سفید ریش، میانہ قد، گندمی رنگت، درمیانی چال، ہنسوڑ، مشفقانہ لہجہ، بشرے سے ذہانت و متانت ظاہر، چال ڈھال نستعلیق، اندازِ گفتگو مدلل،ٹھہر ٹھہر کر بولنے کا انداز اور کانوں میں رس گھولتی آواز، یہ تمام رنگ ملالیں، تو ذہنی کینوس پر اک بارُعب مگر من موہنی سی تصویر بنتی محسوس ہوتی ہے۔ احمد فراز ؔکے بقول
سنا ہے ایسا مسیحا کہیں سے آیا ہے
کہ اس کو شہر کے بیمار چل کے دیکھتے ہیں
اس ایک شخص کو دیکھوں تو آنکھ بھرتی نہیں
اس ایک شخص کو ہر بار چل کے دیکھتے ہیں
جی ہاں، تذکرہ ہو رہا ہے ہیڈ ماسٹر (ر) غلام احد صاحب کا جن سے من کا جوت جگانے والے آخرین بھی آج تیس چالیس کے پیٹے میں ہوتے ہوں گے۔ بیشتر صاحبِ اولاد ہوں گے۔ بلاشبہ داداؤں اور ناناؤں کی بھی اچھی خاصی کھیپ تیار ہوچکی ہوگی۔ آج اگر ہیڈ ماسٹر صاحب ڈھونڈنے نکلیں، تو اُن کے سیکڑوں شاگردوں میں انہیں مختلف شعبہ ہائے زندگی میں خدمات انجام دینے والوں کی ایک بڑی تعداد مل جائے گی۔

ہیڈ ماسٹر صاحب کی اپنے دونوں صاحبزادوں اور داماد معتبر خان شاہزادہ کے ساتھ ایک یادگار تصویر۔

ہیڈ ماسٹر صاحب کے بقول انہوں نے 19 مارچ 1938ء کو حافظ مسافر میر خیل کے ہاں جنم لیا۔ اپنی یادوں کی پوٹلی کھولتے ہوئے کہتے ہیں کہ سنہ 1960 ء کو شعبۂ درس و تدریس سے منسلک ہوئے اور گھر (مینگورہ) سے دور گورنمنٹ سکول بنجوٹ میں نونہالانِ وطن کی تعلیم و تربیت میں جُت گئے۔ اُن دنوں تانگہ عوام الناس کی نقل و حمل کا تیز ترین ذریعہ تھا۔ کم ہی لوگوں کو تانگے کی سواری بادِ بہاری نصیب ہوا کرتی تھی۔ ’’ایک سال بنجوٹ میں پڑھانے کے بعد مجھے ٹریننگ کی غرض سے ہری پور بھیج دیا گیا۔ وہاں پورا ایک سال درس و تدریس کے حوالہ سے مختلف ورکشاپس وغیرہ کا سلسلہ چلتا رہا۔ ٹریننگ حاصل کرنے کے بعد مَیں واپس ریاستِ سوات آیا۔ اس وقت سید یوسف علی شاہ جو کہ ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ میں انسپکٹر تھے، نے مجھے گورنمنٹ پرائمری سکول مرغزار بھیج دیا۔‘‘
ان دنوں چوں کہ پبلک ٹرانسپورٹ نہ ہونے کے برابر تھا، اس لیے ہیڈ ماسٹر صاحب سائیکل پر سوار ہوکر پو پھٹے گھر سے نکلا کرتے، اور شام کے سائے گہرے ہونے سے پہلے واپس اپنے آشیانے لوٹ آتے۔ کہتے ہیں: ’’مرغزار میں تین ماہ بہ مشکل پورے کیے ہوں گے کہ وہاں کے انچارج نے مجھ سے خدا واسطے کا بیر رکھنا شروع کیا۔ اول اول تو جیسے تیسے مَیں برداشت کرلیتا، مگر جب پانی سر سے گزرنے لگا، تو مَیں نے سید یوسف علی شاہ صاحب سے انچارج کے ناروا سلوک کی شکایت کردی۔ نجانے کس طرح بات والیِ سوات تک پہنچ گئی۔ انہوں نے مجھے اور انچارج صاحب دونوں کو حاضر ہونے کا حکم صادر فرمایا۔ جہاں دونوں کو فرداً فرداً سننے کے بعد انچارج صاحب گناہگار قرار پائے اور سزا کے طور پر ان کا تبادلہ شانگلہ کیا گیا۔ دوسری طرف شائد میری فرض شناسی، بروقت سکول حاضری اور طلبہ کی کارکردگی کو دیکھتے ہوئے انہوں نے میرا تبادلہ ودودیہ سکول سیدو شریف کردیا۔ جہاں مَیں نے پورے 12 سال فرائض انجام دیے۔‘‘
اس دوران میں ریاستِ سوات، پاکستان میں مدغم ہوئی۔ سنہ 1973ء تک ہیڈ ماسٹر صاحب پرائمری ٹیچر کے طور پر ودودیہ سکول میں پڑھاتے رہے۔ 1973ء کو ان کا تبادلہ گورنمنٹ ہائی سکول نمبر 3 شاہدرہ وتکے ہوا۔ پرائمری سکول اس عمارت کے اندر کچھ کمروں پر مشتمل تھی۔ کچھ ہی دنوں بعد انہیں ہیڈ ماسٹر کے طور پر خدمات انجام دینے کا کہا گیا اور سبک دوشی تک یعنی پورے 24 سال ایک ہی جگہ ٹکے رہے۔ کہتے ہیں: ’’یہاں (شاہدرہ ) میرے ماتحت رفقائے کار کی تعداد 22 تھی۔ وہ سبھی اچھے لوگ تھے مگر اُن میں (مرحوم) عمر ڈیر استاد صاحب کمال کی شخصیت ہو گزرے ہیں۔ جی ایچ ایس نمبر 3 شاہدرہ میں مرحوم کا اخلاقی سپورٹ گویا میرے بازوؤں کی طاقت تھا۔ اقبالی خان، بحرِ کرم، گل رحمان استاد صاحب وغیرہ سبھی نے اس وقت کے طلبہ کی بہتر تعلیم و تربیت کے سلسلہ میں میرا بوجھ ہلکا کرنے کی کوشش کی۔ ان کے علاوہ پیرداد استاد صاحب اور منگلور کے خیر الامان مولوی صاحب بھی اُس فہرست میں شامل ہیں، جنہیں آج بھی مَیں اپنی دعاؤں میں یاد رکھتا ہوں۔‘‘
ہیڈ ماسٹر صاحب، ریاستِ سوات کے دور کو تعلیم کے حوالہ سے سوات کا سنہری دور گردانتے ہوئے کہتے ہیں: ’’اُس دور میں طلبہ کو ریاست کی طرف سے گاڑھا دودھ ’’کلاس وائز‘‘ دیا جاتا تھا۔ ایک صحت مند جسم میں ہی صحت دماغ ہوتا ہے، اس مقولہ کو مدنظر رکھتے ہوئے ہر سرکاری سکول کے ساتھ ایک اچھے کھیل کے میدان کا اہتمام بھی کیا جاتا تھا۔ ڈرل اور تفریح کے دوران میں مذکورہ میدان میں طلبہ کھیلتے کودتے۔ اس طرح کبھی کبھار گھی کا چھوٹا کنستر بھی طلبہ و طالبات کو تھما دیا جاتا، تاکہ انہیں بھی سالن میں گھی کا تار ملا کرے۔‘‘
ہیڈ ماسٹر صاحب نے سنہ 70 عیسوی میں باقاعدہ طور پر ٹیوٹر کی حیثیت سے بھی پڑھانا شروع کیا۔ تقریباً سنہ 80 عیسوی کو اپنے آشیانہ واقع تاج چوک کو ایک طرح سے ٹیوشن سنٹر کا درجہ دیا۔ جہاں کھاتے پیتے گھرانوں کے بچے مناسب فیس ادا کرکے انگریزی، اردو اور ریاضی کی ٹیوشن لینے آتے، اور ہم جیسے افلاس زدہ جن کی تعداد اچھی خاصی تھی، بلامعاوضہ پڑھنے جایا کرتے۔ میرا داخلہ سنہ 1986ء کو اُس وقت ہوا تھا جب میں ادنیٰ جماعت کا طالب علم تھا۔ اور یہ سلسلہ پورے دس سال تک (بلامعاوضہ) چلا۔ ٹیوشن سنٹر میں ہیڈ ماسٹر صاحب کا ہاتھ ان کے بڑے صاحب زادے خورشید علی صاحب بٹایا کرتے تھے۔ عموماً انگریزی اور اردو کے مضامین خورشید صاحب اور ریاضی کا مضمون ہیڈماسٹر صاحب کے ذمے ہوا کرتا۔ اُن دنوں خورشید صاحب مثالی گوشمالی اور ہیڈ ماسٹر صاحب کمال شفقت کے لیے مشہور تھے۔

ہیڈ ماسٹر (ر) غلام احد کی اپنے بڑے صاحبزاے خورشید علی کے ساتھ ایک یادگار تصویر۔

ہیڈ ماسٹر صاحب نے ریاست کے انصاف کے حوالہ سے ایک سوال کے جواب میں اپنے ذاتی تجربہ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا: ’’اس دور کی خامیاں اپنی جگہ، مگر یہ تھا کہ انصاف بروقت ملتا تھا۔ جیسے میرے ایک چچا زاد بھائی (بوجوہ ان کے نام کا حوالہ یہاں نہیں دیا جاسکتا) نے ہماری ایک قطعۂ زمین پر قبضہ جمایا تھا۔ اس حوالہ سے مَیں نے رپورٹ کردی، مگر وہ میرے مقابلہ میں زیادہ بااثر تھا، اس لیے حاکم اور تھانیدار دونوں نے اس کی طرف داری کی۔ والی صاحب اُن دنوں غالباً یورپ کے دورہ پر تھے۔ میری چوں کہ نہیں سنی جا رہی تھی، اس لیے مَیں اپنی عرضی لے کر ولی عہد ’’اورنگزیب‘‘ کے پاس گیا۔ ایک معلم کی حیثیت سے انہوں نے میری کافی آؤ بھگت کی، مجھے ایک الگ کمرے میں لے گئے اور بھرپور توجہ سے میری بات سنی۔ انہوں نے اُسی وقت مذکورہ حکیم کو دربار میں حاضر ہونے کا کہا اور جیسے ہی وہ ہانپتا کانپتا ولی عہد صاحب کے سامنے کھڑا ہوا، تو انہوں نے قدرے تلخ انداز سے کہا کہ ’’دی پلار لہ یو جواب ورکئی!‘‘ ساتھ ہی حاکم صاحب کو یہ بھی حکم دیا گیا کہ ’’ماسٹر صاحب کے گھر پہنچنے سے پہلے مسئلہ ہونا چاہیے!‘‘ ویسا ہی ہوا، گھر پہنچنے سے پہلے زمین کی حوالگی کے لیے متعلقہ ادارے کے کارندے دروازے پر کھڑے تھے۔ یوں مسئلہ بغیر کسی اَن بَن کے حل ہوا۔‘‘
اپنے شاگردوں کو متاعِ عزیز گردانتے ہوئے کہتے ہیں:’’میرے شاگرد مجھے اپنی اولاد سے زیادہ عزیز ہیں، جہاں کسی سے آمنا سامنا ہوجاتا ہے، تو مجھے یک گونہ خوشی کا احساس ہوتا ہے۔ تقریباً سبھی دست بستہ کھڑے ہوکر مجھے عزت دیتے ہیں۔‘‘ اپنے عزیز شاگردوں میں ڈاکٹر نثار (فزیشن) کو بطورِ خاص یاد کرتے ہیں۔
ہیڈ ماسٹر صاحب چوں کہ ایک حافظِ قرآن کے جگر گوشے ہیں۔ خدا بخشے حافظ (مرحوم) بلامعاوضہ نمازِ باجماعت پڑھاتے تھے، بچوں کو دینی تعلیم دیا کرتے تھے اور بطورِ خاص ہمہ وقت بے قرار رہنے والے شیرخوار بچوں کو دم کیا کرتے تھے۔ ان کے پاؤں میں کالے کپڑے میں تعویذ باندھ کر دیا کرتے تھے۔ آخری ایام میں دم درود اور تعویذ لکھنے کے لیے حافظ (مرحوم) نے صاحب زادوں میں سب سے بڑا ہونے کی حیثیت سے ہیڈ ماسٹر صاحب کو منتخب فرمایا، اور تاکید کی کہ اس کارِ خیر کے لیے کسی سے ایک پائی بھی نہیں لینی۔ آج بھی وہ روتے بے قرار شیر خوار جن کی دوا اکثر نہیں ہوپاتی، ہیڈ ماسٹر صاحب کی قرآنی آیات کے دم یا کالے کپڑے کے مذکورہ سادہ سے تعویذ سے پُرسکون ہوجاتے ہیں۔
19 مارچ 1998ء کو پورے اَڑتیس سال نونہالانِ وطن کی تعلیم و تربیت احسن طریقہ سے کرنے کے بعد سبک دوش ہوگئے۔ کچھ نجی تعلیمی اداروں نے آپ کی خدمات حاصل کرنے کی کوشش کی۔ ان میں ایک ’’پاک امریکن اسکول‘‘ تھا، جہاں آپ اک آدھ ماہ پرنسپل کے طور پر خدمات انجام دینے کے بعد تعلیمی میدان سے مکمل طور پر کنارہ کش ہوگئے۔ کہتے سنے گئے: ’’اب تھوڑا آرام کرنا چاہتا ہوں۔‘‘ آپ کو 1992ء میں حج اور 2015ء میں عمرہ کی سعادت حاصل ہوئی۔ آپ کو نیک اولاد نصیب ہوئی، دو صاحب زادے اور چار صاحب زادیاں ہیں۔ سبھی صاحب زادیوں کے ہاتھ پیلے ہوئے بھی ایک مدت گزر چکی ہے۔ پوتوں، پڑپوتوں اور نواسوں کی شکل میں درجنوں آپ کی لمبی عمر کے خواست گار ہیں۔ آپ کے ونوں صاحبزادے بھی شعبۂ درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔ بڑے صاحبزادے خورشید علی سینئر ایس ایس ٹی ٹیچر (سترہ گریڈ) ہیں جب کہ چھوٹے افتخار حسین المعروف بابو صیب بھی ایس ایس ٹی (سولہ گریڈ) ہیں۔ دونوں گورنمنٹ ہائیر سیکنڈری سکول نمبر 2 حاجی بابا میں اپنے فرائضِ منصبی انجام دے رہے ہیں۔ آج کل ہیڈ ماسٹر صاحب کی صحت کافی گر چکی ہے۔ آپ اپنے اہل و عیال، شاگردوں اور تمام حیات رفقائے کار کے ساتھ ساتھ عوام الناس سے دعا کی اپیل کرتے ہیں۔
قارئین کرام، مجھے اس حوالہ سے چپڑی اور دو دو کے مصداق یہ شرف حاصل ہے کہ مَیں نہ صرف آپ جناب کا ایک نالائق شاگرد رِہ چکا ہوں بلکہ آپ کی سب سے بڑی صاحبزادی کا بڑا بیٹا بھی ہوں، یعنی آپ جناب میرے نانا جی ہیں۔

…………………………………………..

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔