وفات تک وہ اسی شعبہ سے وابستہ رہے۔
پشتو زبان میں تحقیق نگار گنے چُنے ہیں، جن میں رحیم شاہ رحیمؔ کا نام احترام سے لیا جاتا ہے۔ وہ ’’پشتو اکیڈمی پشاور‘‘ سے پشتو زبان میں شائع ہونے والے ماہانہ میگزین میں ’’تیر ہیر شاعران‘‘ کے عنوان سے تحقیقی مضامین تحریرکیا کرتے تھے۔ اُن کے مذکورہ مضامین اُن شعرائے کرام کے تذکرے ہوتے تھے، جنہوں نے پشتو زبان میں شاعری کی تھی۔ وہ اُن گمنام شعراکی تلاش میں مختلف گاوؤں میں گھرگھر جاتے اورپوری تحقیق کے بعدان کے شعری نمونے حاصل کرتے، بعد میں ان کے فن اور شخصیت پر مضمون تحریر کرتے، جس سے پشتو ادب کی نثر میں ایک گراں قدر اضافہ ہوتا جاتا۔
پشتو نثر میں اگر ناول نگاری پربات کی جائے، تو شاعری کی نسبت نثر کم تعداد میں شائع ہوتی ہے۔ اس طرح پشتو ادب میں ناول کی تعداد بھی کم ہے۔ رحیم شاہ رحیمؔ نے پشتو زبان میں تین تاریخی ناولوں کے ذریعے پشتو ادب میں تاریخی ناول نگاری کی بنیاد رکھی۔ یوں پشتو ادب کے پہلے تاریخی ناول نگار کا لقب پانے میں بھی کامیاب رہے۔ سوات میں بدھ مت کے آخری راجہ (راجہ گیرا) پر محمودِ غزنوی کی فوج کشی کے پس منظر میں لکھا گیا ’’راج گنڑہ‘‘ ان کا پہلا ناول ہے۔ ناول کی کہانی سوات میں غزنوی فوج کے سپہ سالار ’’خوشحال‘‘ کی راجہ گیرا کو شکست دینے، راجہ کی بیٹی ’’منجا دیوی‘‘ کے عشق میں مبتلا ہونے اور پھر شہادت پانے کا احاطہ کرتی ہے۔ اس طرح کے دیگر تاریخی واقعات بھی اس ناول میں زیرِبحث ہیں۔
رحیم شاہ رحیم ؔکا دوسرا ناول ’’بی بی مبارکہ‘‘ ہے۔ مغل بادشاہ بابُر اور یوسف زئی قبائل کے درمیان ہونے والی جھڑپیں اس ناول کا موضوع ہیں۔ بابُر نے جب افغانستان سے ہندوستان پر حملے کا قصد کیا، تو ان کا گزر یوسف زئی قبائل کی سرزمین سے ہوا۔ جب بابُر کو یوسف زوؤں کی طرف سے بھر پور مزاحمت کا سامنا ہوا، تو اُس نے صلح میں ہی عافیت جانی۔ اُس نے یوسف زئی قبیلے کے اس وقت کے سردار کی بیٹی ’’بی بی مبارکہ‘‘ کے ساتھ نکاح کرلیا اور اس طرح سے مغل بادشاہ کی فوج نے راہ پائی۔ 1519ء کے اس قبیل کے تمام واقعات اس ناول کا موضوع ہیں۔
رحیم شاہ رحیمؔ کے تیسرے ناول کا موضوع بھی سوات کی تاریخ کے متعلق ہے۔ جب سکندرِ اعظم اپنے فتح کے جھنڈے گاڑتا ہوا افغانستان کے راستے’’ کُنڑ‘‘ کے ذریعے سوات میں داخل ہوا، تو یہاں سے گزرتے ہوئے سکندرِ اعظم کو لوہے کے چنے چبانا پڑے تھے۔ سکندر یہاں کے لوگوں کی بہادری اورجفاکشی سے اتنا متاثرہوا کہ یہاں کو فتح کرنے کے بعد اُس نے اِن علاقوں سے لوٹتے وقت ’’روشنک‘‘ نامی خاتون کے ساتھ شادی کی۔ القصہ، یہ ناول سکندرِ اعظم کی فوج کی ان علاقوں سے گزرنے کی داستان بیان کرتا ہے۔
جیسا کہ ذکر ہوچکا کہ رحیم شاہ رحیمؔ ایک اچھے نثر نگار ہونے کے ساتھ ساتھ اچھے شاعرکے طور پر بھی مانے جاتے ہیں۔ انہوں نے پشتو ادب کے میدان میں تین شعری مجموعے بطورِ نمونہ چھوڑے ہیں،جن میں ’’پیکڑے‘‘، ’’غرسنئی‘‘ اور زلزلے‘‘ شامل ہیں۔ شاعری میں ان کا سب بڑا کارنامہ ’’سوات نامہ، جواب نامہ‘‘ ہے۔ انہوں نے یہ کتاب خوشحال ؔباباکی کتاب ’’سوات نامہ‘‘ کے ردِ عمل کے طور پر لکھی۔ خوشحال خان خٹک 1084 ہجری میں سوات تشریف لائے تھے۔ اُن کے آنے کا مقصدمغل کے خلاف ایک بڑی فوج تیار کرنا تھا، مگر خوشحال ؔبابانے اُس وقت یوسف زئی قبائل کے مذہبی معاملات میں مداخلت کی،جو اُس زمانے کے علمائے کرام کو گوارا نہ ہوئی۔ اس بات کی بنیاد پر یوسف زئی قبائل نے خوشحالؔ بابا کی کوئی مددنہیں کی۔ نتیجتاً انہیں یہاں سے خالی ہاتھ لوٹنا پڑا۔ یوں خوشحالؔ خان بابا نے ایک طرح سے ردِ عمل کے طور پر ’’سوات نامہ‘‘ کے عنوان سے مثنوی تحریرکی، جس میں انہوں نے یوسف زئی قبائل کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔ مذکورہ مثنوی میں بعض تاریخی حقائق سے پردہ اُٹھایا گیا ہے، مگر تضحیک کا عنصر عیاں ہونے کی بنا پر یہ قابلِ اعتراض ہے۔ رحیم شاہ رحیمؔ کا ذکر شدہ شعری مجموعہ (سوات نامہ، جواب نامہ) اسی ’’سوات نامہ‘‘ کا جواب ہے۔ انہوں نے بڑے مدلل انداز اور تاریخی حوالوں کے ساتھ جواب آں غزل کے طور پر مذکورہ مثنوی لکھی۔ اس کاوش پر رحیم شاہ رحیم ؔ کو ’’اباسین آرٹ کونسل‘‘ کی جانب سے 2008ء میں ایوارڈ سے بھی نوازاگیا۔
رحیم شاہ رحیمؔ پشتو زبان میں ایک مستندمحقق مانے جاتے ہیں۔ انہوں نے سوات اور ملاکنڈ کے 87 شعرا کے تذکروں پر مشتمل کتاب ’’واورینے سوکے‘‘ کے نام سے تحریر کی تھی، جس میں مختلف شعرا کے فن اور شخصیت پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ اس کا دیباچہ خود بھی ایک مستند تحقیقی مقالہ ہے، جس میں ان علاقوں کی تاریخی اہمیت بیان کی گئی ہے۔ اس طرح انہوں نے اپنے ہم عصر شعرا کے فن اور شخصیت کو تاریخ کے صفحات میں محفوظ کیا ہے، تاکہ آنے والے ادبی مؤرخ اس مواد سے بے دھڑک استفادہ کرسکیں۔
اس کے علاوہ رحیم شاہ رحیمؔ نے ’’احمد دین طالب‘‘ کے غیر مطبوعہ چاربیتے (پشتو صنفِ شاعری) بھی جمع کیے ہیں، جس پر کام ان کی زندگی ہی میں مکمل ہوگیا تھا۔ جلدیہ کتاب بھی قارئین کے ہاتھ میں ہوگی۔
رحیم شاہ رحیمؔ کو عوام الناس ایک شاعر اور ناول نگارکے طور پر پہلے سے جانتے تھے، لیکن جب انہوں نے تحقیق کے میدان میں قدم رکھا، تو کچھ ایسے مقالے تحریر کیے جو آج دلیل کے طور پر پیش کیے جاسکتے ہیں۔ مشتے نمونہ از خروارے کے مصداق کتاب’’غٹہ خزانہ‘‘ رحیم شاہ رحیمؔ کی ایک بڑی تحقیق ہے۔ وہ اس کتاب پر فخرکرتے تھے۔ اس کا ذکر اکثر دورانِ گفتگو سننے میں آیا کرتا۔ اس کتاب کا موضوع بھی سوات اور ملاکنڈ ڈویژن کے وہ نامور شعرائے کرام ہے جو اپنے زمانے کا مشہور و معروف نام تھے، مگر زمانے کی گرد کی دبیز تہ تلے آکر گمنامی کا شکار ہوئے۔ یہ کتاب ان شعرا کے فن اور شخصیت کے نمونوں سے آراستہ و پیراستہ ہے۔ پشتو ادب میں رحیم شاہ رحیمؔ کا تحقیقی کام عبدالحی حبیبی کی کتاب ’’پٹہ خزانہ‘‘ اور ہمیش خلیل کی ’’پختانہ لیکوال‘‘ کے ہم پلہ سمجھا جاتا ہے۔ ان کی یہ دلی خواہش تھی کہ مذکورہ کتاب ان کی زندگی میں زیورِ طبع سے آراستہ ہو، مگر اُن کی اچانک موت مذکورہ خواہش کو پورا کرنے میں رکاوٹ بنی۔
ان کی وفات سے کوئی دس دن پہلے مجھے ان کے مہمان بننے کا شرف حاصل ہوا۔ اس دن مجھے ان کی ذاتی لائبریری دیکھنے کا موقعہ ملا، جس میں پڑی نادر کتب اور قلمی نسخوں پر ان کا تحقیقی کام نظر سے گزرا۔ ان کے َادھورے کاموں میں ایک ’’تاریخِ سوات‘‘ کانسخہ بھی تھا، جس کا کچھ حصہ میں نے پڑھا بھی ہے۔ اس کے علاوہ ان کے ساتھ ایسے قیمتی تحقیقی مقالے تیار پڑے تھے، جو انہوں نے مجھے دکھائے۔ شائد اس ملاقات کا مقصد یہ تھا کہ وہ مجھے بتانا چاہتے تھے کہ ترتیب وار یہ تمام کام شائع ہوگا، مگر زندگی نے ان کے ساتھ وفا نہیں کی اور پشتو زبان وادب کا یہ نامور خدمت گار 5 دسمبر 2007ء کو حرکتِ قلب بند ہونے کے سبب چل بسا۔ ان کی موت پر پشتو زبان و ادب میں ایک ایسا خلا پیدا ہوا جو آج تک پُر نہ ہوسکا۔
رحیم شاہ رحیمؔ کو اپنی علمی، تحقیقی اور ادبی خدمات کے طور پر نہ صرف سوات بلکہ پورے خیبر پختونخوا میں جانا اور مانا جاتا ہے۔ بجا طور پر وہ بحیثیتِ محقق اور ناول نگار شہرت رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ شاعری میں بھی ایک منفرد اُسلوب اور جدید نظم کے شاعرکے طور پر ان کی الگ پہچان ہے۔
رحیم شاہ رحیمؔ ایک علمی و ادبی شخصیت تھے۔ چال ڈھال انتہا کے نستعلیق، وہ جس محفل میں شرکت کرتے، اسے اپنے نام کردیتے۔ شرکائے محفل علمی مباحث سے مستفید ہوا کرتے۔ ان کے گرد ایک حلقہ سا بنا رہتا۔ ان کے بھائی محمدعالم (جو خود بھی انگریزی ادبیات میں ماسٹر ڈگری ہولڈر ہیں اورادبی ذوق کے مالک ہیں) کے بقول، رحیم شاہ رحیم کہتے تھے کہ ’’میری ایک کتاب ایسی ہے جو میری موت کے بعد شائع کی جاسکتی ہے۔‘‘
رحیم شاہ رحیم ؔآج ہمارے درمیان موجود نہیں، مگر آج ہم اُنہیں اُن کے علمی اور تحقیقی کام کی بنا پر یاد کرتے ہیں۔ وہ اپنی شاعری اور ادبی خدمات کی وجہ سے ہمیشہ کے لیے زندہ رہیں گے۔ اللہ انہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے، آمین!
(کتاب ’’غٹہ خزانہ‘‘ پر فضل ربی راہیؔ کی لکھی گئی تقریظ کا ترجمہ، سجاد احمد)
……………………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔